Episode 21 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 21 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

ذوالفقار تابش:
آپ تھے جناب اشفاق احمد، ابھی بانو آپا نے ایک مردِ ابریشم کا ذکر کیا تھا ‘ ایک نیک اور معصوم روح قدرت اللہ شہاب ‘ جنہیں آج یہاں ہونا تھا‘ آج کی تقریب کی صدارت انہیں کرنی تھی۔ اِس تقریب کی صدارت کے لیے میں نے ہی اُن کا نام تجویز کیا تھا کہ اِس سے بہتر نام مجھے سوجھا ہی نہیں تھا۔ آج کا خطبہٴ صدارت بھی اُنہوں نے ہی دینا تھا۔
اُس مردِ ابریشم ، نیک روح کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ وہ جب رُخصت ہوئے تو اپنا آخری کام بھی کر گئے جو اُنہوں نے دراصل آج کرنا تھا‘ وہ خطبہٴ صدارت لکھ گئے تھے‘پڑھ رہی ہیں محترمہ ریحانہ اورنگزیب صاحبہ … تشریف لائیے۔
خطبہٴ صدارت از قدرت اللہ شہاب:
جناب واصف علی واصف کی تصنیف ”کرن کرن سورج“ پڑھنے کے بعد میرے دِل میں جو تاثر بے اختیار اُبھرا‘ وہ یہ تھا:
 #خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں ‘سامنے آتے بھی نہیں
فطرت کا قانون ہے کہ تشنگی سراب سے نہیں بلکہ آب سے بجھتی ہے۔

(جاری ہے)

”کرن کرن سورج“ کے افکار ِاعلیٰ اور اقوالِ زرّیں‘ جھلکیاں تو سمندر کی دکھاتے ہیں‘ لیکن میرے جیسا کم فہم، بے بصیرت اور پیاسا مسافر قطرہٴ شبنم کو ترستا رہ جاتا ہے۔ یہ کتاب جن جن نئی شاہراہوں اور پگ ڈنڈیوں کی نشاندہی کرتی ہے اُن پر سر پٹ بھاگنے کو جی تو بہت چاہتا ہے ‘ لیکن چند قدم چلنے کے بعد سڑک اچانک ختم ہو جاتی ہے۔ بنتی ہوئی سڑک کو ادھورا چھوڑ کر بیٹھ رہنا‘ دراصل پی ڈبلیو ڈی کا پیدائشی حق ہے۔
واصف صاحب ! اِن سے یہ حق چھیننے کا ظلم کیوں ڈھانا چاہتے ہیں؟
جسم و جان اور رُوح و عرفان کا گورکھ دھندا بے حد پیچ اور خم دار ‘ غلام گردشوں کی بھول بھلیاں ہے۔ اِس ظلمت کدے میں واصف صاحب اپنے دِل نواز اقوال کی تِیلیاں جلا جلا کر لمحہ بھر کے لیے دو قدم تک روشنی تو کر دیتے ہیں‘ لیکن اِس کے بعد تلاشِ حق کا راہرو پھر اندھیرے میں بھٹکتا رہ جاتا ہے۔
کسی مسافر کے پاس اتنے میچ بکس نہیں ہوتے کہ محض دِیا سلائیوں کی روشنی میں وہ اِتنا طویل اور پُر خطر سفر طے کر سکے۔ اِس کے لیے ماچس کی نہیں‘ ہزاروں کینڈل پاور کے بلب کی ضرورت ہے۔ 
یہ روشن بلب ‘واصف صاحب نے کسی وجہ سے اپنے دامن میں چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ اب انہوں نے ”کرن کرن سورج“ کی ایک جھلک دکھا دی ہے‘ تو اُن کا اگلا قدم لازماً یہی ہونا چاہیے کہ وہ سورج کو بھی طلوع کر کے کرن کرن دِکھا دیں۔
 
اُمید کے اِس سہارے پر میرا گمان ہے کہ یہ تصنیف کتاب کا متن نہیں بلکہ محض دیباچہ ہے۔ اصلی کتاب ابھی زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوئی۔ خدا کرے کہ وہ کتاب اپنے وقت پر منصہ شہود پر آئے اور بے شمار آرزو مندوں کے لیے حال و قال ، ظاہر و باطن اور طریقت و شریعت کی گتھیاں سلجھائے۔
واصف صاحب کے اپنے الفاظ میں اُن کا قول ہے کہ ”پہاڑ کی چوٹی تک جانے کے لیے کتنے ہی راستے ہو سکتے ہیں ‘ لیکن سفر کرنے والے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے“۔
بھولا بھٹکا مسافر اِس کا سراغ کہاں اور کس طرح لگائے؟ اِس راستے کی تلاش کرنے میں رہنمائی کا فرض بھی اب واصف صاحب ہی پر عائد ہوتا ہے۔ ان کا ایک دوسرا قول یہ ہے کہ ”خواب کی اونچی اڑانیں بیان کرنے سے زندگی کی پستیاں ختم نہیں ہوتیں“۔ بے شک یہ سچ ہے ‘ لیکن خواب کی تعبیر نکالنے والے کوئی صاحبِ نظر بھی تو سامنے آئیں۔ اس کے بغیر اونچے اونچے خواب آتے رہیں گے اور زِندگی کی پستیاں نیچے سے نیچے دھنستی رہیں گی۔
یہ گتھی سلجھانا بھی واصف صاحب کے ذمے ہے۔
”کرن کرن سورج“ کو شائع کر کے واصف صاحب نے اپنے کندھوں پر ایک بڑا بھاری بوجھ اٹھا لیا ہے۔ اب وہ اِس عذر کا سہارا نہیں لے سکتے۔
 #درمان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
بعد می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
اب اُن کا دامن تر ہو کہ تار تار‘ اُن کے لیے یہ بوجھ اُٹھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔
”کرن کرن سورج“ میں جس راہ کو وا کیا گیا ہے‘ اُس پر کول تار بچھانا بھی اُنہی کا کام ہے۔ اُس پر سنگِ میل نصب کرنا بھی اُنہی کا کام ہے اور اُس پر سٹریٹ لائٹس جلانا بھی اُنہی کا کام ہے۔ خدا کرے کہ وہ اپنا فرض بعنوانِ شائستہ نبھانے میں جلد از جلد سُر خرو ہوں۔
آخر میں جناب واصف علی واصف سے میں بعد ادب و احترام گزارش کروں گا کہ وہ اپنے بے شمار مداحوں کے ساتھ اُس انجینئر کا سا سلوک نہ کریں‘ جس نے ایک دس منزلہ عمارت تو تعمیر کر دی تھی‘ لیکن اوپر جانے والی سیڑھیاں بنانا نظر انداز کر گئے تھے۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ سیڑھیاں کیوں نہیں بنائیں ‘تو اُن کا جواب یہ تھا کہ فی الحال نچلی منزل میں ہی گزارا کرو۔ بجٹ میں سیڑھیوں کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اب اگلے مالی سال میں نئے بجٹ کا انتظار کرو۔ ہماری اِستدعا ہے کہ واصف صاحب انپے شائقین کو اپنے وجدان کی آمد کا اگلے بجٹ تک انتظار نہ کروائیں کیونکہ اب اُن کی تمنا بے تاب ہے اور یوں بھی اِس بے ثبات دُنیا میں:
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
ذوالفقار تابش:
دعوت دیتا ہوں جناب واصف علی واصف صاحب کو۔
جناب واصف علی واصف صاحب:
خواتین و حضرات! خطاب تو کیا کرنا ہے۔ شکریہ ادا کرتا ہوں ‘آپ سب مہمانوں کا اور اِس وقت شہاب صاحب کی بات سُن رہا تھا کہ کس کا کیا فرض ہوتا ہے یا کیا فرض بنتا ہے۔ تھوڑا غور کیا جائے‘ تو میرا خیال ہے کہ سب کا فرض ہے کہ کسی ایک ایسی راہ کی تلاش کی جائے‘ جس راہ پر ہمارے لیے فلاح یقینی ہو جائے‘ تو اِس مختصر وقت میں کہنے کو اِتنی چیزیں ہیں کہ اُلجھ نہ جائے بات۔
لیکن مختصر دو چار باتیں کہ اگر ہمارا یقین کسی مابعد میں جواب دہی پر ہو‘ تو ہم پر لازم ہے کہ اِسی دنیا میں، اِسی زندگی میں،یہ پہلے تعیّن کر لیں کہ ہم مستقبل میں داخل ہو رہے ہیں۔ اگر اِنسان عبادت نہ کر سکے تو کم از کم توبہ تو ضرور کر لے‘ تو مطلب یہ ہے کہ… کیا میں بات کروں(میں کیا بات کروں)… میں گھبرا نہیں گیا‘ باتیں بہت ساری ہیں‘ باتیں اِتنی زیادہ ہیں کہ میں کون سی بات کروں اور کون سی بات چھوڑوں۔
اِس لیے بہتر یہ ہے کہ کوئی آپ (آپ کوئی ) بات پوچھو تو میں بات کر لوں‘ میرے لیے آسانی ہو جائے گی۔مطلب یہ کہ کہاں سے میں بات شروع کروں۔ آپ کوئی سوال کرو تو پھر میں تھوڑا سا اُس کا جواب دے دوں‘ کوئی ایک آدھ مضمون‘ کس مضمون پر میں بات کروں‘ بجائے اِس کے کہ میں مضمونSelect کرتا رہوں۔ 
سوال : توبہ کے بارے میں کچھ فرمائیں؟
 جناب واصف علی واصف صاحب:
آپ کو ایک اور سوال پیش کرنا پڑے گا‘ میں ہی پیش کرتا ہوں‘ جب ہم دیکھتے ہیں ماضی میں‘ اللہ کریم نے ارشاد فرمایا ‘ دُعا میں‘ عبادت میں‘ دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھی راہ دکھا‘ سیدھا راستہ ‘یعنی کہ اُن لوگوں کی راہ جن پر تیرا انعام ہوا اور دوسرے لوگ چھوڑ دیے جائیں ۔
گویا کہ کچھ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ‘ اللہ تعالیٰ کے ہی الفاظ میں انعام ہوا۔ کیا ہم اُن لوگوں کو ماضی میں یا حال میں دریافت کر سکتے ہیں؟ جب ہم ایک سوال کر رہے ہیں کہ ایسی راہ دکھا‘ وہ راہ اُن لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا ‘ تو لازمی بات ہے کہ کچھ لوگ ہوں گے ‘ ماضی میں ‘ حال میں۔ میں یہ پوچھوں گا یوں‘کہ اگر میں کوئی ایسا نام لوں ‘ ماضی کا‘ کسی بزرگ کا‘ جن کو ہم متفقہ طور پر رحمتہ اللہ علیہ کہیں‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں‘ علیہم السلام کہیں‘ تو کیا یہ پوچھنا رہ گیا ہے کہ اُس پررحم ہوا کہ نہ ہوا۔
کیا اُس پر انعام ہوا کہ نہ ہوا !!نام لیے بغیر… کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے کسی کا نام لیا جائے تو آپ یہ کہیں گے کہ انعام یافتہ ہیں۔ مقصد یہ کہ ابھی فیصلہ ہوا نہیں ہے ،قیامت نے ابھی آنا ہے ،حساب کتاب بعد میں ہے‘ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہاں فیصلہ کیسے ہو گیا‘ کس طرح فیصلہ ہو گیا،فیصلہ ہونا باقی ہے۔ داتا صاحب کا نام ہم لیتے ہیں‘ بزرگ ہیں‘ دیکھا نہیں ہے اُن کو ‘ سُنا ہے۔
آپ ساروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کچھ یہی کہا جاتا ہے کہ رحمتہ اللہ علیہ کہا جا سکتا ہے‘ آپ پر انعام ہوا‘ گویا کہ کچھ انعام یافتہ لوگوں کا انعام یافتہ ہونا ‘ یہ ہمیں یقین ہے کہ ہر چند کہ ہم نے دیکھا نہیں ہے۔ جب دیکھا نہیں ہے اور یقین ہے کہ ہیں ‘تو پھر اِس میں ایک راز ہونا چاہیے کہ وہ اِنسان جس پر انعام ہوتا دیکھا نہیں ہے اور اُس کو انعام یافتہ مانتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ علیہ السلام ہیں ‘ تو کیسے جانتے ہیں اور اگر جانتے ہیں تو اسی فارمولے کے مطابق اپنے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا۔
اگر وہ فارمولا مل گیا‘ کچھ عنوان مل گیا تو وہ انعام یافتہ ہیں… چلو بحث نہیں کرتے‘ انعام یافتہ ہیں‘ علیہ السلام ہیں اور اُن پر انعام ہو گیا تو آپ یہ بتائیں کہ آپ اپنے آپ کو کس طرف رکھ رہے ہیں۔ زندگی میں فیصلہ کیا آپ نے ‘ اُن کے بارے میں۔ اپنی زندگی میں ‘ اپنے بارے میں آپ کیوں نہیں فیصلہ کرتے۔ اگر فیصلہ امید میں ہے ‘ الحمد للہ ! اور اگر اندیشہ ہے تو استغفراللہ‘ توبہ ہونی چاہیے اور اگر اندیشہ ہے تو عبادت پر بھی استغفراللہ ‘ جو آپ کر رہے ہیں‘ کہ رزلٹ اندیشہ ہی نکلا۔
اب آپ دیکھئے کہ ایک آنے والے وقت کا اندیشہ تھااور ایک جانے والے وقت کا… ایک آدمی نے دوسرے سے پوچھا کہ بھئی آپ کوئی آنے والے حالات کے متعلق جانتے ہیں؟ اُس نے کہا کہ ابھی تو جانے والوں سے فارغ نہیں ہوا‘ آنے والوں کو دیکھا جائے گا… تو وہ لوگ جن کو آنے والے زمانے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا‘ جانے والے کا غم نہیں ہوتا ‘ اُن کو کہتے ہیں ”لا خَوْف عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْن“ نہ اُن کو آنے والے کا ڈر ہے کہ یہ جانتے ہیں کہ اُس کا رحم ہو گا‘ نہ گزرے ہوئے کا افسوس ہے کہ یہ توبہ کر چکے ہیں۔
اِس لیے میں یہ گزارش کروں گا کہ آپ اپنے آپ کو ‘ توبہ کے حوالے سے میں یہ کہہ رہا ہوں‘ اپنا جائزہ لیتے ہوئے‘ یہ اِس میںMathematical Marks نہیں ہوتے۔ دیکھیں آپ سکون میں ہیں‘ امید میں ہیں؟ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے دِل میں امید پیدا فرما دی ہے تو اُس کا شکر ادا کریں‘ عبادت ہو گئی منظور‘اور اگر آپ کو اندیشہ پیدا ہو گیا تو پھر آپ یہ سمجھیں کہ عبادت کے باوجود بھی کہیں نہ کہیں نقص موجود ہے۔
اِس لیے وہ اگر عبادت منظور نہ کرے تو پھر عبادت کس کام ‘اور اگر وہ کسی گنہگار کے دِل کو اپنے قریب فرما دے ‘ معاف فرما دے تو پھر وہ معاف فرما سکتا ہے۔ اِسی ضمن میں مَیں بات کروں گا‘ توبہ کے حوالے سے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے… ایک یہ کہ جو اعمال ہوں گے نتیجہ ہو گا ‘ ایک یہ کہ ہم آپ کو ظلمات سے نور میں داخل کرتے ہیں۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ جو کچھ محنت کرو گے ‘ ملے گا‘ اور ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ جس کو ہم چاہتے ہیں‘ بے حساب عطا فرماتے ہیں۔
اگر اللہ کریم ہی ظلمات سے نور میں داخل کرتا ہے‘ اللہ کریم ہی بے حساب عطا فرماتا ہے‘ تو پھر یہ مان لینا ہی ہمارے حق میں ہے کہ ہمیں ہماری عبادت کے باوجود معاف فرما دے گا‘ اُس عبادت کے باوجود جس میں ریا شامل ہے اور اُن گناہوں کے باوجود معاف کرے گا جن کے بعد ہمیں توبہ کی توفیق ہوتی ہے۔ توبہ دو طریقے سے ہے‘ کسی کیے ہوئے پر پشیمانی اور کسی ایسی بات پر جو آپ چاہتے ہیں اور وہ اُس کو منظور نہیں ہے۔
اُس دُعا پر بھی توبہ‘ جس کو منظوری کا موقع نہیں ملا‘ جس کو منظور نہیں ہونا‘ جو منظوری کے مقدّر میں نہیں لکھا ہوا ۔آپ ان باتوں سے توبہ کریں۔جو کام سرزد ہو گیا اور اندیشہ پیدا کر رہا ہے‘ اُس سے توبہ کریں۔ توبہ کا معنی ہے مُڑ جانا ‘ راستے سے بدل جانا۔ توبہ میں ایک ایسا مقام بھی آتاہے جہاں شکر کامقام ہے ‘ وہاں توبہ کرتے ہیں۔ یہ ایک الگ مقام ہے‘ توبہ کرنے کا حکم ہے۔
پچھلے مقام پر توبہ کی کہ نئے مقام میں داخل ہو رہے ہیں‘ نئے عروج میں داخل ہو رہے ہیں ‘ نئے درجات میں داخل ہو رہے ہیں‘ توبہ کہ میں نے اِس کو مقام سمجھا تھا‘ مقام تو یہ اب آیا‘ اِس لیے توبہ عروج کا باعث بھی ہے‘ توبہ پستی سے نکلنے کا ذریعہ بھی ہے ۔ توبہ آپ کو اللہ کے قریب لانے کا ذریعہ بھی ہے‘ توبہ اُس نے خود سکھائی ہے۔ پہلا Fall جو ہے اُس کے بعد پہلی زبان جو آئی ہے ”رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَ اِلَّمْ تَغْفِرْلَنَا“‘ توبہ ہی سکھائی ہے۔
تو‘ توبہ جو ہے‘ اُس کی طرف رجوع کا نام ہے۔ توبہ ہی کرنی چاہیے‘ تو میں یہ کہتا ہوں کہ توبہ اللہ کے تقرّب کاذریعہ ہے۔ اللہ جب توبہ کی توفیق عطا فرمائے تو سمجھو رحم کر رہا ہے‘ رحمت سے پہلے توبہ کی توفیق عطا فرماتا ہے۔
میں اور زیادہ کیا کہوں ‘ آپ لوگوں کا شکریہ اور تھوڑا سا میں آپ کی خدمت میں یہی کہوں گا کہ شہاب صاحب کے ایصالِ ثواب کے لیے دُعا کی جائے …(دُعا)…آخر میں یہ کہوں گا کہ ہم سب دراصل ایک دوسرے کا غم ہیں جو ایک دوسرے کی خوشی بن کے بیٹھے ہیں۔
بس اتنی ساری بات ہے۔
ذوالفقار تابش:
آخر میں درخواست ہے کہ آج کی نشست کے صدر جناب شیخ منظور الٰہی صاحب سے‘ تشریف لائیے خطبہٴ صدارت کے لیے۔
 شیخ منظور الٰہی صاحب:
جناب واصف صاحب ! معزز خواتین و حضرات!
نامور ادیب اور نقاد اپنے مقالے پڑھ چکے ہیں، بڑے خوبصورت مقالے اور بڑی پُر مغز تقریریں اور واصف صاحب کے ساتھ ایک چھوٹی سی مجلس بھی ہو چکی ہے۔
میری یہ چند معروضات اِس کارِ ثواب میں شرکت کی غرض سے ہیں۔ فہم و اِدراک ‘حیات و ممات کی گتھیاں سلجھانے سے قاصر ہیں۔زندگی میں حلاوت بھی ہے اور تلخی بھی‘ مسرّت ہے اور غم بھی ‘اور جب موت کا بے رحم ہاتھ کسی عزیز کو ہم سے چھین لیتا ہے تو ہم راضی برضا نہیں ہوتے۔ اِس جدائی سے سمجھوتا نہیں کر پاتے۔ شاد باعث زیستن‘ ناشاد باعث زیستن۔ اپنے آنسو پی کے ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں، اپنی اپنی منزل کی طرف‘ کیونکہ جب تک سانس میں سانس ہے ‘ رہ رہ کے ایک سوال دِل پہ شب خون مارتا ہے‘ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ زندگی کس طور بسر کی جائے؟ اِس اہم سوال کے جواب کے لیے ہم واصف علی واصف ایسے عارف کی طرف دیکھتے ہیں‘ ایک صاحبِ نظرجو شے کی حقیقت سے باخبر ہے۔
سنیے تو واصف صاحب کی میٹھی میٹھی باتیں سنتے جائیے ‘نرم باتیں‘ بات سے بات نکلتی ہے‘ جواب سوال میں مضمر ہوتا ہے‘ انداز واعظانہ ہے نہ ناصحانہ بلکہ اِسے گفتگو کہنا مناسب ہو گا‘ جو اِن کے کالموں کا عنوان بھی ہے۔ گفتگو یک طرفہ بھی ہو سکتی ہے یا اپنی روح سے آخر شب باتیں‘ مگر واصف صاحب کا ایمان ہے کہ ربِ کریم نے ہر اِنسان کو چند صلاحیتوں سے نوازا ہے۔
اللہ کی ودیعت کردہ صلاحیتیں بروئے کار نہ لانا کفرانِ نعمت ہے۔ اِس لیے وہ گفتگو میں سب کو شریک کر لیتے ہیں۔ باتوں سے لطف اندوز ہونا ایک بات ہے مگر بات میں نکتہ آفرینی بھی ہوتی ہے ۔نکتہ سمجھ آبھی جائے تو یہ نہ سمجھئے کہ راہِ فلاح مل گئی۔واصف صاحب Short Cut بھی بتلاتے ہیں بلکہ سامعین کی کثیر تعداد ہوا میں معلق ہو کے رہ جاتی ہے۔ واصف صاحب تو ابہام اور توہمات کے جالے صاف کرتے ہیں‘ آسان لفظوں میں چند اصول بتلاتے ہیں‘ سننے والے سے اخلاصِ عمل کی توقع رکھتے ہیں‘ جنت کا پاسپورٹ نہیں دیتے‘ حالانکہ ایسا پاسپورٹ دینا کوئی نئی بات نہیں۔
گذشتہ تیرہ چودہ سو سالوں سے ہوتا آیا ہے بلکہ آج بھی ہو رہا ہے۔ واصف صاحب کی لکھی تحریر بھی ایک خاص رنگ لیے ہوتی ہے‘ آسان الفاظ ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے فقرے دِل میں اُترتے جاتے ہیں‘ سوال و جواب میں مکالمے کا رنگ ہوتا ہے۔ ایک گفتگو میں واصف صاحب نے کہاتھا‘ لوگوں کے چہرے دیکھا کرو۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ لوگوں کے چہرے دیکھو۔
ہو سکتا ہے ‘مطلب یہ ہو کہ اللہ کی مخلوق سے محبت کرو۔ ہر انسان میں نور ِربانی کا جلوہ ہے‘ اِس لیے کوئی چہرہ قابلِ نفرین نہیں۔ ہر شخص میں کوئی خوبی ہے‘ وہ حُسنِ رخسار ہو کہ حُسنِ کردار‘ صدق و صفا کی مہک ہو یا مہر و وفا کی خوشبو‘ لوگوں کے چہرے دیکھو… قدرت اللہ شہاب کے آناً فاناً اُٹھ جانے سے یہ عقدہ کھلا ہے کہ ایک دوسرے کا دیدار بھی چند روزہ ہے۔
اے عزیزاں 
ذوقِ دیدار یک نظر
ظاہر داری اور خود بینی کے اِس دَور میں واصف صاحب کا دَم غنیمت ہے‘ خدا کرے اِن کی تحریر و تقریرسے لوگ مستفید ہوتے رہیں۔ اگر اِن کے پڑھنے سننے والے بہتر اِنسان بن جائیں تو سمجھئے اِن کا مشن پورا ہو گیا…! 
(تالیاں)
ذوالفقار تابش:
خواتین و حضرات ! جناب واصف صاحب کی طرف سے آپ سب کی آمد کا میں بے حد شکر گزار ہوں۔ اِس کے ساتھ آج کی تقریب کا اختتام ہوتا ہے۔
(پرل کانٹی نینٹل‘ لاہور۔ ۱۹۸۶۔۷۔۳۰)

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif