Episode 1 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 1 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

آج کامُہذّب اور مُتمدّن اِنسان ایک عجیب صُورت ِ حال سے دوچار ہے۔ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش نے اِنسان کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔ زِندگی تمام تر آسائشوں کے باوجود کرب ِ مُسلسل کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔نیکیوں کاثمر تو دُور تک نظر نہیں آتالیکن بدی کی فوری عاقبت راہ کی دیوار بنی ہوئی ہے۔اِنسان اپنے علم، اپنے عمل،اپنے حالات ، اپنی خواہشات ، اپنی عادات، غرضیکہ اپنے آپ سے نجات چاہتا ہے، اپنی گرفت سے آزادی چاہتا ہے۔
بے نام اندیشوں کی آندھیاں اُمّید و آگہی کے چراغوں کو بجھاتی جا رہی ہیں۔ آج کے اِنسان کی فکری صلاحیّتیں مُنتشر ہو کر رہ گئی ہیں۔قائدین کی بُہتات نے قیادت کا فُقدان پیدا کر دیا ہے۔ وحدتِ آدم‘ جمعیت التفریق بن کے رہ گئی ہے۔۔۔۔
کسی کو کسی پر اعتمادنہیں۔

(جاری ہے)

اِنسان کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں۔ مُستقبل واضح نہ ہو توحال اپنی تمام تر آسُودگیوں کے باوجود بے معنی نظر آتا ہے۔

آج مسیحائی کا دعویٰ ایک وبا کی صُورت اِختیار کر چکا ہے‘ جب کہ ہر آدمی کے سر پر کتبہ گڑا ہوا ہے اور تعزیّت کرنے والا اپنے آپ سے تعزیّت کر رہا ہے۔ زِندگی کے جائز ناجائز تقاضے اِس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ اِنسان بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔ علم بڑھتا جا رہا ہے، پھیلتا جا رہا ہے، لائبریریاں کتابوں سے بھری جا رہی ہیں اور اِنسان کا دِل سکون سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔
آسائشوں کے حصول کا جنون آکاس بیل کی طرح اِنسان کی سوچ اور اُس کے اِحساس کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ آج اگر سُقراط دوبارہ پیدا ہو جائے تو اُسے دوبارہ زہر پینا پڑے گا۔ آج اِحساس مَر چکا ہے۔ آج کی ٹریجڈی یہ ہے کہ ٹریجڈی مَر چکی ہے اور اِس پر ماتم کرنے کا کسی کے پاس وقت نہیں۔یہ بات اِنسان کی سمجھ سے باہر ہے کہ زمین کے سفر میں آسما ن کے احکام کیوں اور کس لیے ہیں!مشینوں نے اِنسان سے مروّت چھین لی ہے …گناہوں نے دُعائیں چھین لی ہیں، روشنی نے بینائی چھین لی ہے…ایسے عالم میں ایک چھوٹی سی کتاب کیا دعویٰ رکھ سکتی ہے؟ لیکن مقامِ غور ہے کہ اِنسانوں کے اژدھام اور سَیلِ بے پایاں کے باوجود ایک پیدا ہونے والا بچّہ کتنے وثوق اور تیقُّن سے تشریف لاتا ہے‘ اِس اعلان کے ساتھ کہ
”بہت کچھ ہو چکا ہے‘ لیکن ابھی اور بہت کچھ باقی ہے“۔
رات کی تاریکی میں دُور سے نظر آنے والا چراغ روشنی تو نہیں دے سکتا ‘ لیکن ایسی کیفیات مُرتّب کرتا ہے کہ مسافر مایوسی سے نکل کر اُمّیدتک آپہنچتا ہے …اور اُمّید سے یقین کی منزل دو قدم پر ہے۔
 صاحب ِخیال کے پاس خیال بے آواز و بے الفاظ آتا ہے لیکن خیال کا اِظہار محتاجِ الفاظ ہے۔ اکثر اوقات الفاظ خیال کا حجاب بن جاتے ہیں۔ اِس لیے اِستدعا ہے کہ قاری کی نگاہ اُس خیال پر بھی رہے جو الفاظ میں موجود ہے اور اُس خیال پر بھی جس کا الفاظ کے دامن میں سِمٹنا محال تھا!
(”کِرن کِرن سورج “ کے پہلے ایڈیشن کے فلیپ پررقم تحریر بقلم مصنّف)

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif