Episode 5 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 5 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

جو ذات ‘شکمِ مادر میں بچے کی صورت گری کرتی ہے‘ وہی ذات خیال کی صورت گر بھی ہے‘ اور وہی ذات عمل کی صورت بھی پیدا فرماتی ہے۔ہر چہرہ ایک Rangeمیں تاثیر رکھتا ہے۔اِسی طرح ہر خیال ایک دائرہِ تاثیر رکھتا ہے اور ہر عمل کا ایک دَور ہے جس میں وہ موٴثر ہوتا ہے۔اپنے دائرے سے باہر ہر موٴثر شے بے تاثیر ہو جاتی ہے۔کچھ چہرے،خیال اور اَعمال صدیوں پر محیط ہوتے ہیں اور زمانوں پر حاوی ہوتے ہیں۔

#####
جن مسلمانوں پر اِسلام نافذ نہ ہوسکے‘ اُن مسلمانوں پر غور کرنا چاہیے۔
جو اِسلام مسلمانوں پر نافذنہ ہوسکے ‘اُس اِسلام کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔
جو قوتِ نافذہ مسلمانوں پر اِسلام نافذ نہ کر سکے‘ اُس قوت کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔
#####
کائناتی نظام میں خیر وشر،اُجالا و اندھیرا،حق و باطل وغیرہ سب موجود ہیں۔

(جاری ہے)

یہ اِنسان کی بیرونی دُنیا ہے۔اُس کے اندرونی نظام میں بھی خیروشر،یقین و وسوسہ وغیرہ پلتا رہتا ہے۔ ایک بندہٴ مومن اپنے یقین و ایمان سے وسوسوں کو ختم کرتا ہے اور خیر کی راہ اختیار کرتا ہے۔
#####
گناہوں میں مبتلا اِنسان کا دُعاوٴں پر یقین نہیں رہتا۔
#####
بارگاہِ رسالت ﷺ میں ہدیہٴ دُرود بھیجنے کے لئے غریبی رکاوٹ نہیں۔
حضورِ اکرم ﷺ غریبوں میں غریب،یتیموں میں یتیم،مہاجروں میں مہاجر اور سلاطین میں سلطانِ زمانہ تھے۔معاشی نا ہمواریاں آپ ﷺ کے قرب کی راہ میں رکاوٹ نہیں،نہ سرمایہ آپ ﷺکے تقرب کی ضمانت۔
#####
سمندر کا وہ پانی جو سمندر سے باہر ہو ‘اُسے دریا‘جھیل‘بادل‘آنسو‘شبنم کچھ بھی کہہ دو‘لیکن پانی کا وہ حصّہ جو سمندر میں شامل ہو جائے‘وہ سمندر ہی کہلائے گا۔
#####
جس کا رسالت ﷺ پر ایمان نہ ہو‘ وہ موحّد بھی کافر ہو گا۔
#####
زندگی سے تقاضا اورگلہ نکال دیا جائے تو سکون پیدا ہو جاتا ہے۔سکون اللہ کی یاد سے اور اِنسان کی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔نفرت اضطراب پیدا کر تی ہے۔ اضطراب اندیشے پیدا کرتا ہے اور اندیشہ سکون سے محروم کر دیتا ہے۔محبت نہ ہو‘ تو سکون نہیں۔
#####
اِنسان کسی کو شریکِ زندگی بنانے سے پہلے اُس کے حال اور ماضی کو دیکھتا ہے لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ اُس کی رفاقت میں اُس نے مستقبل گزارنا ہے۔
کامیاب ازدواجی زندگی اللہ کا اِحسان ہے۔
#####
ایک اِنسان کو زِندگی میں با اعتماد ہونے کے لیے یہ حقیقت ہی کافی ہے کہ اُس سے پہلے نہ تو کوئی اُس جیسا اِنسان دُنیا میں آیا‘ نہ اُس کے بعد ہی کوئی اُس جیسا آئے گا۔یہ عظیم اِنفرادیت بہت بڑا نصیب ہے۔
#####
آج کا اِنسان اِس لیے خوفزدہ ہے کہ وہ لذّتِ شوق سے محروم ہے۔ کثیرالمقاصد زِندگی خوف سے نہیں بچ سکتی۔
رحمت ِ حق سے مایوسی ہی خوف پیداکر رہی ہے۔لالچ ختم نہ ہو‘ تو خوف کیسے ختم ہو۔اِنسان اپنے آپ کو جتنا محفوظ کرتا ہے‘ اُتنا ہی غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے،گویا زندگی اپنی ”حصار بندیوں“ اور ”حفاظتوں“ کی زَد میں آ گئی ہے۔ہر طرف خوف ہی خوف ہے۔ اِس خوف سے بچنے کا واحد ذریعہ اپنی جبینِ شوق کو سجدوں سے سرفراز کرنے میں ہے۔
#####
غافل کی آنکھ اُس وقت کُھلتی ہے‘ جب بند ہونے کو ہوتی ہے۔
#####
ذِکر سے محویّت حاصل کرو……سکون مل جائے گا۔
#####
اللہ کے محبوب اور اللہ کے ولی کسی سے ایک دفعہ تعلق قائم کرنے کے بعد اُس تعلق کو توڑتے نہیں‘بازو پکڑنے کی لاج رکھتے ہیں۔اللہ اِنسانوں سے بے نیاز ہے‘ لیکن اللہ والے بے نیاز و بے پرواہ نہیں ہوتے،اِسی لیے تو وہ اللہ والے کہلاتے ہیں۔ یعنی اللہ والے‘ اِنسانوں والے ہوتے ہیں۔
اللہ کا قرب ملتا ہی اِنسانوں کی خدمت اور اُن کی محبت سے ہے۔
#####
ایسے بھی اللہ والے آتے رہتے ہیں جو زندگی بھر گمنام رہتے ہیں۔ معاشرے کی نگاہوں سے اوجھل کِھلنے والے گلاب‘گلاب ہی کہلائیں گے۔یہ اللہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو کس حال سے گزارے۔کہیں کسی کو بادشاہِ تخت نشیں کر دیتا ہے، کہیں کاسہٴ گدائی عطا فرماتا ہے۔
صاحبانِ محبت ووَفا ‘ہر حال سے بخوشی گزرتے رہتے ہیں۔ صاحبِ تعلق کے لیے سِتم بھی اندازِکرم ہے۔
#####
معرفت ‘ہمہ وقت تحیّر میں رہنے کا نام ہے۔اَسماء کی پہچان سے اشیاء کی پہچان کرنا۔ظاہر کے مشاہدے سے باطن کا علم حاصل کرنا۔معرفت وہ حکمت ہے جو کثرت سے وحدت کا راستہ دکھاتی ہے۔قادرِ مطلق کی قدر کے سامنے کسی کی قدر پر نظر نہ ڈالنا معرفت ہے۔
اِنتہا یہ ہے کہ ہم جان لیں کہ ہم اللہ کو جان نہیں سکتے‘بس مان ہی سکتے ہیں۔
#####
حالات اور وقت کی تبدیلیوں سے بدلنے والے تعلقات سے بہتر ہے کہ اِنسان تنہا رہے۔
#####
ترقی یا اِرتقا ضروری ہے لیکن…گہوارے سے نکل کر اپنی قبر تک کتنی ترقی چاہیے …؟اصل ترقی یہ ہے کہ زِندگی بھی آسان ہو اور موت بھی مشکل نہ رہے!!
#####
دُعا پر اعتماد ہی نیکی ہے۔
جب ہم تنہائی اور خاموشی میں دُعا مانگتے ہیں تو ہم اِس یقین کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا اللہ تنہائی میں ہمارے پاس ہے اور وہ خاموشی کی زبان بھی سنتا ہے۔دُعا میں خلوص‘ آنکھوں کو پُر نم کر دیتا ہے اور یہی آنسو‘ دُعا کی منظوری کی دلیل ہیں۔ دُعامومن کا سب سے بڑاسہارا ہے۔دُعا نا ممکنات کو ممکن بنا دیتی ہے۔دُعا زمانے بدل دیتی ہے۔
دُعا گردشِ روزگار کو روک سکتی ہے۔ دُعا آنے والی بلاؤں کو ٹال سکتی ہے۔دُعا میں بڑی قوّت ہے۔جب تک سینے میں اِیمان ہے‘دُعا پر یقین رہتا ہے۔جس کا دُعا پر یقین نہیں‘ اُس کے سینے میں اِیمان نہیں۔ اللہ سے دُعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ہماری دعاؤں کی افادیّت سے مایوس نہ ہونے دے۔
#####
ہمیں جب اپنی فلاح کا یقین ہو جائے ‘ہم دُوسروں کو اُن کی فلاح کے لیے تبلیغ کرتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے ساتھ جنت کی نعمتوں میں شریک ہوں۔ہمارے دعوے کی صداقت کا ثبوت صرف یہی ہو سکتا ہے کہ ہم اُن کو اپنی موجودہ زندگی کی آسائشوں میں بھی شریک کریں۔
#####
عشقِ اِلٰہی‘ در حقیقت عشقِ محبوبِ اِلٰہی ﷺ ہے۔اللہ کے حبیب ﷺ اللہ کی محبت عطا کرتے ہیں‘اور اللہ اپنے محبوب ﷺ کی محبت عطا فرماتا ہے۔محبت‘ محبوب کی اِطاعت میں مجبوری کی نفی کا نام ہے۔اِیثار ‘محبت کا اعجاز ہے۔محبت ‘ حیرت پیدا کرتی ہے،محویت اور بیداری پیدا کرتی ہے۔زندگی کے عصری کرب سے نجات کا واحد ذریعہ محبت ہے!!

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif