Episode 14 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر14 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

اگلی رات میں پھر سے اپنا مسودہ لے کر بیٹھ گیا :
میں ہسپتال سے گھر کی طرف جا رہا تھا تو سارے علاقے میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ خلیل کے سالے ظفرو نے عالی کا رشتہ تڑوانے کے لیے انور کو دودفعہ فون کیا اور پھر اُسے خط بھی لکھا۔ اِس کام میں اُس کی بہن صغریٰ نے اُس کا ساتھ دیا تھا۔ کچھ لوگ تو خلیل کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔
میں گلی کی نکڑ مڑنے لگا تھا کہ اچانک میرے سامنے ظفرو آگیا۔
”تم یہاں․․․․․․؟“ میں ظفرو کو دیکھ کر چونک گیا تھا۔
”یار مہروز بادشاہ! رب دی قسمیں میں نے خط نہیں لکھا اورنہ ہی میں نے کوئی فون شون کیا ہے پر میری بات پر کوئی یقین کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔“ میں نے ارد گرد دیکھا، کوئی نہیں تھا۔
”ظفرو تو چند دنوں کے لیے غائب ہو جا۔

(جاری ہے)

نبیل کا دماغ گھوما ہوا ہے۔ اُس کے سامنے تو بھول کر بھی مت جانا۔ نہیں تو اُس نے تجھے اُڑا دینا ہے۔“ گلی کی دوسری طرف سے چند لوگوں کے آنے کی آواز آرہی تھی۔ میرا دھیان اُس طرف گیا تھا۔ واپس دیکھا تو ظفرو سچ میں ہی غائب ہو چکا تھا۔
مجھ پر بھی چندلوگوں کو شک تھا۔ جن کو مجھ پر شک تھا اُن کو جواب دینے والوں کے پاس ایک مضبوط دلیل یہ بھی تھی کہ اگر مہروز نے خط لکھا ہوتا تو وہ اپنا نام تھوڑی خط پر لکھتا۔
جتنے منہ اُتنی باتیں۔ سب نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق بات کی تھی۔چند دنوں بعد عالی ہسپتال سے گھر شفٹ ہوگئی۔
…#…
عالی کے ہسپتال سے آنے کے بعد ہم پہلی دفعہ چھت پر بیٹھے تھے، تھوڑی دیر خاموشی کے بعد نبیل نے بات شروع کی :
”مہروز! تم نے اپنے گھر والوں سے بات کی․․․․․․؟“
”نانی سے بات کی ہے۔“
”تو کیا کہا اُنہوں نے․․․․․․“ نبیل نے جلدی سے پوچھا۔

”نانی تو بہت خوش ہوئی تھیں وہ آجکل میں ابّو سے بات کریں گی“
”تم نے میرا ذکر تو نہیں کیا․․․․․․؟“نبیل نے فکر مندی کے ساتھ پوچھا ۔
”وہ تو امی ابّو سے میرا ذکر بھی نہیں کریں گی۔ بس اُن کو ایک فکر تھی کہ تمھارے گھر والے نہیں مانیں گے۔“
”میرے گھر والوں کی فکر نہ کرو انہیں میں منا لوں گا۔“
”ویسے تم نے بی بی جی سے بات کیا کی․․․․․․؟“
نبیل نے ایسے پوچھا جیسے واقعی ہی میں نالائق آدمی ہوں۔
اتنے سالوں کی دوستی میں آج پہلی بار ہم دونوں ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا پارہے تھے۔ اُس دن ہمارے لیے چھت پر کوئی دودھ بھی لے کر نہیں آیا تھا۔ ابھی میں یہ سوچ رہا تھا کہ میری چھوٹی بہن تحریم ٹرے میں دو پیالے دودھ رکھے ہوئے چھت پر آئی۔ اُس نے آتے ہی کہہ دیا :
”میں عالی باجی کا پتہ کرنے گئی تھی توانہوں نے کہا کہ میں آپ دونوں کو دودھ دے آؤں۔

نبیل نے دودھ کا پیالہ اُٹھانے کے بعد میری بہن کے سر پر پیار دیا تھا۔ اُس نے میری بہن کو عزت دی تھی اور میں شرم سے پانی پانی ہورہا تھا۔ تحریم وہاں سے چلی گئی۔ میں نظریں جھکائے بیٹھا ہوا تھا ۔
”ہم کب تک ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہیں گے․․․․․․میں جانتا ہوں اِس میں تمھارا کوئی قصور نہیں ہے۔“
نبیل نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے اپنی عدالت سے باعزت بری کر دیا تھا مگر میں اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم بنا بیٹھا تھا۔

”مجھے بتاؤ نبیل پھر کون ہے قصور وار.... ؟”میں نے اپنی ڈائری دیکھی ہے۔ اُس میں 20دسمبر کا Pageلگا ہوا ہے․․․․․․کبھی مجھے عارفہ پر شک ہونے لگتا ہے اورکبھی بسمہ پر․․․․․․ ثانیہ تو گناہ گار ہے ہی․․․․․․“میں نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا ۔ نبیل نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگا :
”دودھ پیو ٹھنڈا ہو رہا ہے۔“
”تم نے اُس دن کہا تھا کہ تمھیں سمجھ آگئی ہے۔
مجھے بھی بتاؤ تم کیا سمجھے ہو۔“ میں نے تلخی سے پوچھا۔
نبیل نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے دودھ پینے کو ترجیح دی۔ دودھ ختم کرنے کے بعد اُس نے اپنا پیالہ رکھا اور اپنی سُنا دی :
”اپنے گھر والوں کورشتے کے لیے کل ہی بھیج دو۔“ نبیل یہ بول کر چھت سے نیچے چلا گیا۔
…#…
میں اپنے کمرے میں پہنچا تو نانی میرے انتظار میں ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔
مجھے دیکھا تو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں بیٹھ گیا تو کہنے لگیں :
”تم عالی سے کیوں شادی کرنا چاہتے ہو۔“
”کیونکہ میری وجہ سے وہ بدنام ہوئی ہے۔“
”بدنام تو وہ محبت کی وجہ سے ہوئی ہے․․․․․․“ نانی نے مجھ پر جانچتی نگاہ ڈالتے ہوئے اپنی رائے دی۔
”کس محبت کی بات کر رہی ہیں نانی جو مجھے تین بار ہوئی تھی۔ میں تو بدنام نہیں ہوا۔“
”مرد محبت کرے یا نفرت وہ باعزت ہی رہتاہے․․․․․․عورت نفرت کرکے بھی بدنام اور محبت کرکے بھی بدنام!․․․․․․ تم صرف یہ بتاؤ اُس سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہو․․․․․․؟“
میرے پاس نانی کے سیدھے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
میں نے نانی کو یہ جواب دیا :
”اب کسی نہ کسی سے تو شادی کرنی ہی ہے۔“
”جو تمھارے حصے کی گولیاں اپنے جسم پر کھائے وہ کسی کی نہیں اپنی ہوتی ہے۔ وہ تو تم سے محبت کرتی ہے تم اپنی بتاؤ․․․․․․“ میرے دل میں عالی کے لیے عزت بہت زیادہ تھی مگر میں محبت کااقرارنہیں کر پا رہا تھا۔
”مجھے نہیں پتا میں کیوں عالی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ بس آپ میری اُس سے شادی کروا دیں۔

نانی کچھ غور و فکر کرنے لگیں :
”یہ صرف تمھاری ہی خواہش ہے یا عالی کے گھر میں سے بھی کوئی چاہتا ہے۔“
”نبیل بھی یہی چاہتا ہے۔“ نبیل سے وعدے کے باوجود میرے منہ سے اُس کا نام نکل گیا۔ نانی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
”ان شاء اللہ پھر یہ رشتہ ہو جائے گا․․․․․․تمھاری تسلی کے لیے بتا دیتی ہوں۔ تمھارے ماں باپ کو بھی میں نے راضی کر لیا ہے۔
تمھارا دوست سیانا نکلا․․․․․․بہن کی غلطی کو گناہ نہیں بننے دیا اُس نے․․․․․․“
”نانی اِس میں عالی کی تو کوئی غلطی نہیں ہے۔“میں نے عالی کی طرف سے خود ہی صفائی دے ڈالی۔ نانی نے مجھے غور سے دیکھا پھر گویا ہوئیں :
”کبھی کبھی توتم بھی بڑی سیانی بات کرتے ہو۔“ پتہ نہیں نانی نے میری تعریف کی تھی یا طنز۔
…#…
اگلے دن میرے گھر والے عالی کے گھر پہنچ گئے ۔
نبیل نے اپنے گھر والوں کا ذہن پہلے سے بنا رکھا تھا۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوگیا کہ نانی نے ہی بات کی تھی۔
نبیل کے ابّا کو ذات برادری کے تحفظات تھے۔ جن کو نانی اور نبیل نے مل کر دُور کر دیا تھا۔ اِس طرح میرا عالی کے ساتھ رمضان کے مبارک مہینے میں بروز اتوار 20دسمبر1998 کو افطاری کے بعد انتہائی سادگی کے ساتھ نکاح ہوگیا۔ ایک بات کا مجھے آج تک افسوس ہے کہ خلیل بھائی اپنی بہن کے نکاح میں شرکت نہیں کر سکے ۔
خلیل بھائی تھوڑے بے وقوف ضرور تھے مگر دل کے اچھے تھے۔ اُس وقت نبیل کے ابّا خلیل اور اُس کے سسرال والوں کی شکل دیکھنے کو بھی تیار نہ تھے۔
…#…
”محبت کے سر پر اگر عزت کی چادر نہ ہو تو وہ محبت بیوہ ہو جاتی ہے اور میں اپنی محبت کو بیوہ نہیں بنانا چاہتا تھا۔
آج عالی سے اپنے نکاح کے بعدمیں نے خود سے عالی کی محبت کا اقرار کیا تھا۔
جس دن عارفہ کا تنویرسے نکاح ہوا تھا میں نے اُس دن شادی سے پہلے محبت سے توبہ کر لی تھی۔ اُس دن خودسے عہد کیا تھا کہ اب میں اپنی بیوی ہی سے محبت کروں گا۔ عالی کی محبت دیکھ کر میں سچ میں کمزور بھی پڑا تھا مگر میں نے خود کو سنبھال لیا ۔ ایسا بھی نہیں کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیسے ہوا ہے۔ میں خود ہی انجان بنا رہا میں نے کہا نا :”محبت کے سر پر اگر عزت کی چادر نہ ہو تو وہ محبت بیوہ ہو جاتی ہے۔
“ میں بھی نبیل کی طرح عالی کی عزت بچانے میں لگا رہا۔ ہمارے طریقوں میں فرق ضرور تھا۔ میں تقریباً سب جانتا ہوں پھر بھی کچھ سوالوں کے جواب صرف عالی کے پاس تھے۔ وہ شرمندہ نہ ہو اس لیے میں اُس سے کبھی نہیں پوچھوں گا۔ اُن سوالوں کے جواب میں چھت پر بیٹھا خود ہی سے ہم کلام تھا۔ حیرت کی بات ہے نا اپنی شادی والی رات بھی میں چھت پر گیا تھا۔ نبیل بھی اوپر آگیا ۔
جیسے ہی میں نے اُسے دیکھا میں جلدی سے کھڑا ہوگیا اور نیچے جانے لگا۔نبیل نے جاتے ہوئے مجھے روک کر کہا :
”مہروز میری بہن بہت بھولی ہے اُس کا خیال رکھنا۔“
میں خود ہی جذباتی انداز میں اُس کے گلے لگ گیا تھا۔
…#…
اپنے کمرے میں داخل ہوا تو عالی دلہن بنی بیٹھی ہوئی تھی۔ جس کے بارے میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، آج وہ میری دلہن بنی بیٹھی تھی۔
میں بھی عالی کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ سمٹ گئی۔ ہم دونوں ہی گونگے بنے بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اُس کے بازو پر جہاں گولی لگی تھی بڑے پیار سے ہاتھ رکھ کر پوچھا:
”اب تمھارے زخم کیسے ہیں․․․․․․؟“
”اب ٹھیک ہو جائیں گے جی․․․․․․!“
”تم سامنے کیوں آئی تھی․․․․․․“میں نے عالی کی ٹھوڑی کو اوپر اُٹھاتے ہوئے پوچھا۔
”غلطی میری تھی جی! تو سزا بھی مجھے ہی ملنی چاہیے تھی نا… “ میں نے عالی کی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
عالی خود ہی تفصیل بتانے لگی :
”آپ سے بچپن ہی سے محبت کرتی ہوں․․․․․․“ میں نے حیرت کے عالم میں عالی کی طرف دیکھا ۔
”اگر اس میں رتی برابر بھی جھوٹ ہو تو میں ابھی کے ابھی مر جاؤں جی۔“ عالی تھوڑی سی جذباتی ہوگئی تھی۔ میں نے اپنی شہادت کی انگلی اُس کے ہونٹوں پر رکھ کر اُسے آنکھوں سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ عالی نے میری شہادت کی انگلی کو چوم لیا پھر میری انگلی کو دائیں ہاتھ میں تھام کر کہنے لگی :
”میرے دل پر بوجھ رہے گا۔
آپ پلیز میری بات سُن لیں جی!“
”بولو․․․․․․“ میں نے مسکراتے ہوئے عالی کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ عالی کو میرا اعتماد مل گیا تو وہ بہتر محسوس کرنے لگی۔
”پچھلے سال عابدہ نے آپ کو دو ڈائریاں گفٹ کی تھیں۔میں نے اُن دو ڈائریوں میں سے صرف ایک کاغذ نکالا تھا ، آپ کو خط لکھنے کے لیے․․․․․․ابھی میں آپ کو خط لکھنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ آپ نے بھائی کو بسمہ کے قصے سنانا شروع کر دیئے۔
بسمہ کے نکاح کے بعد میں نے ایک بار پھر سے چاہا کہ آپ کو سب بتا دوں مگر تب تک آپ کے اور عارفہ کے نکاح کی باتیں شروع ہو گئی تھیں۔ پھر میری شادی کی بھی تاریخ رکھی گئی ۔ جیسے جیسے میری شادی کے دن قریب آ رہے تھے میرا دل ڈوبے جا رہا تھا۔ پھر ایک دن ثانیہ کا فون آگیا ۔ ثانیہ سے میری اچھی ہائے ہیلو تھی۔ اُس نے مجھ سے ایسے ہی پوچھ لیا میری شادی کے بارے میں۔
بس پھر کیا تھا میں نے اُسے اپنے دل کا حال سُنا دیا۔آخر میں ثانیہ نے مجھ سے پوچھا :
”تم مہروز سے شادی کرنا چاہتی ہو․․․․․․؟“ میں نے فوراً ہاں کر دی ثانیہ کہنے لگی:
”بدنامی ہوگی․․․․․․“ میں نے کہا:
”پرواہ نہیں جی․․․․․․“
”پھر جیسے میں کہتی ہوں ویسے کرتی جاؤ۔“ سب سے پہلے ثانیہ نے مجھ سے تنویر کی دُکان کا ٹیلی فون نمبر مانگا۔
وہ میں نے اُسے دیا۔ ثانیہ نے تنویر کو عارفہ کے ساتھ شادی پر اُکسایا۔ اُس کے بعدثانیہ نے مجھے کہا کہ میں کہیں سے انور کی دودھ دہی کی دُکان کا ٹیلی فون نمبرلے کر اُسے دوں۔ میں نے انور کا نمبر بھی اُسے دے دیا۔ ثانیہ نے مہروز بن کر انور کو فون کیا اور میری طرف سے اُس کا دل کھٹا کرنے کی پوری کوشش کی مگر انور کو یقین نہیں آیا۔ایک دن ثانیہ نے مجھے فون کیا اور پوچھنے لگی :
”تمھارے پاس مہروز کی ڈائری کا ایک کاغذ تھا۔

”ہاں میں نے رکھا ہوا ہے سنبھال کر۔“ میں نے اُسے بتایا ۔
”وہ تم مجھے بھیج دو۔“
”تم اُس کا کیا کروگی۔“
”اُس ڈائری کے کاغذ پر خط لکھ کر انور کے گھر والوں کو بھیجوں گی۔“
”وہ کیوں․․․․․․؟“
”عام کاغذ پر لکھ کر بھیجو ں گی تو مہروز تو آرام سے نکل سکتا ہے۔“
”تو مہروز کو نکلنے دو نا۔“
”میں تمھاری شادی انور سے تڑوا کر مہروز سے کروانا چاہتی ہوں۔
اگر مہروز شک کے دائرے سے نکل گیا پھر تمھاری شادی کسی اور سے ہو جائے گی۔ اِس لیے وہ ڈائری کا کاغذضروری ہے۔“
”اِس طرح تو مہروز بھی بدنام ہو جائے گا۔“
”نہیں ہوگا۔“
” وہ کیسے․․․․․․؟“
”صرف میں تم اور مہروز جانتے ہیں کہ وہ کاغذ اُس کی ڈائری کا ہے۔“
”نبیل بھائی کو بھی پتہ ہوگا مہروز اپنی ہر بات نبیل بھائی سے کرتے ہیں۔

”واؤ․․․․․․پھر تو یہ اور بھی آسان ہو جائے گا۔“
میں نے وہ ڈائری کا کاغذ ثانیہ کوTCSکروا دیا تھا۔ تین دن بعد اُسی ڈائری کے کاغذ پر ثانیہ کے ہاتھ سے لکھا ہوا خط مجھے مل گیا۔ جو میں نے انور کے گھر کے ایڈریس پرTCSکروا دیا تھا۔ شادی سے ایک دن پہلے پچھلے ٹائم وہ خط اُنہیں ملا تھا۔ رات بھر اُن کے گھر بحث ہوتی رہی۔ انور یہ شادی کرنا چاہتا تھامگراُس کے گھر والے انکاری تھے۔
بارات والے دن جب آپ اور نبیل بھائی پکوائی والی جگہ سے اُٹھ کر سونے کے لیے گئے تھے اُس سے کوئی دو ڈھائی گھنٹے بعد انور کے گھر والے وہ خط لے کر لاہور پہنچ گئے ۔ آتے ہی انہوں نے وہ خط خلیل بھائی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ خلیل بھائی نے وہ خط پڑھ کر ابّا جی کے ہاتھ پر پھینکا اور خود پستول لے کر آپ کو تلاش کرنے لگا۔ کسی نے اُسے بتایا کہ آپ دونوں یہاں سوئے ہوئے ہیں تو خلیل بھائی یہاں آگیا۔
جب یہ خبر مجھے ملی تو میں بھی بھاگ کر یہاں پہنچ گئی ۔“
عالی خاموش ہوگئی تھی اُس کی آنکھوں میں اشکوں کی چمک تھی۔ اِس سے پہلے کہ وہ چمک ٹپک پڑتی میں نے عالی کو سینے سے لگا لیا ۔
”Sorryمیری وجہ سے آپ کو تکلیف ہوئی۔“
اُن غم کے اشکوں نے خوشی کی شکل اختیار کر لی۔ عالی اورمیں ایک دوسرے کو پا کر بہت خوش تھے۔
مجھے سب سوالوں کے جواب مل گئے تھے سوائے دو کے۔
رات کے پچھلے پہر جب عالی میرے پہلو میں لیٹی ہوئی تھی تو میں نے اُس سے پوچھا :
”تم نے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ کیوں نہیں لیا․․․․․․؟“
”بھابھی صغریٰ اور خلیل بھائی کو بہت اعتراض تھا۔ اُس بات کو لے کر۔ خلیل بھائی اور نبیل بھائی میں جھگڑا بھی ہو گیا تھا۔ نبیل بھائی میری پڑھائی کے حق میں تھے۔ وہ جھگڑا ہی ہمارے گھر کے بٹوارے کا سبب بنا۔
خلیل بھائی نے گھر اور دُکان میں سے ایک چیز کا مطالبہ کر دیا تھا۔ ابّا جی خلیل بھائی کو کچھ بھی نہیں دینا چاہتے تھے۔ پھر نبیل بھائی کے مجبور کرنے پر دُکان خلیل بھائی کو دینے پر راضی ہوگئے۔ ابّا جی یہ چاہتے تھے کہ نبیل بھائی اپنا خاندانی کام ہی کریں مگر نبیل بھائی نے سپیئر پارٹس کا کاروبار کر لیا۔“
”تمھاری تعلیم کو لے کر گھر کا بٹوارہ تو ہو ہی گیا تھا۔
کالج میں داخلہ ہی لے لیتی“
”بھابھی صغریٰ نے گھر سے جاتے ہوئے امّی کوطعنہ دیا تھا کہ عالی کالج جا کر ضرور چن چڑھائے گی۔ وہ بات میں نے سُن لی تھی اِس لیے میں کالج ہی نہیں گئی۔“
”چن تو تم نے اب بھی چڑھا دیا ہے۔“ میرے منہ سے لاشعوری طور پر نکل گیا۔ عالی جو میرے پہلو میں لیٹی ہوئی تھی وہ شرمندہ سی ہوگئی۔ وہ مجھ سے خفا ہونے کی بجائے مجھ ہی سے لپٹ گئی اور اپنا منہ میرے بازو میں دے دیا۔
چند منٹ اِسی طرح گزر گئے۔ عالی مجھ سے لپٹی ہوئی تھی۔ اُس کی گرفت میں اپنایت تو تھی میں پھر بھی پریشان تھا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ عالی سے کیا بات کروں۔وہ خودہی میرے بازو سے سر نکال کر مجھے کہنے لگی :
”آپ میرا لباس ہو جی اور میں آپ کا․․․․․․میری غلطی کو صرف تین لوگ جانتے ہیں۔ میری سہیلی ، میرا بھائی اورمیرا لباس ۔ بھائی اور سہیلی نے تو اپنا حق ادا کر دیا اب آپ کی باری ہے۔
“ عالی نے میرے چھکے چھڑا دیئے تھے۔ ایسا لاجواب مجھے زندگی میں کسی نے نہیں کیا تھا۔میں نے اپنی شرمندگی کو چھپانے کے لیے جلدی سے بات بدلی:
”مجھے خط لکھنے کے لیے میری ڈائری ہی سے کاغذ کیوں نکالا ․․․․․․؟“
”مجھے20دسمبر والاPageہی چاہیے تھا خط لکھنے کے لیے․․․․․․“عالی کے چہرے پر ایک دم خوشی لوٹ آئی تھی۔
”وہ کیوں․․․․․․؟“ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

”آپ کی ڈیٹ آف برتھ ہے20دسمبر1976اور میری 20دسمبر1977۔ مجھے لگتا تھا یہ دن ہم دونوں کے لیےLuckyثابت ہوگا۔ اِس لیے نبیل بھائی سے بول کرنکاح کی تاریخ بھی 20دسمبرہی رکھوائی تھی۔“
عالی کسی بچے کی طرح ری ایکٹ کر رہی تھی جس کا بچپنا ابھی باقی ہو۔ میری وال کلاک کی طرف نظر پڑی :
”اُٹھو جلدی کرو سحری کا ٹائم ہونے والا ہے۔“

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan