Episode 18 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 18 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

 ذوالفقار احمد تابش:
زحمت دیتا ہوں برادر محترم جناب اعجاز بٹالوی کو۔ تشریف لائیے !
اعجاز بٹالوی:
جنابِ صدر ! واصف صاحب !
خواتین و حضرات !
لفظ‘ اِنسانی تہذیب کی مجبوری بھی ہے اور حُسن بھی۔ اِسی لیے لفظ ‘ باعثِ تکریم ہے۔ اِنسان چاہے کتنی ہی بڑی حقیقت دریافت کیوں نہ کر لے‘ اُس کا اظہار صرف الفاظ ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔
واصف صاحب ! لفظ‘ زمین والوں کی ایسی مجبوری ہے کہ آسمانی صحیفے بھی الفاظ کاجامہ پہن کر زمین پر اُترتے ہیں۔ مجبوری وہ ‘جو عارف ،گُرو اور گیانی کو اپنے عرفان کا ذکر لفظوں میں کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ لفظ کو کبھی حقیر نہ سمجھنا چاہیے کیونکہ تمام آسمانی سچائیاں اور زمینی حقیقتیں اپنے اظہار کے لیے لفظ کی محتاج ہیں۔

(جاری ہے)

یہ واقعہ ہے کہ واصف علی واصف کی کتاب ”کرن کرن سورج“ پر میں یہاں تک لکھ چکا تھا کہ میری نظر کتاب کے سرورق کے آخر میں چھپی ہوئی تحریر پر جا پڑی‘ لکھا تھا(یہ اقتباس ہے):

 ” صاحبِ خیال کے پاس خیال بے آواز اور بے الفاظ آتا ہے ‘ لیکن خیال کا اظہار محتاجِ الفاظ ہے۔
اکثر اوقات الفاظ خیال کا حجاب بن جاتے ہیں‘ اِس لیے اِستدعا ہے کہ قاری کی نگاہ اُس خیال پر بھی رہے کہ جو الفاظ میں موجود ہے اور اُس خیال پر بھی جس کا الفاظ کے دامن میں سمٹنا محال ہے!“ 
لیجیے‘ یہ ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیاکہ لفظ اظہار بھی ہے اور حجاب بھی۔ خوش نصیب قاری وہ ہے جو محنت ، مشقّت یا محض برکت سے لفظ کے ماورا تک پہنچ جاتا ہے‘ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔
لفظ تو سبھی استعمال کرتے ہیں مگر یہ کیسے ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں لفظ تاثیر میں ڈوب جاتا ہے اور کسی کے ہاں وہی لفظ خالی خولی اور بے اثر رہ جاتا ہے۔ اقبال نے بھی‘ آپ کو یاد ہو گا‘ یہی سوال کیا تھا:
 #آیا کہاں سے نالہٴ نے میں سرورِ نے
اصل اِس کی نے نواز کا دِل ہے کہ چوبِ نے
یہ بات واضح ہے ‘جواب ”چوبِ نے “ نہیں ہے‘ نے نواز کا دِل ہے۔
مگر یہاں پہنچ کر ایک اور سوال سامنے آ جاتا ہے کہ یہ درست کہ زبان پر بات تو دِل سے آتی ہے مگر بات‘ دِل میں کہاں سے آتی ہے‘ یہ سوال ہے جس کا جواب مجھ جیسے عام آدمیوں کو معلوم نہیں ۔ شاید اِس کے آگے ایک اور حجاب ہے‘ جس کے لیے صاحبِ راز کی ضرورت ہے۔ لیکن حضور اِتنا جانتا ہوں کہ لفظ شاملات ِ دیہہ کی طرح اِنسانوں کا مشترکہ سرمایہ ہیں لیکن اِن میں برکت اور تابناکی مصنّف کی ذات سے پیدا ہوتی ہے۔
”نے“ کا سرور ”چوبِ نے“ سے نہیں ”نے نواز“ کے دِل سے ہے۔ اِس کا ثبوت واصف صاحب کی یہ مختصر سی کتاب ہے ”کرن کرن سورج“ ۔ اِس کتاب کو روا روی میں نہ پڑھنا چاہیے۔ بعض تحریریں دِل کی حضوری میں پڑھو‘ تو لطف دیتی ہیں اور ایسے لمحوں میں کتاب کو جہاں سے جی چاہے کھول لو ‘ خیال کا گلزار کھل جائے گا اور معنی کی آبشار کا ترنّم سنائی دینے لگے گا۔
دِل ٹھکانے پر نہ ہو یا اُس لمحے کہیں اور اٹکا ہوا ہو ‘تو یہی تحریر اپنا حُسن چھپا جائے گی اور معنی کی پھوار بند ہو جائے گی۔ لفظ حجاب بن جائے گا،من و تُو کا رشتہ ٹوٹ جائے تو گفتگو‘ محض شور ہو کے رہ جاتی ہے۔ اِس میں کیا شک کہ آج کا زمانہ اپنی آسائشوں ،اِختراعوں اور دریافتوں کی وجہ سے ایسا شاندار زمانہ ہے کہ ہم سے پہلے والوں نے ایسا زمانہ کب دیکھا ہو گا ! مگر حضور !اِس عہد کا آشوب ،کرب اور اندوہ بھی ایساہے کہ اِس سے پہلے والوں کو نصیب نہ ہوا ہو گا۔
مسائل اُلجھے ہوئے اور زندگی شعبوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ حقیقت کی اکائی ریزہ ریزہ ہو چکی ہے‘ بولنے والے بہت ہیں ‘ سننے والا کوئی نہیں۔ جواب ہر ایک کے پاس ہے ‘ سوال نایاب ہو چکا ہے، گروہ کے تعصّب اور جلوس کے نعرے میں شامل رہو تو ٹھیک ہے ، الگ ہو جاؤ تو اپنا بوجھ خود اٹھاؤ، اپنی قبر خود کھودو۔ فرد سے کٹ کر الگ ‘ تنہائی و ماندگی یا اُداسی کا مداوہ تو کہاں‘اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔
ہجوم تو زیادہ سے زیادہ میلے یا فن فیئرکا بندوبست کر سکتا ہے۔ فرد کا دِل نہیں بہلا ‘تو قصور اُس کا اپنا ہے۔
#یہ بزمِ چراغاں رہتی ہے
اِک طاق اگر ویراں ہو تو کیا
یہ ویراں طاق‘ عارفوں اور گیانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ ”گِرتوں کو تھام لے ساقی“ والا مضمون ہے۔ مدر ٹریسا کلکتے کے بازاروں سے جذامیوں کو تو اِس امید پر اٹھا کر لے جاتی ہیں کہ شاید اِس جہاں سے رخصت ہونے سے پہلے ان کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آ جائے‘ مگر ہم میں سے بیشتر جو اپنے اپنے روحانی عذابوں کو سینوں میں چھپائے اور چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرے پھرتے ہیں‘ کبھی کبھی اس روحانی عذاب کے بوجھ تلے دب کر کراہنا چاہتے ہیں مگر آواز نہیں نکال سکتے۔
چاہتے تو ہیں کہ اس لمحے میں کوئی ہو‘ جو دستگیری کرے‘ مگر چہرے سے بہادری کا جھوٹا نقاب اُٹھا کر اپنی کمزوری ، ندامت ، جہالت اور ماندگی کی تصویر دکھانا بھی تو مشکل ہو جاتا ہے۔میں سوچتا رہتا ہوں ‘ایسے لوگوں کی ”مدر ٹریسا“ کہاں ہے؟ ایک قانون پیشہ شخص کی پروفیشنل زندگی بڑے بڑے جھمیلوں مگر چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں بسر ہوتی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ قوائد و ضوابط کی حدود میں قید ہوتا چلا جاتا ہے۔
البتہ اگر اللہ کا فضل شاملِ حال ہو جائے تو اُسے جلدی معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر اُس نے فلسفہ ،تاریخ ،ادب اور تصوّف کا مطالعہ جاری نہ رکھاتو اُس کی سوچ کی شریانیں سکڑ جائیں گی اور ذہنی Angina Pectoris کا مریض ہو کر رہ جائے گا۔ بعض لوگوں سے ملاقات یوں ہوتی ہے کہ دِل سے آواز آتی ہے کہ ملاقات تو آج ہوئی مگر میں آپ کو ازل سے جانتا ہوں ‘ مجھے یاد ہے کہ یہ ملاقات اشفاق احمد کے ہاں ہوئی تھی۔
ماہ و سال کے حساب سے اِس پر زیادہ وقت نہیں گزرا تھاکہ بڑے جھمیلوں میں بسر کرنے قانون پیشہ کو دو بڑے سوالوں سے آمنا سامنا ہوا‘ جس کا جواب قانون کی کسی کتاب میں درج نہیں تھا۔ کسی وکیل کے دفتر میں اگر ڈھلتی عمر کی خاتون کرسی پر آ کر بیٹھ جائے اور اُن کے ذہنی تناؤ سے سارے کمرے کی تنابیں کھنچ جائیں اور اِس عالم میں بھی وہ بی بی یہ کہیں کہ میں نے خود کشی کی کوشش تو کی تھی مگر بدقسمتی سے بچ گئی ہوں تو وکیل صاحب شاید یہ پوچھیں کہ آپ پر تعزیراتِ پاکستان کے تحت مقدمہ تو نہیں چلا۔
مگر میں نے یہ بیہودہ سوال نہ کیا۔ چہرے کی افسردگی اور آنکھوں کی وحشت سے لگتا تھاکہ شاید وہ پھر خود کشی کی کوشش کریں گی۔ میں نے خود سے پوچھا‘ بولو میاں اب کیا کرو گے؟ اُس خاتون کو میں برسوں سے جانتا تھا ‘ مگر اُن کے اِس شدید کرب کے جواب میں میرے خزانہٴ الفاظ میں تسلّی کا ایک لفظ بھی نہیں تھا۔اُس آشوب ِعظیم کے سحر میں اپنے سارے لفظ پھیکے لگنے لگے ۔
میں نے میز کی دراز کھولی ‘ ایک کاغذ پر ایک ٹیلی فون نمبر لکھا اور کہا ‘ اِس نمبر پر ایک صاحب بولیں گے ۔ بی بی ! اُن کانام واصف ہے ! میرا نام لیجیے اور کہیے ‘آپ اُن سے ملنا چاہتی ہیں۔ خاتون رُخصت ہوئی اور میں دِل میں بہت شرمندہ ہوا کہ میں یہی حرکت کوئی دو ہفتہ پہلے بھی کر چکا تھا۔اُس مرتبہ وہ لاہور کے کھاتے پیتے متمول تاجر تھے ‘جو برسوں کے بعد مجھ ملنے آئے تھے۔
اندر سے بالکل ٹوٹ چکے تھے۔ جس ہیبت ناک ذہنی عذاب میں مبتلا تھے۔ اُس کا جواب بھلا میرے پاس کہاں ہو…(اب وہ بھی) خوش ہیں،اُن کی شکل پھر سے پہلے جیسی ہو گئی ہے۔ آنکھوں کی وحشت ختم اور زندگی کی چمک موجود ہے۔ وہ خاتون ملازمت کرتی ہیں ، بچوں کی پرورش کرتی ہیں، یہ عمل کیسے ہوا؟ میں اِس سے واقف نہیں ہوں ، نہ اُنہوں نے ذکر کیا ، نہ میں نے پوچھا… اُس متمول آدمی نے یہ کیسے قبول کر لیا کہ جو خواب وہ دیکھ رہے تھے‘ وہ جعلی تھے‘ اُن کے اپنے نہیں تھے۔
اُس خاتون نے کیسے تسلیم کیا کہ جس سے وہ بھاگ رہی تھیں ‘ وہ اُن کا اپنا ماضی تھا۔ میں اِس عمل کے اَسرار و رموز سے قطعاََ واقف نہیں ہوں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ آج کے دَور میں ‘درد کے عالم میں کسی کی بات سننا بہت مشکل کام ہے۔ اِس میں سننے والے پر بوجھ بھی پڑتا ہے اور سننے والے کے جی کا زیاں بھی ہوتا ہے۔ مغربی فلسفی نے اِس عمل کے لیے تیسرے کان سے سننے کی اِصطلاح استعمال کی تھی اور اقبال نے کہا تھا:
دیدن دِگر آموز‘ شنیدن دِگر آموز
مغرب میں حالتِ کرب و اندوہ میں کسی کی بات سننے کے دو اِدارے وجود میں آئے۔
قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں گرجے کا پادری اور آج کل بیسویں صدی میں سائکوانالسٹ۔ آج بھی اٹلی ، جرمنی اور انگلستان کے رومن کیتھولک کے کلیسا کی نیم تاریک فضا میں لکڑی کے گھروندے میں بند پادری کے پاس کوئی ستم رسیدہ عورت یا سوختہ جاں مرد اپنے کردہ یا نہ کردہ گناہوں کا بوجھ اٹھائے نظر آتا ہے‘ جو پادری کا چہرہ دیکھے بغیر اُس کے کان کے پاس منہ لگا کر کہہ رہا ہوتا ہے: Father, I am sorry. I have sinned. -

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif