Episode 20 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif
قسط نمبر 20 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف
ذوالفقار تابش:
جناب محمد حنیف رامے صاحب کے بعد آج کی تقریب کے مقرر اشفاق احمد صاحب تشریف لائیں۔
اشفاق احمد:
جناب واصف صاحب !
برادرم منظور الٰہی صاحب ! خواتین و حضرات !
اصل میں میرے ساتھ شروع ہی سے یہ مشکل رہی ہے کہ میں بڑے بلکہ بہت ہی بڑے اِنسانوں کے درمیان اپنی خوشی اور اپنی رضا کے ساتھ گھِرا رہا ہوں اور بڑی محنت اور کوشش کے ساتھ اپنی خودی کو چھوٹی چھوٹی کاٹتا رہا ،مشکل یہ رہی ‘ نہ تو آج تک اپنی خودی اور زعمِ آگہی کو ملائم کر کے تسلیم کی دنیا میں داخل ہو سکا اور نہ ہی اِن بڑے لوگوں کے راستے پر چل سکا‘ جن کے پاس راستوں کی نشاندہی تھی اور جنہوں نے متعدد مرتبہ اپنی خوشی سے مجھے روٹ پرمٹ عطا کیے لیکن میرے پاس کوئی گاڑی نہیں تھی‘ نہ ہمت کی ،نہ اِرادے کی۔
اِن بڑوں میں جنابِ والا سب سے پہلے بڑے سائیں فضل شاہ صاحب تھے۔ دوسرے سخی سائیں راضی صاحب اور تیسرے مسٹر قدرت اللہ شہاب اوراب حال پر موجودجناب واصف علی واصف صاحب ہیں‘ جن کی ”کرن کرن سورج“ پر روشنی ڈالنے کے لیے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ ”کرن کرن سورج “ واصف صاحب کے ملفوظات کا دُوسرا ایڈیشن ہے‘ جن میں بعض کے مطالب اور مفاہیم کو انہوں نے اپنے اُن مضامین میں کھل کر بیان کیا ہے جو ”نوائے وقت“ میں تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن اِس جہت کو پورے طور پر اختیار کرنا یا اِسے معلوم علم پر ترجیح دینا ایک اور مشکل بلکہ بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ میں یہ تو خوب اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ واصف صاحب کا علم ہی وہ علم ہے جس کے حاصل کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور جس میں اضافہ کرنے کے لیے دُعا کا طریق بھی سمجھایا گیا ہے‘ لیکن میں نے جو اَب تک پڑھا ہے یا مجھے جو اَب تک پڑھایا گیا ہے ‘ وہ اِس سے مختلف ہی نہیں ‘اِس سے برعکس بھی ہے۔ واصف صاحب فرماتے ہیں کہ:
(جاری ہے)
”علم میں دُوسروں کو شامل کرنے کا نام علم ہے۔“
” طبِ مشرق و مغرب میں بڑی ترقی ہوئی‘ ساتھ ہی بیماریوں میں بھی بہت اضافہ ہوا۔“
”انسان کل بھی دُکھی تھا، آج بھی سکھی نہیں‘اصل میں علاج خالق کے قُرب میں ہے‘
لوگ سمجھتے کیوں نہیں“۔
دُنیا بھر کے نفسیات دان اور معاشیات اور سماجیات کے ماہر یہ متفقہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ غصّے اور جنس اور سیکس اور کلام اور نفرت وغیرہ کے جن جذبوں کو دبا کر رکھا جاتا ہے اور جن کا کھل کراِظہار نہیں کیا جاتا ‘وہ جذبے فرد میں اور معاشرے میں گھٹن پیدا کر دیتے ہیں اور گھٹن سے حیاتِ انسانی میں بڑے بڑے ناسور پیدا ہو جاتے ہیں اور اِن ناسوروں کی وجہ سے فردی، عددی اور گروہی زندگی بے چینی اور ہیجان کا شکار ہو جاتی ہے لیکن واصف صاحب اور راہِ سلوک کے سارے بابے یہ فرماتے ہیں کہ ”زندگی سے تقاضہ اور گِلہ نکال دیا جائے تو سکون پیدا ہو جاتا ہے۔“ لیکن خواتین و حضرات ! آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں اور آپ کا مطالعہ مجھ سے بہت وسیع ہے کہ معلوم تاریخِ اِنسانی میں انبیا کو ”اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم“ والوں کو چھوڑ کر آج تک ہر انسان نے دنیا کو اِس کے سوا اور کچھ نہیں دیا کہ جس سوسائٹی نے اُس کو کبھی Reject کیا ‘اُس کے خلاف اِنتقام کا عَلم لے کر آگے نکل آیا اور اُس سے بدلہ لینے کے لیے للکارا اور پھر توڑ مروڑ کر خود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ پھوٹ گیا۔ زندگی سے تقاضہ اور گلہ نکال دیا جائے تو پھر نہ تو کوئی اخبار شائع ہو ،نہ کوئی کالم لکھا جائے ، نہ دنیا کی لائبریریاں ایک کمرے سے آگے بڑھیں، نہ مائکرو فش بنے ، نہ مائکرو فلم … لیکن جنابِ والا میں بڑی مشکل میں گھرا ہوا ہوں جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا ‘ دنیا کا ہر علمِ نافع مجھے اِس بات پر مجبور کرتا ہے اور یہ بڑی سخت مجبوری ہے کہ میں گُرو کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنا آپ ڈھیلا چھوڑ دوں اور اُس ہر فعل ،ہر فرمان اور ہر اِشارے پر اپنی مرضی اور اپنے ارادے کو قربان کر دوں۔ مجھ سے یہ نہیں ہوتا ! بڑی مشکل بات ہے ! مجھ سے یہ ممکن نہیں کہ میں اپنے رہنما ، اپنے گاڑی بان ، اپنے کھویا کو اُس کی مرضی پر چھوڑ دوں اور اُس کی حرکتوں پر اور کارکردگیوں پرنگاہ نہ رکھوں اور اُس کی کمزوریوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر احتساب کا خفیہ البم نہ بناتا رہوں۔ میں جب بھی کبھی رات کے وقت ہوائی سفر کرتا ہوں تو ایک پل کو بھی آنکھ نہیں جھپکاتا‘ بالکل کھُمب کی طرح اپنی سیٹ پر گڑا رہتا ہوں۔ میرے اِرد گرد تقریباً سارے بیوقوف ہم سفر کمبل تانے سو رہے ہوتے ہیں لیکن میری ساری توجہ اپنے رہنما ‘ اپنے پائلٹ ‘ اپنے گُرو پر ہوتی ہے کہ وہ کوئی بیوقوفی یا حماقت نہ کر جائے۔ میں خدا کے فضل سے ،اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ‘ ساری رات ذرا بھی Relax نہیں کرتا اور بالکل چاک و چوبند رہتا ہوں ۔ اِسی طرح میں نے زندگی کے اِس طویل سفر میں بھی کسی پر بھروسہ نہیں کیا۔ کسی کے ہاتھ میں اپنی راس اور کسی کے ہاتھ میں اپناہاتھ نہیں دیا۔ اپنی خوبی کو اپنے پہلو میں تلوار کی طرح سنبھال کر رکھا اور کسی کے علم کو اپنے علم سے بڑا نہیں سمجھا۔ کسی کو اِس بات کا استحقاق ہی نہیں دیا کہ چلو آج سے میری ساری زندگی تیرے حوالے ہے‘ اگر ہمیشہ کے لیے نہیں تو چند گھنٹوں کے لیے۔ پچھلے دِنوں جب میرا آپریشن ہوا ‘تو مَیں نے اپنے آپ کو سرجن کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹروں کے پاس اپنا علم تھا ،میرے پاس میرا‘ اور جب دونوں کا ٹکراؤ ہوا تو سرجن بے بس ہو گئے۔ چنانچہ اُنہوں نے بانو قدسیہ سے کہا کہ مریض کو مہربانی فرما کر تھیٹر سے لے جائیں ‘ ابھی مشکل ہے۔ بانو نے ڈرتے ڈرتے اُن سے پوچھا ‘ یہ جو عجیب سا لباس آپ نے اِنہیں پہنا رکھا ہے وہ اُتروا دوں؟ تو سرجن نے کہا کہ نہیں ‘ آپ ابھی انہیں اِسی لباس میں رہنے دیں اور انہیں وہاں دو دن رہنے دیں ۔ وہاں انہیں شدید قسم کے خواب آور دے کر نیم بے ہوش کریں گے ، جب اِن کی Resistance کم ہو جائے گی اور بلڈ پریشر نیچے آ جائے گا تو ٹھیٹر لے جا کر پورا بے ہوش کریں گے۔Till then have nice time and love to your children
یہ بابا لوگ کہتے ہیں کہ ”گُرو کی بات ہی گُر ہے اور گُرو کی خوشی فلاح ہے‘ گُرو کی ناراضگی سے بچنا چاہیے“۔ فرمانے والے فرماتے ہیں ”گُرو کی بات پر اِس طرح یقین کرو ‘جیسے معصوم بچہ اپنے ماں باپ پر یقین کرتا ہے“۔ ”اِس بے یقینی کے دَور میں یقین کا حامل ہونا کرامت سے کم نہیں“۔ کہا گیا ہے کہ ”راہِ طریقت میں طالب جس شخصیت کو اپنا شیخ ‘ گُرو‘ مرشد‘ ہادی یا پِیر سمجھے ‘ اُس کے حکم کو بلا چون و چرا تسلیم کرے، کوئی راہ ‘ راہبر کے بغیر طے نہیں ہوتی۔ صحبتِ شیخ‘ ذریعہٴ علم ہے، طرزِ عمل ہے اور وسیلہٴ نجات ہے“۔
یہ سارے اقوال اُن بزرگوں کی Extensionکے ہیں جن کا نام واصف علی واصف ہے اور اب اِس کتاب میں ہیں‘ جس کی بات پہلے بھی ہوتی رہی ہے ‘ آج پھر ہو رہی ہے۔ ”کرن کرن سورج “ میں لکھا ہے کہ ”مرید کی اپنی صداقت اور عقیدت ہی اُس کو منزل تک پہنچاتی ہے ۔ اگر منزل نصیب ہو گئی تو شیخ کے کامل ہونے میں کیا شک رہا اور مرید منزل تک نہ پہنچ سکا تو شیخ کے کامل ہونے نہ ہونے کا کیا تذکرہ۔ خوش نصیب مرید شیخ کا ہر حال میں ممنون رہتا ہے اور بدنصیب ہمیشہ اپنی کوتاہی کا شیخ کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے“۔ جناب واصف صاحب ! یہ بات تو میں پورے طور پر سمجھ گیا۔ ”جس کو زندگی میں کوئی سچا گُرو نہ ملا ‘ اُس جھوٹے چیلے کو بد نصیب نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے“۔لیکن یہ کس طرح سے ہو کہ میں اپنے خوفوں کو چھوڑ کر آپ کے پاس آؤں اور پھر باطن کے سفر میں اُتر جاؤں۔ جنابِ والا ! جس طرح پہلے اپنے جاننے کے تکبّر سے برآمد نہیں ہو سکتا تھا‘ اسی طرح اب اپنے خوف کو چھوڑ کر کسی نئی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ اِس عہد میں جس شخص کے پاس اپنے ذاتی، علاقائی اور خاندانی خوف موجود ہوں‘ اُس کو خدا کی بھی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ جس کے پاس خوف و ہراس اور دہشت کی متاعِ گراں بہا موجود ہو‘ اُس کو کسی بھی شے کی احتیاج نہیں رہتی۔ جن بیویوں کے پاس اللہ کے فضل سے خوف کی دولت موجود ہے‘ انہوں نے اپنے خاوندوں کو سالہاسال سے دبئی اور جدّہ میں بھیج رکھا ہے اور اُن کی غیر موجودگی میں اپنے اپنے خوف کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی ہیں ۔ جن والدوں کے پاس اپنے جدّی پشتی خوف موجود ہیں ‘ انہوں نے اپنے سارے بچوں کو ولایت میں داخل کرا دیا ہے اور اپنے بڑوں کی تصویروں کی بجائے اپنے خوف کے رنگا رنگ فیوجی کلر پرنٹ سے دِل بہلاتے رہتے ہیں۔ جن بچوں کے پاس اپنے مستقبل کا خوف ‘ اپنی اپنی Insecurity کی دہشت موجود ہے‘ وہ ہاتھوں میں کتابیں لے کر اپنے سوئے ہوئے والدین کے گرد چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ یہ ایسا خوبصورت اور ترقی یافتہ دَور ہے واصف صاحب! جس کا ہر خوش نصیب خوف زدہ اپنے خوف کے اندر ‘دُنیا و مافیہا سے بے خبر‘ بڑی شاندار اور قابلِ رشک زندگی گزار رہا ہے۔ ساٹھ سال کی مدت بڑی منزل ہوتی ہے سر ! اب میں اِس منزل سے نکلنا چاہتا ہوں۔ کئی اچھے اچھے اور مضبوط بازو مجھے اِس گرداب سے نکالنے کے لیے آگے بڑھے لیکن میں اُن کے ساتھ کلیان ہی کرتا رہا‘ ڈائیلاگ ہی بولتا رہا اور اظہار ہی کرتا رہا۔ واصف صاحب ! آپ کو آپ کے علم کا اور آپ کی کتاب کا اور اِس تقریب کا اور اُن سارے چہروں کا واسطہ جو آپ کو دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہیں‘ مجھے بھی خوف کے اِس منظر سے نکالیے۔ یہاں تو بڑا ہی اندھیرا ہے ‘نہ روشنی ہے اور نہ سورج اور نہ سورج کی کرن۔ حضور ! اب تو شاہی قلعے کا عقوبت خانہ بھی بند ہو چکا ہے‘ ہم کب تک اِس بندی خانہ کو سنگِ پشت کی طرح ساتھ ساتھ اٹھائے پھریں … بڑا اندھیرا ہے…!
Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

اولیاء کرام
Ooliya Karam

آوازِ نفس
Awaz e nafs

قلندر ذات
Qalandar Zaat

بیگمات کے آنسو
Begmaat K Aansoo

رمضان مبارک - تاریخ کے آئینے میں
Ramadan -ul-Mubarak, Tareek Key ainey main

خواہشات کی چاہ میں ہم جان کی بازی ہارے
khwahishat ki chah mein hum jaan ki baazi harray

امرت کور
Amrit Kaur

دِل ایک شہر جنوں
Dil Aik Shehre e Junoon
NovelAfsaneIslamicHistoryTravelogueAutobiographyUrdu LiteratureHumorousPoliticsSportsHealthPersonalitiesColumn And ProseSend Your Books & Requests