Last Episode - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

آخری قسط - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

کرن کرن سورج … ایک تاثر
(ڈاکٹر انور سجاد)
ایفورزم (Aphorism ) فلسفیانہ اصول کے مختصر اور جامع بیان کو کہتے ہیں جو عقل و دانش سے معمور عمومی سچائی کے مشاہدے کا تیکھے اور چست انداز میں اظہار کردے۔ اُردو میں اِس اندازِ بیان کو کبھی اقوالِ زرّیں کہا جاتا ہے ، کبھی جوہر پارے … لیکن ایسے ناموں سے ایفورزم کی معنویت کی اصلیت واضح نہیں ہوتی۔
جناب واصف علی واصف کی ”کرن کرن سورج“ ایفورزمز کا ایک مجموعہ ہے‘ جس میں زندگی سے متعلق ( اور عمومی معنوں میں ‘ موت کے متعلق بھی) ہر نوعیت کی عمومی سچائیوں کا نہ صرف ظاہری اور باطنی بیان ہے بلکہ اندیشوں سے پُر ، خوف زدہ ، مضطرب اور بظاہر بے معنی اور بے بس زندگی کو خود اپنے باطنی وسائل کو متحرک کر کے اطمینان ، سکون اور تشفیٴ ذات کا وسیلہ بھی ہے۔

(جاری ہے)

دوسروں میں اس قسم کی عظیم تحریک وہی پیدا کر سکتا ہے‘ جو نہ صرف اِس واردات سے خود گزرا ہو بلکہ اِس نوع کے باطنی حالات اُس کے قبضہٴ قدرت میں بھی ہوں۔ واصف صاحب کہتے ہیں : ”دراصل یہ چند کلیاں ہیں نشاطِ روح کی ‘ جنہیں گلستانِ طریقت سے چُنا گیا ہے اور جن سے اصلاحِ احساس میّسر آنا ممکن ہے“۔ مجھے یقین ہے کہ نشاطِ روح کی یہ چند کلیاں گلستانِ طریقت سے یونہی نہیں چُنی جا سکتیں بلکہ اِس کے لیے سچّی لگن، یکسوئی ، دردِ دِل اور تزکیے ، مجاہدے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ساری محنت بھی اُس وقت تک ثمر آور نہیں ہو سکتی‘ جب تک ”کسی نگاہ کا فیض“ نہ ہو۔
فیض ایسی ہی نگاہ کا ہوتا ہے جس سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ ”فیض میرا دعویٰ نہیں ‘ صرف اظہارِ عقیدت ہے‘ اُن صاحبانِ حال سے جن کے تقرّب سے ”حرفِ آرزو“ ”حرفِ بے نیازی“ ہوکر رہ جاتا ہے۔ “اگرچہ ”صاحبِ حال“ کیاہوتا ہے ؟ اِس کا بیان مشکل ہے لیکن ہم واصف صاحب کے اِس بیان کی حقیقت کو … ”صاحبِ حال کا قُرب ‘ حال پیدا کر سکتا ہے۔ جیسے آگ کا قُرب ‘لوہے کے ٹکڑے میں آگ کی صفت پیدا کرتا ہے“۔
یوں منطبق کر لیں کہ ”کرن کرن سورج“ بات ہے اُس گواہی کی کہ لوہے کے ٹکڑے میں صرف آگ کی صفت ہی پیدا نہیں ہوئی بلکہ آگ کے قُرب سے اب آگ ہی ہے ‘ تو بات سمجھ میں آ سکتی ہے۔ 
اِن ایفورزم کی سب سے بڑی خصوصیت اِن میں مضمر پیراڈوکس میں ہے۔ نفی کے اندر اثبات ہے اور اثبات تو اثبات ہے ہی ‘تضاد اِن ہی میں موجود ہے اور پیراڈوکس کا سلجھاؤ بھی اسی کے بطن میں موجود اگرچہ ”صداقت کی ضد باطل ہے“ لیکن ”سب سے بڑی صداقت بھی تو یہ ہے کہ اِس کائنات میں باطل کا سِرے سے وجود ہی نہیں“۔
 
آج کی اِس نفسا نفسی ، افراتفری کی دنیا میں کہ جس میں ظاہر‘ انسان پر اتنا حاوی ہو چکا ہے کہ باطن کے کوئی معنی ہی نظر نہیں آتے۔ آج کا انسان زندگی کا قائل نہیں بلکہ زندگی کو صرف گزارنا چاہتا ہے اور زندگی اُس وقت تک نہیں گزار سکتا جب تک بزُعمِ خود اِسے محفوظ نہ کر لے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تحفظ وہ اشیائے صَرف کے حصول میں پاتا ہے اور اُس کے وسیلے سے‘ اُسی تناسب سے‘اُتنا ہی غیر محفوظ ہوتا جا تا ہے اور یہی ٹیکنالوجی اِس زمانے کا کمال ہے۔
ٹیکنالوجی کہ جس نے انسان کو آسائشیں مہیا کیں کہ علمیّت اور عقلیّت ہی کو انتہا مانا گیا اور انسان نے اپنی روح (Spirit ) ہی اس ٹیکنالوجی کے پاس گِروی رکھ دی۔ اب نجات کے تمام راستے مسدود نظر آتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسان اپنی تاریخ میں اپنے آپ سے اِتنا زیادہ کبھی خوف زدہ نہیں ہوا تھا۔اِتنا علم اور اِتنی ترقی اور اِس تناسب سے اِس بے کراں ہجوم میں تنہائی کا عذاب ، تشکیک اور تشویش کا کرب… انسان شکست و ریخت کے باعث اتنا منتشر ہو گیا ہے کہ درندہ بن کر Cannibalism پر اُتر آیا۔
عدم تحفظ ، ناحاصلی، نارسائی اور ہوس کی شدّت اِسے خودکشی کی اس صورت میں لے آئی ہے کہ اِس نے اپنی زندگی سے معصومیت ، تحیّر اور عشق کو بالکل منہا کر دیا ہے۔
تو کیا اِس صورتِ حال سے نجات اب بھی ممکن ہے؟ واصف صاحب کا جواب قطعی اثبات میں ہے۔ ”انسانوں کے اژدھام اور سیلِ بے پایاں کے باوجود ایک پیدا ہونے والا بچہ کتنے وثوق اور تیقن سے تشریف لاتا ہے‘ اِس اعلان کے ساتھ کہ بہت کچھ ہو چکا ہے‘ لیکن ابھی بہت کچھ اور باقی ہے“۔
دراصل واصف صاحب نے ”کرن کرن سورج“ کے پہلے ہی جملے میں اپنا Premises قائم کر دیا ہے کہ ”آپ کا اصل ساتھی اور آپ کا صحیح تشخص‘ آپ کے اندر کا انسان ہے“ اور ” دینی اور دنیاوی فلاح کے لیے بنیادی شرط ایمان ہے“ اور یہ ایمان کوئی ابہام زدہ (Abstraction ) نہیں بلکہ وہ سطح ہے جس کے بغیر خیال ہمیشہ وسوسے، شکوک اور شبہات میں مبتلا رکھتا ہے۔ تو صداقت کیا ہوئی؟ صادق کا قول اور قول کے معتبر ہونے کی انتہا ”جس پر لوگوں نے بغیر تحقیق اور پہچان کے اللہ کو تسلیم کر لیا ۔
دراصل ایمان تو اعتمادِ شخصیت کا ہی نام ہے“ اور اِس کی معراج” جب تک مخبرِ صادق ﷺ کی صداقت پر اعتماد نہ ہو ‘ تو ہم توحید کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ تو عشقِ رسول ﷺ ہی زندگی گزارنے کا وسیلہ ٹھہرا“ ۔ واصف صاحب‘ عاشقِ رسول ﷺ ہیں اور اِدراک کے سورج کی ایک ایک کرن اِسی عشق کا پرتو ہے‘ جو ظاہر اور باطن (دُنیا اور دِین) کو منور کرنے کا ذریعہ ہے اور اِس سبب کچھ کے لیے آئینہٴ دل کا مصفا ہونا‘ کسی کی نگاہِ فیض کے بغیر شاید ممکن نہیں کہ جو اِس کے اندر کے موجود اِنسان کو اپنے آپ سے بے تعلقی کے سحر سے آزاد کر دے۔
یوں دِین بھی ہوگا ، دُنیا بھی ،اِسلام بھی اور مسلمان بھی اور سب سے بڑھ کر اِنسان کا ظہور۔
 ”کر ن کرن سورج“ کو پڑھ کر کتنا آسان لگتا ہے کہ آج کی دنیا کا بے یقین ، تشکیک، منافقت اور عدم تحظ کا مارا منافق، خوف زدہ اِنسان اپنا بکھرا ہوا شیرازہ خود اپنے ہاتھوں سے سمیٹ کر اپنے آپ کو ایک بار پھر پُر اعتماد، پُر ایمان و ایقان اور متوازن اِنسان میں ڈھال سکتا ہے ‘جو اپنے ہی شر سے محفوظ رہے ،واقعی بظاہر یہ کتنا آسان کام ہے ‘ لیکن کیا یہ ”کسی کی نگاہ کے فیض“ کے بغیر ممکن ہے؟ کسی صاحبِ حال کی مصاحبت کے بغیر؟ کہ اپنے آپ کو ‘خود گُم کردہ انسان ‘خوداپنے آپ کو تھما دے؟ اور پھر یہ بھرم بھی رہے کہ اپنے آپ کو پا لینے کا کارنامہ خود اِسی کھوئے اِنسان ہی نے سر انجام دیا ہے؟ 
 ختم شد

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif