Episode 17 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر17 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

”یہ اتنے سارے روپے کہاں سے آئے․․․․․․“ اپنے سامنے پڑی ہوئی رقم کو دیکھ کر میں نے پوچھا۔
”میں نے اپنا سارا زیور بیچ دیا ہے․․․․․․“ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا عالی پھر سے بول پڑی :
”چاچا جی اور چاچی جی سے مشورہ کیا تھا․․․․․․چاچا جی ہی سوئے بازار زیور بیچ کر آئے ہیں۔ میں اُن کے ساتھ نہیں گئی تھی․․․․․․آپ ناراض مت ہونا جی․․․․․․زیور کاکیا ہے وہ تو پھر بن جائے گا۔
کاروبار بہت ضروری ہے۔ آپ کب تک کسی کے پاس نوکری کریں گے․․․․․․Sorryمیں نے آپ سے پوچھا نہیں تھا۔“ عالی نے مجھے کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ وہ بولتی رہی اور میں سُنتا رہا۔
میں نے اُن پیسوں سے ہال روڈ پر اپنی خود کی الیکٹرونک ورکشاپ شروع کردی۔میرا کام چل پڑا اور میں ترقی کرنے لگا۔

(جاری ہے)

ایک دن میں گھر لوٹا توعالی اُداس سی اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔


”کیا ہوا میری عالی کو․․․․․․کیوں اُداس ہو․․․․․․“ میں نے عالی کے پہلو میں بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔
عالی بات ٹالتے ہوئے باہر جانے لگی۔
”میں آپکے لیے پانی لے کر آتی ہوں۔“ میں نے عالی کی کلائی تھام لی۔
”پہلے بتاؤ پریشان کیوں ہو․․․․․․؟“
”ثانیہ کو طلاق ہوگئی۔“ مجھے یہ سُن کر گہرا صدمہ ہواتھا۔ میں نے عالی کی کلائی چھوڑ دی۔
وہ میرے لیے پانی لینے چلی گئی اور میں بیڈ پر لیٹ گیا۔
عالی کے ڈلیوری کے دن قریب آگئے تھے۔ ایک دن وہ میرے پہلو میں لیٹی ہوئی کہنے لگی :
”میری ایک خواہش ہے۔“
”کیسی خواہش۔“
”پوری کریں گے جی․․․․․․؟“ عالی نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”بتاؤ․․․․․․“
”پہلے وعدہ کریں کہ آپ میرئی یہ خواہش ضرور پوری کریں گے۔

”وعدہ․․․․․․“ میں نے عالی کا ہاتھ تھامتے ہوئے اُسے یقین دلایا ۔
”ثانیہ کی عدت پوری ہو گئی ہے۔“ میں عالی کی بات سُن کر حیران ہوا تھا۔
”ثانیہ سے نکاح کر لیں۔“ عالی نے ایسے کہا جیسے وہ ثانیہ کے لیے مجھ سے بھیک مانگ رہی ہو۔ میری حیرانی کو غصے میں بدلتے لمحہ بھی نہیں لگا۔
”تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے۔“ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا ۔
عالی بھی جلدی سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اُس نے مجھے یاد دلایا :
”آپ نے وعدہ کیا تھا۔“ میں بھڑکتے ہوئے اپنے بیڈ سے اُٹھ گیا۔
”میری آخری خواہش سمجھ کر۔“میں اپنے کمرے سے نکل رہا تھا۔ اُس وقت عالی کے الفاظ میرے کانوں میں پڑے تھے۔
…#…
ڈلیوری سے ایک دن پہلے تک میری عالی سے اُسی بات کو لے کر ناراضگی رہی۔ وہ چاہتی تھی کہ میں ثانیہ سے نکاح کرلوں مگر میں تیار نہیں تھا۔
آخر میں عالی نے ہتھیار ڈال دیئے۔
”Sorryمت کریں ثانیہ سے نکاح ..... مجھ سے تو بات کریں ناجی․․․․․․اِس وقت مجھے آپ کی ضرورت ہے۔“ عالی نے اتنے پیار سے کہا تھا، پُل بھر میں میرا غصہ ہواہوگیا۔
اگلی رات عالی کو درد اُٹھا۔فرزانہ بھابھی ، نبیل اور میں عالی کو لیڈی ایچی سن ہسپتال لے گئے۔ عالی کی طبیعت ایک دم بگڑ گئی تھی۔ عالی کوآپریشن تھیٹر میں لے گئے۔
تھوڑی دیر بعد اایک نرس مجھ سے سائن لینے کی غرض سے آپریشن تھیٹر سے باہر آئی:
”عالیہ کے ساتھ کون ہے۔“
” میں ہوں۔“میں نے جلدی سے جواب دیا۔
”آپ یہاں سائن کر دیں۔“ کلپ بورڈ کے اوپر لگے ہوئے چند کاغذات نرس نے میرے سامنے کر دیئے میں سائن کرنے لگا تو نبیل نے فکرمندی سے پوچھا:
”سائن کس لیے سسٹر․․․․․․؟“
مریضہ کاBPبہتLowہے ہم کو بڑا آپریشن کرنا پڑے گا۔
جس سے اُن کی جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔“
”کیسا خطرہ․․․․․․وہ تو بالکل ٹھیک تھی․․․․․․میں نے خود اُس کے سارے ٹیسٹ کروائے ہیں۔“ میں نرس کی بات سُن کرہڑ بڑا اُٹھا تھا۔
”بس آپ دعا کریں۔ “ نرس یہ بول کر چلی گئی ۔ مجھے عربی کی جتنی بھی سورتیں یاد تھیں میں نے آپریشن تھیٹر کے باہر سب پڑھ ڈالیں۔ نبیل اور فرزانہ الگ پریشان تھے۔

کوئی گھنٹہ ڈیڑھ بعد ایک لیڈی ڈاکٹر نے باہر آکر ہمیں صرف اتنا ہی کہا:
”دو بیٹے ہوئے ہیں مگر ہم ماں کو نہیں بچا سکے۔“ یہ بول کر وہ لیڈی ڈاکٹر تو آرام سے وہاں سے چلی گئی۔ میری تو جان ہی نکل گئی۔ میں وہیں ٹھنڈے فرش پرہی بیٹھ گیاتھا۔
…#…
اگلے دن عالی کی تدفین کرنے کے بعدجب میں گھر آیا تو کیا دیکھتا ہوں۔ میرے ایک بیٹے کو میری نانی نے پکڑا ہوا تھا اور دوسرا ثانیہ کی گود میں تھا۔
ثانیہ نے میرا بیٹا اُٹھایا ہوا تھا جو مجھے اچھا نہیں لگا۔ کہیں نہ کہیں میرے دل میں وہ بات تھی کہ ثانیہ نے میری محبت کو ٹھکرا کر اُس ڈیلر کی دولت کو چُنا تھا۔ میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میں نے اپنے بیٹوں کو دیکھا تک نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد نبیل میرے دونوں بیٹوں کو اُٹھائے ہوئے کمرے میں آیا:
”اِن کو دیکھ تو لو۔“ نبیل نے دونوں بچے میرے سامنے کرتے ہوئے کہا ۔
میں نے اُن معصوموں کو دیکھا مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے ایک بچے کو اُٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا اور چومنے لگا۔ بے ساختہ میری آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ میں نے دوسرے بچے کونبیل کے بازؤں میں ہی چوم لیا۔ میرا دل جو پچھلی رات سے اللہ تبارک تعالیٰ کے ساتھ شکوے کر رہا تھا، وہی میری اجازت کے بغیر ہی اللہ کے حضور شکر بجا لایا تھا۔
…#…
اُس رات میں چھت پر بیٹھا ہوا تھا ۔
مجھے عالی سیڑھیوں سے اوپر آتی اور نیچے جاتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ میں ماضی کو حال میں دیکھ رہا تھا کھُلی آنکھوں کے ساتھ۔
میں ہاتھ بڑھا کر دودھ کا پیالہ اُٹھانے ہی لگا تھا کہ عالی غائب ہوگئی۔ میرا ہاتھ خالی ہی واپس لوٹا تھا۔ میری چیخ نکل گئی اور میں سسکیاں لے لے کر رونے لگا۔ نبیل مجھے تلاش کرتا ہوا چھت پر آیا۔ مجھے روتا دیکھ کر جلدی سے میرے پاس آیا اور مجھے گلے لگا لیا۔

کافی دیر میں نبیل کے کندھے پر سر رکھ کر روتا رہا۔ نبیل نے مجھے صرف کندھا ہی پیش کیا تھا۔ زبان سے کوئی تسلی نہیں دی ۔ دُکھ میں اگر کسی کا کندھا ہی نصیب ہو جائے یہ بھی قسمت کی بات ہے۔ جب میری سسکیاں بند ہوئیں اور میرے آنسو رُکے تو نبیل نے میرا سر اپنے کندھے سے اُٹھایا اور میری طرف دیکھ کر پوچھنے لگا:
”ایک بات بتا سکتا ہوں۔“ میں نے نبیل کو ابرو سے بولنے کا اشارہ کیا ۔

”عالی کی ایک بات امانت ہے میرے پاس۔ کہو تو امانت سونپ دوں تمھیں۔“
”بتاؤ․․․․․․“ میں بڑی مشکل سے صرف اتنا ہی بول پایا ۔
”کوئی دو ہفتے پہلے عالی نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ ثانیہ سے تمھارا نکاح کروانا چاہتی ہے۔ میں نے اُسے سمجھانا چاہا مگر اُس نے اُلٹا مجھ سے درخواست کر دی کہ میں تمھیں اِس بات پرقائل کروں۔ مجھے یہ بات اُس وقت انتہائی غیر مناسب لگی تھی اِس لیے میں نے تم سے بات نہیں کی۔

”اُس وقت نہیں تو پھر آج کیوں کر رہے ہو۔“ میں نے روکھے لہجے میں نبیل سے کہا اور اُٹھ کر نیچے جانے کے لیے چل پڑا۔
”کیوں کہ اب یہ بات غیر مناسب نہیں ہے۔“ نبیل کی بات پر میرے قدم رُک گئے۔ میں نے ابھی چلنے کا ارادہ ہی کیا تھاکہ نبیل جلدی سے میرے سامنے آیا اور کہنے لگا:
”نیچے جاؤ گے تو سب یہی بات کریں گے․․․․․․مجھ سے بات کرنے سے پہلے عالی نے یہی بات بی بی جی سے بھی کی تھی۔
نیچے فیصلہ ہو چکا ہے۔“
”میں ابھی پوچھتا ہوں نیچے والوں سے…“ میں نے تلخی سے کہا تھا۔ نبیل کے ہونٹوں پر گھائل مسکراہٹ اُبھری وہ کہنے لگا :
”نیچے والوں کو پوچھنے سے کیا ہوگا.... ؟ایسے فیصلے تو اوپر ہوتے ہیں․․․․․․“ نبیل نے شہادت والی انگلی ستاروں بھرے آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے پھر سے کہا:
”وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے․․․․․․زندگی اور موت کے ساتھ ساتھ … اُس نے ملن اور جدائی بھی اپنے ہی پاس رکھی ہے۔ کب کس سے کس کو جُدا کر دے …اور کب کس سے کس کو ملا دے …یہ صرف وہی جانتا ہے “
میرے پاس نبیل کی اِس دلیل کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ اِس لیے میں خاموش ہی رہا۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan