Episode 4 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر4 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

ٹاؤن شپ سے واپسی پر رات نانی میرے کمرے میں آئیں ۔ وہ میرے زخموں پر مرہم لگانا چاہتی تھیں۔اب نانی کو کوئی بتائے زخم تو پہلے ہی ایک اپسرا نے بھر دیے تھے۔
”مہروز بیٹا!! میں نے تمھاری خالہ کو بہت سمجھایا تھا کہ مہروز بڑا اچھا لڑکا ہے۔ وہ بھی کیا کرتی طلعت اور ثانیہ کو وہ لڑکا بہت پسند تھا۔“ نانی کی یہ بات سُن کر مجھے 440وولٹ کا کرنٹ لگا ۔

”ثانیہ کو․․․․․․؟“
”ہاں․․․․․․ طلعت کے کزن کا بیٹا ہے․․․․․پراپرٹی ڈیلر ہے․․․․․․ ثانیہ اُسے پسند بھی کرتی تھی․․․․․․ ثانیہ کو کچھ کہنا ہی نہیں پڑا․․․․․․ طلعت نے ثانیہ سے پوچھا اُس نے فوراً ہی اپنی رضا مندی ظاہر کر دی ۔“
”کسی کو محبت بن مانگے ہی مل جاتی ہے اور کوئی مانگ کر بھی خالی ہاتھ ہی رہتا ہے۔

(جاری ہے)

“میں نے بڑے شاعرانہ انداز میں نانی سے کہاتھا۔


…#…
اُس دُور میں موبائل عام نہیں تھاالبتہPTCLکے نمبر کا سہارا ضرور تھا۔ جو بسمہ کے گھر میں پہلے سے موجود تھا۔ مجھے یہ سہولت بھی میسر نہیں تھی۔ تایا جی اور نبیل کے گھر پر ٹیلی فون تو تھا مگر لکڑی کے باکس میں بند، جس پر ایک تالہ ہمیشہ پڑا رہتا ۔ نبیل کے گھر جو ٹیلی فون تھا اُس فون کی چابی نبیل کے ابّو کے کھیسے میں ہوتی تھی۔
تایا کے گھر جو فون تھا اُس کی چابی تائی کے پراندے کے ساتھ بندھی ہوتی ۔ وہاں سے فون کرنا ایسے ہی تھا جیسے کہ بھوکے شیر کے منہ سے گوشت نکال کر لانا ہو۔ اِس لیے مجبوراًPCOہی سے کال کرنی پڑتی۔ PCOوالے بھی بڑے ظالم تھے عاشقوں سے تو ڈبل پیسے لیتے۔ ایک تو کان لگا کر عاشقوں کی باتیں سُنتے اور دھیما دھیما مسکراتے رہتے۔ پیسوں کی بات آتی تو فوراً ہی آنکھیں ماتھے پر سجا لیتے۔

PCOسے بسمہ کو فون کرکر کے میرا بال بال قرضے میں ڈوب گیا تھا۔ نبیل اور عارفہ سے کئی ہزار روپے میں قرض لے چکا تھا۔ اُن دونوں سے اُدھار لیتا اور سیدھاPCOکی راہ پکڑتا۔ پہلے ماسی فون اُٹھاتی میں کوئی جواب نہ دیتا۔ ماسی جانتے بوجھتے ہوئے بھی گھنی بن جاتیں اور زور سے رانگ نمبر کا نعرہ لگا دیتیں۔ یہ بسمہ کے لیے سگنل ہوتا۔
ماسی کے گھر میں بہو بھی تھی جس سے ماسی محتاط رہتی تھیں۔
ماسی اور نانی کو میری اور بسمہ کی پراون چڑھتی ہوئی محبت کی پوری خبر تھی ۔ماسی بھی چاہتی تھیں کہ میرا اور بسمہ کا رشتہ ہو جائے۔ میں بسمہ کو دیکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا پھر بھی آنکھوں کی پیاس نہیں بجھتی تھی۔ کئی بار تو میں گوالمنڈی سے سائیکل پر سویرے ہی سویرے ٹاؤن شپ کالج روڈ پر واقع بسمہ کے کالج کے باہر اُس سے ملنے کے لیے گیا۔
ملاقات تو نہ ہوپاتی صرف اُسے دیکھ ہی پاتا۔
بسمہ کے تایا کی بیٹی سندس اور اُس کے محلے کی دو لڑکیاں اُس کے ساتھ پڑھتی تھیں جو سب مجھے اچھی طرح سے جانتی تھیں۔ چھ آنکھوں سے بچتے بچاتے میں اور بسمہ صرف آنکھیں چار ہی کر سکتے تھے۔ وہ جیسے ہی ہو جاتیں میں اپنی سائیکل پکڑتا اور ریلوے روڈ پر واقع اپنے ٹیکنیکل کالج کی طرف گولی کی رفتار سے لوٹتا ۔
بسمہ سے آنکھیں چار کرنے کے چکر میں میری تعلیم رفو چکر ہو رہی تھی۔ اکثر مجھے لیٹ ہونے کی وجہ سے کلاس میں داخلے سے روک دیا جاتا ۔
اللہ بھلا کرے بسمہ کے تایا کی بیٹی سندس کا جس نے میری تعلیم کا حرج نہیں ہونے دیا اور یہ بات جاکے ماسی آسیہ کے کان میں ڈال دی۔ اگلے دن جیسے ہی میں نے ماسی کے گھر فون کیا ماسی نے کال رسیو کی :
”ہیلو․․․․․․“ ماسی کی آواز سن کر بھی میں خاموش ہی رہا۔
ماسی کی دوسری طرف سے سرگوشی کے انداز میں دوبارہ آواز آئی :
”مہروز بیٹا تم بسمہ کے کالج مت آیا کرو․․․․․․“ماسی نے صرف اتنا ہی کہا اور فٹ سے فون بند کر دیا۔ ماسی کی بات میرے لیے حکم سے بڑھ کر تھی۔ کیوں نہ ہوتی ایک تو وہ ماں سی تھیں اور دوسری بسمہ کی ماں․․․․․․ میں نے بسمہ کے کالج جانا بند کر دیا۔ پھر ایک دن ماسی نے فون پر دوسرا فرمان بھی سُنا دیا کہ آئندہ صرف تم اتوار والے دن صبح 9سے12کے درمیان ہی بسمہ کو کال کر سکتے ہو۔
میں نے دل پر پتھر رکھ کے ماسی کا یہ حکم بھی مان لیا ۔
بسمہ سے ملاقات کے لیے نہ جانے مجھے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے۔ کسی کی شادی کا کارڈ، کوئی سامان کسی کو ٹاؤن شپ لے جانا ہو مہروز صاحب24/7ہر وقت میسر تھے۔
…#…
جن دنوں میرا بسمہ سے آنکھ مٹکا چل رہا تھا اُسی دوران ایک دن میں چھت پر اپنے کبوتروں کو دانہ ڈال رہا تھا۔

”لو مٹھائی کھاؤ۔“ میں پلٹا نبیل میرے پیچھے کھڑا تھا، اُس کے ہاتھ میں مٹھائی کی پلیٹ تھی۔
”تم آج دُکان پر نہیں گئے“ میں نے برفی کی ایک ڈلی پلیٹ میں سے اُٹھاتے ہوئے پوچھا۔
”آج عالی کی منگنی تھی۔“
”اچھا ․․․․․․کہاں کی ہے۔“
”گوجرانوالہ میں․․․․․․لڑکے کی دودھ دہی کی دُکان ہے۔“
”بھابھی صغریٰ اور خلیل بھائی آئے تھے منگنی پر․․․․․․؟“ میں نے پوچھا ۔
نبیل نے جواب دیا :
”ابّا جی نے منایا تھا“ میں اُن کے خاندانی اختلاف سے واقف تھا اِس لیے مزید بات نہیں کی۔ خلیل بھائی اپنے سالے ظفرو سے عالی کا رشتہ کروانا چاہتے تھے، جس کے حق میں نبیل نہیں تھا ۔ہم دونوں ہی مٹھائی کھاتے ہوئے کچھ سوچنے لگے:
”تم نے لڑکے کے بارے میں نہیں پوچھا․․․․․․؟“ میں مٹھائی کھاتے ہوئے چونک پڑا۔
”تم نے رشتہ کیا ہے تو اچھاہی ہوگا۔

”عالی کو گجروں کے گھر نہیں پیدا ہونا چاہیے تھا۔“ نبیل کی بات سُن کر میں مسکرایا تھا۔ اِس سے پہلے کہ میں کچھ کہتامیں نے دیکھا ایک پلیٹ عالی بھی اُٹھائے ہوئے چھت پر آئی اور آتے ہی نبیل کو پیغام دے دیا:
”ابّا جی بلا رہے ہیں بھائی!“ نبیل جلدی سے نیچے چلا گیا۔
”مبارک ہو عالی!“
”مبارک کس بات کی“ عالی نے تلخی سے پوچھا۔
”تمھاری منگنی ہوئی ہے۔

”شادی نہیں ہوگی جی۔“ عالی نے شکایتی نظروں سے مجھے دیکھا اور یہ بول کر ہمارے گھر کی سیڑھیاں اُتر گئی۔ عالی دکھنے میں حسین تھی۔ وہ ہمیشہ بڑی سی چادرمیں لپٹی رہتی۔ میٹرک تک وہ ہمیشہ کلاس میں فرسٹ ہی آئی مگر اُس نے کالج میں ایڈمشن نہیں لیا۔ نہ میں نے کبھی نبیل سے پوچھا نہ ہی اُس نے بتایا۔ عالی کومیں نے کبھی بھی ننگے سر نہیں دیکھا تھا۔
میرا ماننا ہے پردہ عورت کی خوبصورتی کو چھپاتا نہیں ہے بلکہ بڑھاتا ہے۔ عورت جس قدر کپڑوں میں لپٹی ہوگی وہ اُس قدر ہی پر کشش نظر آئے گی۔ ایسا ہی کچھ معاملہ عالی کے ساتھ بھی تھا۔ وہ اپنے خیالوں میں کھوئی رہتی یا پھر گھر کے کاموں میں مصروف ایک دم شانت گم سم اُس دن میں اُس کا جواب سُن کر حیران رہ گیا تھا۔میں کچھ دیر عالی کے جملے پر غور کرتا رہا پھر دا نے والی پلیٹ اُٹھا کر کبوتروں کو دانہ ڈالنے لگا۔

…#…
”عائشہ!! تم بھی مہروز کی منگنی کردو۔“ میں نے یہ سُنا تو میرے دل نے پھُدکنا شروع کر دیا۔
”ماں جی!! کہاں کردوں منگنی․․․․․․؟“ امّی نے نانی کی بات کو ہلکے میں لیا تھا۔ نانی نے میری طرف دیکھا اور پوچھنے لگیں :
”مہروز!! بسمہ سے کردیں تمھاری منگنی!!“ اس سے پہلے میں کچھ کہتا امی جلدی سے بول پڑیں :
”امّی جی!! بھائی رشید کے سامنے مت کہہ دیجئے گا۔
باجی جو کبھی کبھی ہم سے مل لیتی ہیں رشید بھائی اُس پر بھی پابندی لگا دیں گے۔“
”جانتی ہوں رشید کو بھی اور اُس کے باپ کو بھی․․․․․․ وہ کون ہوتا ہے پابندی لگانے والا․․․․․․ تم اپنی بات کرو․․․․․․؟ تمھیں لڑکی پسند ہے یا نہیں۔“ نانی کی بات ختم ہوئی ۔امی نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا ۔
”آپ کی مرضی!!“ میں نے انجان بنتے ہوئے خشک سے انداز میں کہا تھا۔

”ماں جی!! میں مہروز کے ابّو سے پوچھ لوں۔“امی نے نانی کو ٹالنے کی کوشش کی۔
”میں پوچھ چُکی ہوں اُسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ نانی نے فٹ سے کہہ دیا۔ امی نے حیرت سے نانی کی طرف دیکھا۔ آخر وہ میری ماں کی ماں تھیں۔
”کہا نا․․․․․․پوچھ چکی ہوں۔“ امّی نہ جانے کیا کہنا چاہتی تھیں مگر نانی کو کہہ نہ سکیں۔ نانی پھر میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگیں:
”مہروز تم نبیل سے موٹر سائیکل لے آؤ اور آج ہی مجھے ٹاؤن شپ چھوڑ آؤ۔
جیسے ہی کوئی مناسب وقت ملے گا میں رشید اور آسیہ سے بات کرتی ہوں۔“
میں پوری تیاری کے ساتھ نانی کو لے کر ٹاؤن شپ پہنچا۔ خالو رشید طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے گھر پر ہی تھے خالو کی طبیعت تو کچھ بہتر ہو چکی تھی اُن کو گھر پر دیکھ کر میری طبیعت ضرور خراب ہو گئی۔ ایک لمحے کے لیے بھی خالو نے مجھے اپنی نظروں سے اُوجھل ہونے نہیں دیا۔ میں تو صرف بسمہ کے ہاتھ اور پاؤں ہی دیکھ سکا۔ خالو کی موجودگی میں بسمہ کے گھر رُکنا فضول تھا۔ اِس سے پہلے کہ خالو مجھے خود واپس جانے کے لیے کہتے میں نے عزت سے اُٹھنا ہی بہتر سمجھا۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan