Episode 19 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 19 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

دُوسری طرف بیسویں صدی کا نفسیاتی معالج ‘ پیشہ ور نفسیات کا ماہر ہے‘ جو عالمِ کرب میں بات سننے کی باقاعدہ فیس لیتا ہے۔ حضور! کیا مشرق کی تہذہب تھی۔ میں نے اُنہیں واصف صاحب کا نمبر دے دیا۔ صرف اِتنا جانتا ہوں کہ اُن صاحب کو اپنے مستقبل سے ڈر آتا تھااور اُس خاتون کو اپنے ماضی سے ۔ اُن دونوں کو دیکھ کر مجھے یوں لگا‘ جیسے زنانہ جہنم اور مردانہ جہنم کے شعلوں کا رنگ اور تپش الگ الگ ہوتی ہے۔
زنانہ جہنم کا الاؤ روشن اور رنگین تھا ،مردانہ جہنم‘ افسردہ اور بے رنگ تھا‘ جلانے والا نہیں ۔Quick Sands کی طرح بھسم کر دینے والا ۔ وہ صاحب‘ جو کچھ وہ بننا چاہتے تھے ‘ نہیں بنے تھے اور بی بی ‘ جو کچھ وہ تھی‘ وہ قبول کرنے کو تیار نہ تھی۔ دونوں سر پٹ بھاگ رہے تھے ‘ دنیا سے نہیں ‘اپنے آپ سے۔

(جاری ہے)

آج سے سینکڑوں سال پہلے جو داستانیں لکھی جاتی تھیں اُس میں شہزادے کو سفر پر چلنے پر تاکید کرتے ہوئے یہ کہا جاتا تھا کہ پیچھے ُمڑ کر کبھی نہ دیکھے‘ ورنہ پتھر ہو جائے گا اور نہ پیچھے سے آنے والی آوازیں سنے ‘ ورنہ اُس کی راہ کھوٹی ہو جائے گی۔

حضور ! دراصل پیچھے مُڑ کر دیکھنا اپنی ذات کی بازگشت سننے کے مترادف ہے اور پیچھے سے آنے والی آوازوں پر کان دھرنا ‘اپنی شخصیت سے آنے والی آوازوں پر کان دھرنا‘ اپنی شخصیت کے دفن شدہ ماضی ‘ اپنے اصل کی طرف مراجعت کا سفر ہے۔ یہ سفر خطرات سے پُر ہوتا ہے‘ اِس لیے داستانی شہزادے سے کہا جاتا تھا کہ پیچھے مُڑ کر نہ دیکھے‘ نہ پیچھے سے آنے والی آوازوں کو سُنے ‘ لیکن اگر اِنسان میں وصالِ ذات کی آرزو پیدا ہو جائے تو پھر پیچھے سے آنے والی آوازوں پر کان دھرنا پڑتا ہے ورنہ جس تیزی سے بھاگو ‘ وہ اُسی شدّت سے تعاقب کرنے لگتی ہیں۔
جس طرح چلّہ کاٹنے سے پہلے کسی بزرگ سے پوچھ لینا چاہیے ‘اِسی طرح اگر ضرورت پڑے تو اپنی ذات کی طرف مراجعت کا سفر کرنے سے پہلے بھی کسی بزرگ کی بیعت اختیار کر لینا چاہیے کہ اگر کسی وقت اپنے سائے سے ڈر آنے لگے تو کوئی ہاتھ تھامنے والا ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اِس سے واقف نہیں ‘ البتہ بلّھے شاہ اور سلطان باہو کے کلام سے یہ ضرور واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں تک اُن کے ذاتی اصلاحِ اِحساس یا تربیتِ نفس کا سوال تھا ‘ وہ ضرور مرشد کا رہینِ منت تھا‘ لیکن مرشد کی ذات ایک ادارے کی حیثیت میں عوام الناس کو میسّر ہوتی تھی؟ میں اِس کی تفصیلات سے واقف نہیں ہوں ‘ ایک گفتگو کے دوران واصف صاحب نے ایک صاحب سے کہا تھا‘ آپ تاریخ کی صرف Grand Trunk روڈ پر سفر کر رہے ہیں۔
تاریخ کی گرینڈ ٹرنک روڈ کے دونوں طرف دُور دُور تک بہت خوبصورت قصبے‘ بہت شاندار بستیاں اور بہت دلنواز قریے ہیں ‘جن میں سے گرینڈ ٹرنک روڈ نہیں گزرتی‘ کوشش کیجیے کہ آپ کی نظر بھی اُن پر پڑ سکے۔ اِس دَور میں ‘ جو ہمارا زمانہ ہے‘ اور حکم ہے کہ زمانہ کو بُرا مت کہو‘ واصف صاحب نے بھی ایک قریہ آباد کیاہے۔ ہمارے عہد کی اِس گرینڈ ٹرنک روڈ سے جہاں پیرانِ طریقت اور علمائے دین‘ نفاذِ شریعت کے نام پر ایک دوسر کے پُتلے جلا رہے ہیں‘ واصف صاحب کایہ قریہ کافی فاصلے پر ہے ۔
یہ خیر و خوبی کا قریہ ہے۔ تہذیب و اِحساس کا قریہ ہے۔ خوش بخت ہیں وہ لوگ جو اِس قریے سے گزرتے ہیں اور گھڑی دو گھڑی اِس پڑاؤ میں بیٹھ کر اپنی بات کہتے‘ اور واصف صاحب کی بات سُن لیتے ہیں۔ آج کل بات سننے کا وقت ہی کس کے پاس ہے۔ اِسی لیے میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ لفظ خیر کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ کتاب ”کرن کرن سورج“ اِسی قریہٴ خیر و برکت کی توسیع ہے ۔
بولا ہوا لفظ سماعت کی امانت ہے، چَھپا ہوا لفظ بصارت کی۔ کیا معلوم کون سی کرن کس وقت ذات کے کسی چھپے ہوئے حصّے کو جگمگا جائے۔ یہ لفظ امانت ہیں، یہ کتاب صدقہٴ جاریہ ہے ……!
ذوالفقارتابش: 
آپ تھے جناب اعجاز بٹالوی صاحب۔ زحمت دیتا ہوں جناب حنیف رامے کو۔ تشریف لایئے،اپنے خیالات سے ہمیں نوازیئے۔
محمد حنیف رامے:
جناب واصف علی واصف صاحب!
معزز خواتین و حضرات !
نعت کا ایک مشہور مصرعہ ہے ، لکھنے والے تھے حضرت مہر علی شاہ  :
#کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
جب بھی کسی معمولی سی کِرن کو‘ جو شاید کرن بھی نہیں ہوتی ‘یہ کہا جائے کہ کسی سورج کو بیان کرے تو اُس کی وہی کیفیّت ہوتی ہے ‘جو حضرت مہر علی کی نعت کہتے ہوئے ہوئی تھی۔
یہ کتاب جو کرنوں کا مجموعہ‘ ایک سورج ہے‘ دراصل ایک اور سورج کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ستاروں کی پرانی عادت ہے کہ اُن کی جانب دیکھا جائے تو وہ کسی اور جانب دیکھنے پر مائل کر دیتے ہیں۔ اِن کرنوں کو جمع کیا جائے ‘تو یہ کتاب بنتی ہے اور جب کتاب بن جاتی ہے ‘تو تلاش ہوتی ہے کہ یہ سورج کس سورج سے پھوٹا ہے اور پھر ہمیں واصف علی واصف صاحب نظر آتے ہیں۔
اصل میں شاید یہ کرنیں جن کا تعلق روشنی سے ہے ‘صداقت سے ، سچّائی سے متعلق ہے‘ اور سچّائی دُنیا میں بہت موجود ہے۔ کتابوں کی صورت میں بھی ، علم کی صورت میں بھی ، الفاظ کی صورت میں بھی اور تو اور بہت بڑی سچّائی خدا وند نے خود اپنی کتاب کی صورت میں زیر اور زبر کے فرق کے بغیر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دی۔ پھر اِس سچائی کی موجودگی میں ‘اور بہت سی سچائیوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ یہ وہ بات ہے جو ہمیں کتاب سے مصنّف کی جانب لے جاتی ہے اور جب تک سچی بات کہنے والا ، جب تک سچائی منہ سے ادا کرنے والا ‘ نہ پہچانا جائے‘ سچائی کی بھی تصدیق نہیں ہو سکتی۔
ایسا ہوتا آیا ہے کہ The Scriptures devils have been quoting. 
وہ آسمانی صحائف جو خدا نے اُتارے ‘وہ شیطانوں کی زبانوں پر جاری ہوتے رہے‘ اِس لیے لکھا ہوا لفظ جتنا بھی سچا ہو ‘ اِس کے باوجود جب تک اُس سچے کی پہچان نہ ہو جائے جس کے منہ سے وہ ادا ہوا ہے‘ اُس وقت تک اُس کی سچائی کی تصدیق نہیں ہو سکتی‘ تو جب تک ہم واصف صاحب کو نہیں جانتے ‘ واصف صاحب کیا ہیں؟ کس قبیلے سے ہیں؟ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ہم سے کیا مانگتے ہیں؟ ہمیں کیوں اپنی باتیں سنا رہے ہیں‘جن کے پاس پہلے بہت سی باتیں ہیں‘ بہت سے کام ہیں‘ تو میں آپ کو ایک چھوٹی اور ایک بڑی کہانی سناتا ہوں۔
چھوٹی کہانی یہ ہے کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار سفرپہ نکلااور ایک ایسے موڑ پر پہنچ گیا جہاں آگے تین راستے تھے اور اُس کی بصیرت اور اُس کی بصارت دونوں نے اُسے بتایا کہ ایک راستے پر اگر وہ چلے گا تو اُس کا گھوڑا باقی نہیں رہے گا‘ وہ باقی رہ جائے گا۔ ایک راستے پر چلا تو گھوڑا تو باقی رہ جائے گا ‘ وہ خود مر جائے گااور تیسرا راستہ وہ ہے جس پر گھوڑا اور سوار دونوں ہی نہیں رہیں گے اور وہ سوچ میں پڑا ہوتا ہے کہ کروں تو کیا کروں۔
ایک دنیا کا راستہ ہے جس میں روح کی قیمت پر دنیا کا گھوڑا باقی بچ جاتا ہے ۔ ایک آخرت کا سفر ہے جس میں روح بچ جاتی ہے ‘ گھوڑا غائب ہو جاتا ہے اور ایک منافقت کا راستہ ہے ‘ جو ہم آپ کا اکثر پسندیدہ راستہ ہے جس میں نہ گھوڑا بچتا ہے اور ایسے میں ! اور ایسے میں ایک آواز آتی ہے کہ میرے بھائی ایک اور راستہ بھی ہے جس میں تم بھی بچتے ہو اور تمہارا گھوڑا بھی بچتا ہے۔
وہ آواز دینے والے واصف علی واصف اور اُن کے قبیلے کے لوگ ہیں! اور ایک اور کہانی جو میرے گزشتہ ، پرانے اُستاد نے لکھی ‘ جس کا نام تھا” پی ڈی آسپنکے“، اُس کی بڑی مشہور کتاب ہے ‘ Strange Life of Ossokin آسوکن ہمارے آپ جیساہی دنیا کا ایک مسافر ہے ۔ اُسی بی بی جیسا ‘جس کا نقشہ ابھی اعجاز بٹالوی صاحب کھینچ رہے تھے۔ اُسی لاہور کے بڑے اونچے تاجر جیسا ‘ جس کا نقشہ انہوں نے اُس کے بعد کھینچا اور دونوں ہی زندگی سے مایوس ‘ وہ زندگی جس کی خاطر اُنہوں نے سب کچھ کیا ‘ اب وہ اِس فکر میں ہیں‘وہ زندگی کو تیاگ سکیں۔
اِس کو چھوڑ سکیں اور وہ اپنے اوپر غور کرتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ جس زندگی کی خاطر یہ سب کچھ کیا ہے‘ وہ تو ملی ہی نہیں اور اِس سے موت بہتر ہے۔ ایسے ہی میں وہی Ossokin اپنے حال پر غور کرتا ہے اور جس شخص نے اُسے سفر پر روانہ کیا ہوتا ہے ‘جو ایک جادوگر ہے ‘ اُس کے پاس جاتا ہے‘ اُس سے کہتا ہے میں پہلے بھی تیرے پاس آیا تھا اور میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میری زندگی ویران ہو گئی اور جب میں واپس آ گیا تو مجھے پتا چلا کہ میں نے کہاں کہاں ٹھوکریں کھائیں ، میں نے کون کون سے غلط کام کیے ،میرے کیا امکانات تھے ، میرے لیے کیا کچھ ممکن تھا جس کو میں نے ضائع کر دیا ‘ تو مجھے دوبارہ اُس زندگی میں بھیج دے۔
وہ اُسے دوبارہ زندگی میں بھیج دیتا ہے اور پھر ایک چکر لگا کر وہ ایک مرتبہ پھر زندہ‘ اُسی کے پاس واپس آتا ہے اور کہتا ہے دیکھو مجھے ‘ جو کچھ میں نے پہلے کیا ‘پھر میں نے وہی کچھ کیا اور وہ جادو گر کہتا ہے ” اگر میں تمہیں ایک سو مرتبہ بھی بھیجوں گا اِس دُنیا میں ‘ تو تم یہی کچھ کر کے لوٹ آؤ گے۔ بتاؤ بھیج دوں ‘ اِسی میں تیرا بچاؤ ہے‘ اگر تو زندہ رہے تو شاید کبھی اِس چکر سے نکل آئے“ وہ کہتا ہے ”اِس زندگی کا فائدہ کیا ‘ اگر میں نے ہر بار وہی کچھ کرنا ہے تو پھر‘ تو پھر کیا کروں۔
میں زندگی کو نہیں چاہتا‘ بتا مجھے میں کیا کروں“ اور جادو گر کہتا ہے کہ آج تو نے پہلی مرتبہ صحیح سوال کیا ہے۔ اب میں تجھے بتاتا ہوں کہ جب تک تو وہی ہے جو ہے‘ تو جتنی مرتبہ بھی زندگی میں جائے گا ‘تیری زندگی اور تیری کائنات یہی رہے گی۔ جب تک تو نہیں بدلتا تیری زندگی نہیں بدلتی۔ تو دُوسرا سوال وہ یہ کرتا ہے کہ پھر میں کیسے بدل سکتا ہوں ۔
وہ کہتا ہے کہ ”تم یوں کرو کہ یہ زندگی مجھے دے دو “ وہ حیران ہوتا ہے ‘ کہتا ہے تم خود کشی کرنے گئے تھے ، تم اِس کو ختم کرنے کے لیے تیار تھے، تم دوبارہ اِس زندگی کو لینے کے لیے تیار نہیں تو پھر مجھے کیوں نہیں دے دیتے“ وہ پھر سوچ میں پڑتا ہے‘ کہتا ہے کہ اچھا اگر ساری عمر کے لیے نہیں دیتے تو کچھ سالوں کے لیے دے دو۔ وہ پوچھتا ہے کہ تم کیا کرو گے؟ جادو گر کہتا ہے ”میں تمہاری خواہش اور آرزوئیں بدل دوں گا،میں تمہیں وہ دُعا دوں گا کہ تیری آرزو بدل جائے، جب تک تو وہی کچھ چاہے گا اِس زندگی سے جو تو نے پہلے چاہا‘ یہی تیری زندگی ہے‘ یہی تیرا مقدّر ہے“ ۔
یہ جادوگر لوگ‘ یہ بھی واصف صاحب کے قبیلے کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن قیمت بہت بڑی مانگتے ہیں۔ وہ زندگی جوہم ہر مرتبہ برباد کر دیتے ہیں‘ یہ وہ زندگی مانگتے ہیں اور ہم ‘جو زندگی کو کئی مرتبہ برباد کر چکے ہوتے ہیں ‘ جب یہ مانگتے ہیں تو اِسے دینے سے ہچکچاتے ہیں‘ لیکن یہ بھی یہ جانتے ہیں کہ جب تک کوئی شخص یہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا ‘ اُسے کچھ مل بھی نہیں سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے سورج ہر دَور میں ‘ ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں اور بہت سے Candles ‘وہ دِیے جنہیں اِس اُمید میں زندگی گزارتے برس ہا برس گزر چکے ہوتے ہیں کہ کوئی آئے اور انہیں جلا دے۔ جب اُنہیں دعوت دی جاتی ہے کہ آؤ ‘ اور قریب آؤ ‘ اور قریب آؤ تو اِس خوف سے اور قریب نہیں آتے کہ کہیں وہی دُکھ بھری ،درد بھری، کانٹوں بھری ، اُداسیوں بھری، پریشانیوں بھری زِندگی یہ لوگ چھین نہ لیں ‘ اور حقیقت یہی ہے کہ اگر وہ زِندگی ہم اِن کے سپرد کر سکیں تو اِنہوں نے اُسے کیا کرنا ہے ‘ اِنہوں نے اِسے دھونا ہے ، اِسے اُجالنا ہے ، اِسے روشن کرنا ہے، اِسے اندر سے بدلنا ہے۔
یاد رکھیے! ہم جن بیجوں سے خوشیوں کی فصل اُگانا چاہتے ہیں ‘ انور سجاد بیٹھے ہیں ‘ ہم جن بیجوں سے خوشیوں کے باغ بسانا چاہتے ہیں ‘ جب تک ہم اپنے وجود کے بیج کو نہیں بدلیں گے ‘ وہ خوشیوں کا باغ نہیں اُگے گا۔ خوشیوں کا باغ اُگاناہے تو اِن لوگوں کے سپرد اپنے آپ کو کرنا ہو گا‘ جو بیج کے اندر چھپے ہوئے گُھن کو ہٹا کر بیج کو پاک کر دیں گے تاکہ اُس سے جوپودا اُگے وہ صحت مند پودا ہو، اُس کے پھول آئیں اور اُس پر پھل آئیں۔
عزیزانِ گرامی ! یہ عجیب بات ہے اور اِس میں ایک Paradox ہے۔ زندگی دو اور زندگی لو ‘ اور اِسی Paradox کا نام واصف علی واصف ہے ‘جو ایک بات کہتے ہیں تو ایک مقام پر یوں لگتا ہے کہ ہمارے خلاف ہے اور جب ہم اُس پر غور کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے یہی ہمارا علاج ہے ‘ اُسی طرح جیسے ہم اپنے درد ڈاکٹروں کے پاس لے کر جاتے ہیں اور بعض اوقات وہ نشتروں سے اُس میں چیرے دے دیتے ہیں لیکن پھر اُسی میں علاج ہوتا ہے۔
یہ لوگ دراصل لینے کے لیے نہیں ‘ دینے کے لیے آئے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں‘ جو اِس لیے اِس دُنیا میں بھیجے جاتے ہیں کہ دیکھو‘ تمہیں ہم نے دیا ہے‘ اب تم جاؤ اور اِس کی زکوٰة دو اور جنہیں ہم نے ابھی تک نہیں دیا ‘ اُن تک بھی یہ روشنی پہنچاؤ۔ ”کرن کرن سورج“ پہ کچھ کہنا یہاں بیٹھے ہوئے ادیبوں اور شاعروں ہی کا حق ہے‘ مَیں تو اِتنی بات جانتا ہوں ‘ جس میدان میں‘ مَیں کام کرتا ہوں‘مَیں نے وہاں دیکھا ہے کہ جو خوشیوں کے باغ لوگوں کے سامنے رکھے جاتے ہیں‘وہ اکثر سبز باغ ثابت ہوتے ہیں اور اِس کی وجہ بھی یہ ہوتی ہے کہ جو لوگ وہ باغ دیکھ رہے ہوتے ہیں ‘اُن کے ظاہر پر تو بڑی سبزی ہوتی ہے لیکن اُن کا دِل سبز ہونے کی بجائے اکثر کالا ہوتا ہے۔
اِن لوگوں کی بچت کا بھی راستہ یہی ہے کہ اِن کرنوں پر قدم قدم چلتے چلتے اُن سورجوں تک پہنچ جائیں اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے درمیان آج ہماری دُنیا کا سب سے تابناک سورج تشریف رکھتا ہے۔ خدا حافظ۔

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif