Episode 15 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر15 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

رمضان ہنسی خوشی گزر گیا عید آگئی۔ عید سے چار دن بعد ثانیہ کی شادی خرم سے ہونی تھی۔ہمارے سارے گھر والے ثانیہ کی شادی پر جا رہے تھے سوائے میرے۔ عالی مجھے بھی ساتھ لے جانا چاہتی تھی پر میں تیار نہیں تھا۔
”چلیں نا․․․․․․ آپ اکیلے گھر پر رہ کر کیا کریں گے۔“ عالی نے ضدکرتے ہوئے کہا ۔
”میں تمھیں یاد کروں گا۔“ میں نے بات ٹالنے کی کوشش کی ۔

”لگتا ہے آپ میرے ساتھ خوش نہیں ہیں جی“ عالی نے بُرا سا منہ بنا تے ہوئے پوچھا۔
”یہ تم سے کس نے کہا․․․․․․؟“
”مجھے لگتا ہے․․․․․․اگر آپ میرے ساتھ خوش ہوتے تو ثانیہ کو اب تک بھول چُکے ہوتے۔“
”میں تو بھولنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر تم ہو کہ یاد دلانے پر تُلی ہوئی ہو۔“میں نے خائف ہو کر عالی کو جواب دیا ۔

(جاری ہے)

عالی معصویت سے بیڈ پر بیٹھی ہوئی مجھے ٹک ٹکی لگائے دیکھے جا رہی تھی۔

مجھے اُس پر پیار آگیا :
”دیکھو عالی میں تمھارے ساتھ بہت خوش ہوں۔“
”میں بھی آپ کے ساتھ بہت خوش ہوں․․․․․․میں تو آپ کا امتحان لے رہی تھی کہ اب آپ کے دل میں میرے علاوہ توکوئی نہیں ہے.....مبارک ہو آپ امتحان میں پاس ہوگئے ہو۔“
عالی یہ بول کر بیڈ سے اُٹھ گئی اور وہاں سے جانے لگی۔ میں نے اُس کی کلائی پکڑ لی اورسنجیدگی سے پوچھا :
”اگر میں امتحان میں فیل ہو جاتا تو․․․․․․؟“ عالی کے پاس میرے سوال کا جواب نہیں تھا۔
اُس نے گردن جھُکا لی۔
”میری طرف دیکھو․․․․․․یہ سچ ہے کہ میں نے ثانیہ، بسمہ اور عارفہ کو دل سے چاہا تھا۔ اب میری چاہت، محبت، عشق سب کچھ تم ہو۔“ عالی نے میری بات غور سے سُنی پھربھولی صورت بنا کرکہنے لگی :
”Sorry جی“
…#…
سب گھر والے ملتان چلے گئے میں گھر پر اکیلا تھا․․․․․․ہال روڈ سے گھر آکر کوئی کام نہ ہوتا ․․․․․․چھت پر بھی اب ویسا مزہ نہیں رہا تھا۔
پہلے نبیل سے کبوتروں کے علاوہ ثانیہ، بسمہ، اور عارفہ کے متعلق بات کر لیتا تھا۔ اب وہ بھی نہیں کر سکتا تھااور نہ ہی عالی کے قصے نبیل کو سُنا سکتا ۔کہیں نہ کہیں وہ نیا رشتہ ہماری پرانی دوست کوکھا گیا تھا۔
نبیل بھی مجھ سے محتاط رہ کر بات کرتا تھا۔ وہ جو بات بات پر مجھے نالائق للّو کہا کرتا تھا، عالی سے نکاح کے بعد اُس نے یہ کہنا بھی چھوڑ دیا۔
نبیل کبوتروں کے کھڈے کے سامنے کھڑا ہوا اپنے خیالوں میں کھویا ہوا تھا اور میں اُس کے پیچھے کھڑا ہوا ماضی کو یاد کررہا تھا۔
”مجھ سے ناراض ہو نبیل؟“ نبیل نے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور ہلکا سامسکراتے ہوئے کہنے لگا :
”نہیں تو․․․․․․ناراض لگ رہا ہوں کیا..... ؟“ اُ س نے میری آنکھوں میں خود کو دیکھتے ہوئے پوچھا․․․․․․؟
”کچھ تو ہے جو تم مجھ سے چھپا رہے ہو․․․․․․“ میں نے نبیل کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

”ہاں․․․․․․بہت کچھ ہے۔“ نبیل نے میری طرف شرمیلی سی نگاہ ڈالی۔ میں آگے بڑھا اور اُسے دونوں کندھوں سے تھام کر گرم جوشی سے کہنے لگا:
”جو کچھ تمھارے دل میں ہے۔ آج اپنے دوست سے سب بول دو۔“
”یار مہروز! فرزانہ کا رشتہ آیا ہے۔“ نبیل نے مجھے اُداسی سے بتایا۔
”فرزانہ کے گھر والوں نے سوچنے کا وقت مانگا ہے۔“
”کہاں سے آیا ہے رشتہ․․․․․․؟“
”جہلم سے، لڑکا قطر میں ہوتا ہے․․․․․․فرزانہ بتا رہی تھی․․․․․․ اُس کے گھر والوں نے ذہن بنا لیا ہے۔

”ذہن ہی بنایا ہے نا․․․․․․ہاں تو نہیں کی․․․․․․میں تمھارے امّا ں ابّا سے بات کرتا ہوں․․․․․․ہم کل ہی کامونکی چلے جاتے ہیں تمھارا رشتہ لے کر۔“
”امّاں ابّا سے تم بات کرو گے․․․․․․؟“ نبیل نے مجھ سے ایسے پوچھا جیسے اُسے میری قابلیت پر یقین ہی نہ ہو۔
”ہاں میں بات کروں گا․․․․․․آفٹر آل میں اُن کا اکلوتا داماد ہوں۔
“ نبیل کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا میری بات سُن کر۔
”تم بیٹھو میں ابھی جا کر بات کرتا ہوں۔“
”ابھی․․․․․․؟“ نبیل نے میرے سامنے آتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں․․․․․․فرزانہ کا رشتہ ہونے کے بعد․․․․․․“ میں نے اُس کا مذاق اُڑاتے ہوئے جواب دیا۔
…#…
”پتر اب تیری بات تو نہیں ٹال سکتے۔“ نبیل کے ابّا نے حقے کی نلی ایک طرف کرتے ہوئے اپنی رضا مندی ظاہر کر دی تھی۔

”کیوں خلیل کی ماں تم کیا کہتی ہو․․․․․․؟“
”میں نے کیا کہنا ہے․․․․․․خلیل کے ابّا․․․․․․میرا پتر راضی جوائی راضی بھلا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ عالی ملتان سے آجاتی ہے تو پھر رشتہ لینے چلے چلتے ہیں۔“
”کون کون جائے گا رشتہ لینے․․․․․․“ میں نے نبیل کے ابّا کی طرف منہ کرکے پوچھا۔
”دو جی تم اور دو ہم․․․․․․“
”خلیل بھائی اور بھابھی صغریٰ کو نہیں لے جائیں گے․․․․․․؟“ میں نے شعوری طور پر پوچھا ۔

”نام نہ لو․․․․․․اُس بے غیرت کا․․․․․․“ نبیل کے ابّا غصے سے گرجے ۔نبیل کی امّاں نے رونا شروع کر دیا۔
”خلیل کی ماں مت رویا کر اُس بے غیرت کے لیے۔“نبیل کے ابّا جلالی انداز میں بولے۔ تھوڑی دیر کمرے میں خاموشی رہی۔ میں اُٹھ کر نبیل کے ابّا کے پاس بیٹھ گیا۔
”تایا جی! آپ سے کچھ مانگوں۔“
”تونے میری عزت رکھی ہے پتر جو دل کرتا ہے مانگ۔
“ نبیل کے ابّا نے کسی سخی کی طرح کہا۔
”تایا جی! اتنی ناراضگی کے باوجود آپ آج بھی خلیل بھائی کو بات بات پر یاد کرتے ہیں۔“
”میں نے کب یاد کیا․․․․․․؟“ نبیل کے ابّا نے اُس کی امّاں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی صفائی دی۔ میں ہلکا سا مسکرایا تھا اُن کا وہ انداز دیکھ کر۔
”تائی جی کو آواز دینی ہو․․․․․․تو آپ کہتے ہیں خلیل کی ماں۔
دوسری طرف سے تائی جی جواب دیتی ہے، جی خلیل کے ابّا۔ ہر بات میں خلیل بھائی تو ہوتے ہیں۔ جو دل میں رہتا ہو اُسی کا تو نام زبان پر آتا ہے۔“نبیل کی امّاں کے آنسو نکل آئے۔ اُس کے ابّا بھی جذباتی ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد نبیل کے ابّا کہنے لگے:
”خلیل کو منانے اُس کی ماں ہی جائے گی اور دوسری بات میں خلیل کے سسرال والوں کو نہیں بلاؤں گا۔“ یہ سُن کر نبیل کی امّاں نے اور زور سے رونا شروع کر دیا۔
پھر روتے روتے کہنے لگی :
”واہ خلیل کے ابّا، اپنے پُتر کو جوڑ رہے ہو اور میری بہن کو چھوڑ رہے ہو۔“
”ٹھیک ہے اپنی بہن کو بھی جوڑ لے مگر ظفرو میرے گھر نہیں آئے گا۔“ نبیل کے ابّا نے حتمی فیصلہ سنایا اور کمرے سے چلے گئے۔
”ظفرو کی تو میں بھی شکل نہیں دیکھنا چاہتی“ نبیل کی امّاں نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ خلیل بھا ئی کی بیوی صغریٰ اُس کی سگی خالہ کی بیٹی تھی۔
اس لیے نبیل کی امّاں کو اپنی بہن کی فکر کھائے جا رہی تھی۔
نبیل کے رشتے کے لیے تو میں نے اُس کے گھر والوں کو راضی کرلیا تھا مگر جہلم کے رشتے کی تلوار اب بھی لٹک رہی تھی۔ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا۔ میں جلدی سے نبیل کے ابّا کے پیچھے گیا وہ صحن میں ٹہل رہے تھے۔
”تایا جی! کامونکی فون کر دیں۔“
”وہ کیوں․․․․․․؟“ نبیل کے ابّا نے حیرانی سے پوچھا۔

”فرزانہ کا جہلم سے رشتہ آیا ہے․․․․․․پھوپھو جی ہاں ہی نہ کر دیں۔“ نبیل کے ابّا نے چند لمحے سوچا پھر کہنے لگے:
”کامونکی فون ملا۔“
…#…
میں چھت پر کامیاب لوٹا تو نبیل بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ میں نے اپنی خوشی چھپا لی اور بُرا سا منہ بنا لیا ۔ نبیل نے میرے چہرے کا جائزہ لیا۔ پھر پریشانی سے ایک طرف بیٹھ گیااور میری طرف دیکھ کر خفگی سے کہنے لگا:
”یہ تمھارے بس کا کام ہی نہیں تھا۔
میں نے ایسے ہی تمھیں جانے دیا۔ مجھے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔“ نبیل نے اپنی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر دائیں ہاتھ کا مکا مارا اور پریشانی سے دوسری طرف منہ کرکے کچھ سوچنے لگا۔ میں چلتا ہوا اُس کے پاس چلا گیا اور اُس کے برابر لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گیا۔
”خلیل بھائی اور صغریٰ بھابھی کو بھی گھر آنے کی اجازت لے دی ہے۔ تائی جی اور تایا جی کو بھی منا لیا ہے۔
تایا جی کی تمھاری پھوپھو کے ساتھ کا مونکی بات بھی کروا دی ہے۔ تایا جی نے پھوپھو سے کہا ہے کہ جیسے ہی عالی ملتان سے لوٹتی ہے ہم نبیل کا رشتہ لے کر آئیں گے۔“ میں نے یہ سب ایک ہی سانس میں بول دیا۔ نبیل حیرت سے میری طرف دیکھے جا رہا تھا۔ میری بات ختم ہونے کے بعد وہ دم بخود حیرت میں مبتلا تھا۔ جیسے اُسے میری زبان پر اور اپنے کانوں کی سماعت پر یقین نہ آیا ہو۔

”تم سچ کہہ رہے ہو․․․․․․؟“ نبیل نے میری طرف انگلی کرکے پوچھا جیسے تصدیق کر رہا ہو۔ میں گردن کو ہاں میں ہلاتے ہوئے مسکرایا تو نبیل فوراً مجھ سے لپٹ گیا۔
”یار تو بڑا جینئس نکلا ۔ اتنی سی دیر میں سارے مسئلے حل کر دیئے۔“
”سوائے ایک کے․․․․․․“ میں اُسے بتانے ہی لگا تھا کہ نبیل نے جلدی سے پوچھ لیا:
”وہ کیا․․․․․․؟“
”تایا جی اور تائی جی نے ظفرو کو معاف نہیں کیا۔
“ نبیل کے چہرے کے تیور فوراً بدل گئے۔ وہ دانت پیستے ہوئے بولا:
”اچھا کیا انہوں نے․․․․․․نہیں تو میں․․․․․․“ میں نے جلدی سے نبیل کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا :
”میں کیا․․․․․․؟“
”میں اُسے گھر سے نکال دیتا۔“
”نبیل تم نے سارا الزام ظفرو پر ڈال کر اُس کے ساتھ زیادتی نہیں کی کیا… ؟“ میں نے تھوڑی جھجک کے ساتھ پوچھ ہی لیا۔
یہ سوال کافی دنوں سے مجھے تنگ کر رہا تھا۔
”سیاہ چادر پر اگر کالی سیاہی کے چند چھینٹے اور پڑ جائیں تو اُسے فرق نہیں پڑتا․․․․․․ سارا علاقہ اُس کے کارناموں سے واقف ہے․․․․․․اُس کی آنکھ میں سور کا بال ہے․․․․․․ اِسی لیے سب رشتے داروں اور محلے والوں نے میری بات پر فوراً یقین کر لیا تھا کہ یہ خط ظفرو نے کسی سے لکھوا کر گوجرانوالہ پوسٹ کیا ہوگا․․․․․․ مہروز ! میں نے کسی بھی صورت میں اپنی بہن پر الزام نہیں آنے دینا تھا۔
میں جانتا تھا کہ وہ دل ہی دل میں تمھیں پسند کرتی ہے۔ میں نے کئی بار اُسے تمھیں چھپ چھپ کر دیکھتے ہوئے دیکھا تھا۔“ نبیل کی باتیں سُن کر میرے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ نبیل کو اِس چیز کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اُس نے میرے گال پر پیار سے تھپکی لگائی اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا:
”تم پریشان مت ہو․․․․․․تم دوستی پر کھرے اُترے ہو․․․․․․مجھے فخر ہے کہ تم میرے دوست ہو۔
“ اُس نے میرے کندھے کودباتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔ میں نے حیرانی کے عالم میں اُس سے پوچھا :
”تم اگر پہلے سے جانتے تھے تو․․․․․․؟“
”تو بتاؤ․․․․․․بھائی میرے کیا کہتا تم سے․․․․․․؟“ نبیل کے جواب نے مجھے سوچ میں ڈال دیا تھا۔
”یہ عالی کہاں رہ گئی ہے․․․․․․اب تک دودھ لے کر نہیں آئی۔“ نبیل نے میری سوچ کے سلسلے کو جان بوجھ کر توڑا ۔ ہم دونوں ہنس پڑے اور کافی دیر ہنستے رہے ۔ اُس دن ہم دونوں مہینوں بعد کھل کھلا کر ہنسے تھے۔
”اب میری بیوی کی جگہ تمھاری بیوی دودھ لے کر آیا کرے گی۔“ میں نے ہنستے ہنستے ہی کہا تھا۔ نبیل پھر سے میرے گلے لگ گیا اور میرے کندھے پر سر رکھ کر کہنے لگا:
”Thank Youمہروز!“

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan