Episode 16 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 16 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

گلاب کا نام خوشبو کے پروں پر سفر کرتا ہے۔گلاب‘ذات ہے اور خوشبو‘صفت۔ذات اپنی صفات کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔
#####
بدنصیب آدمی اپنے حال پر مُستقبل قربان کر دیتا ہے۔بے وقوف اِنسان مُستقبل کے لیے حال قربان کرتا ہے۔بامُراد اِنسان مستقبل اور معاد کو محفوظ رکھتے ہوئے حال سے لُطف اندوز ہوتا ہے۔اِس دُنیا میں بہتر زِندگی اور آخرت میں بہتر انجام …بڑے نصیب کی بات ہے۔
#####
بینائی کمزور ہو جائے تو چہروں کے چراغ مدھم پڑ جاتے ہیں۔
#####
وہ اِنسان رُوح کے ویرانے سے نکل نہیں سکتا‘ جس نے 
ماں باپ کااَدب نہ کیا اور جس کو اَولادسے پیار نہ ہو۔
#####
ایسی دعوت میں جانے کا کیا فائدہ ‘جس میں نہ جانے سے دعوت کی مجموعی کیفیت پر کوئی نمایاں اثر نہ ہو۔

(جاری ہے)

#####
زِندگی کے بہتر دَور کے بارے میں لوگوں سے پوچھیں تو جواب ملے گا کہ اچھا زمانہ یا گزر چکا ہے یا ابھی آیا ہی نہیں‘ حالانکہ اچھا دَور وہ ہے جو آج گزر رہا ہے۔
#####
دوست اور دُشمن‘ اِنسان کی اپنی پسند اور ناپسند کے مظاہر ہیں۔ محبت، نفرت‘ اِنسان کے اپنے مزاج کے حِصّے ہیں۔جو اِنسان سراپا محبت ہو ‘اُسے دُنیا میں کوئی اِنسان قابلِ نفرت نظر نہیں آتا۔محبت بھری آنکھ کو محبوب چہرے کا ملنا فطری ہے۔اپنی نظر ہی نظارے کو حُسن بخشتی ہے۔اپنا دِل ہی سِرِّ دِلبراں ہے،اپنا ذائقہ خوراک کو لذیذ بناتا ہے۔
اپنی حقیقت دریافت کریں‘ کائنات کی حقیقتیںآ شکار ہو جائیں گی۔ خود گریزی‘خدا گریزی بن جاتی ہے۔خود آگہی‘خدا آگہی ہے۔اپنی سماعت کی اِصلاح کریں‘آوازِ دوست بدستور موجود ہے۔نظر عطا کرنے والا ‘نظاروں میں جلوہ گر ہے۔ہم جس کے لیے ہیں‘وہی ہمارے لیے ہے۔دُنیا یا آخرت‘مادّہ یا رُوح‘ ظلمات یا نور…فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے!آسمان سے نور آتا ہے ،روٹی زمین سے پیدا ہوتی ہے۔
زمین و آسمان کا رشتہ ہمارے دَم سے ہے۔اِنکار و اِقرار ہمارے اپنے نام ہیں۔بلندی و پستی ہمارے اپنے مقامات ہیں۔ہم خود ہی گم ہو گئے ہیں، اپنی تلاش کریں۔
#####
عاقبت اُس وقت کو کہتے ہیں ‘جب محسن اپنی نوازشات کا حساب مانگے۔
#####
طاقت‘ خوف پیدا کرتی ہے ،
خوف‘ نفرت پیدا کرتا ہے ،
 نفرت‘ بغاوت پیدا کرتی ہے 
…اور بغاوت ‘طاقت کو توڑ دیتی ہے!!
#####
جب تک زندگی موجود ہے‘ نیکی اور بدی کا وجود قائم رہے گا۔
بدی کو مٹا دینا‘ ناممکن بھی ہے اور نامناسب بھی۔بدی نے نیکی کے دَم سے اِصلاح لینی ہے۔ بدی کے دریا میں ڈوبنے والوں کو نیکی کے ساحل پر لانا ہی نیکی کا اِنتہائی عمل ہے اور یہ عمل بغیر ہمدردی اور محبت کے ناممکن ہے۔نیکی کا مزاج مشفق والدین کی طرح ہے اور بدی کا باغی و سرکش اولادکی طرح!!
#####
خاوند کو غلام بنانے والی بیوی‘ آخر غلام ہی کی تو بیوی کہلاتی ہے!
دانا بیوی ‘خاوند کو دیوتا بناتی ہے اور خود دیوی کہلاتی ہے۔
#####
بیدار کر دینے والا غم‘غافل کر دینے والی خوشی سے بدرجہا بہتر ہے۔
#####
اپنے دِین کی سچائی کو لاٹھی نہ بناؤ۔اپنے دِین کی سچّائی کو میزبان بنا کر‘ دُوسرے اَدیان کی سچائی کو مہمان بناؤ۔دُوسروں کا ذوقِ یقین بھی اُن کے اندروہی یا اُس جیسی کیفیّت پیداکر رہا ہے ‘جیسے آپ کے ساتھ آپ کا ذوقِ یقین۔بڑا دِین یا بہت سچا دِین‘بڑے دریا کی طرح ہوتا ہے جو سب ندی نالوں کو اپنے ساتھ مِلا کر سمندر سے واصل کرتا ہے۔
دریا ملاپ کرتے ہیں‘لڑائیاں نہیں کرتے۔
#####
جس ذات کو ہم حُسن سے منسوب کرتے ہیں‘وہی محبوب ہے۔محب اور محبوب کے تعلق کو محبت کہتے ہیں۔اگر خواہشِ تقربِ حُسن کو محبت کہا جائے تو اِنتہائے محبت یہ ہے کہ رضائے محبوب اپنی رضا بن جائے بلکہ محب اپنی صفات سے مٹ کر محبوب کی صفات میں زِندہ ہونے کو معراجِ محبت سمجھتاہے۔محب بے قرار رہتا ہے‘ قربِ محبوب کے لیے۔
اُس کے مامورات اور منہیات کا خیال کرتاہے۔اُس کے غیر کو اپنا غیر جانتا ہے۔اُس کی ہستی میں فنا ہونے کے جذبے کو بقا جانتا ہے۔
 حقیقی محبت‘ بوسیلہٴ صفات قائم رہتی ہے۔حقیقت مجاز سے مختلف ہے۔مجاز میں رقیب غیر ہے۔حقیقت کے سفر میں رقیب قریب ہے اور ہمسفر ہے۔
#####
ہمارا مقدر اگر مقرر ہو چکا ہے تو گناہ کیا ہے؟گناہ مقدر ہوتا ‘تو گناہ کی سزا کبھی نہ ہوتی۔
ایک چور نے باغ سے پھَل چُرایا،پکڑا گیا۔بولا:”اللہ کے حکم سے‘ اللہ کے بندے نے‘ اللہ کے باغ سے پھل توڑا ہے۔“مالک بولا:”اللہ کے دُوسرے حکم سے‘ اللہ کا دُوسرا بندہ‘پہلے بندے کے سر پر لاٹھی مارنے کا حق رکھتا ہے۔ چوری حُکم ہے تو لاٹھی اور سَر کی ملاقات بھی حکم ہی ہے۔“
#####
زمان و مکاں سے بے نیاز ہو کر خالقِ کون و مکاں کی تسبیح کرنیوالے ہی حقیقی معنوں میں خلافت ِ اِلٰہیہ کے حقدار کہلا سکتے ہیں۔
#####
تاریخی عمارتوں اور شاہی محلّات سے نگینے چُرانے والے نہ ویسی عمارتیں بنا سکے،نہ ویسے محلات۔ستارے آسمانوں پر ہی خوبصورت لگتے ہیں۔مضامین فقروں سے نہیں بنتے‘فقرے مضامین سے پیدا ہوتے ہیں۔
#####
ایسے علم کا کیا فائدہ‘جو صاحب ِ علم کو سکون نہ دے سکے اور نہ اُس کی ضروریات مہیا کر سکے۔ایسے علم سے نجات کی دُعا کرنی چاہیے۔
#####
بادشاہ‘ فقیر کا قرب چاہے تواُس کی خوش نصیبی ہے۔فقیر‘ بادشاہ کا تقرب مانگے تو اُس کی بدنصیبی۔
#####
جس نے موت کا راز جان لیا ‘وہ زِندگی کے اِنقلابات سے متاثر نہیں ہوتا اور جس نے زندگی کا راز جان لیا‘اُس کو موت کی کارفرمائیاں مایوس نہیں کر سکتیں۔ جس نے اپنی حقیقت کو پہچان لیا‘اُسے حقیقت کی سمجھ آ گئی۔
#####
فقیر‘اللہ کی ذات کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔
وہ جانتا ہے کہ سورج کا ثبوت صرف دیکھنے والے کی آنکھ ہی مہیا کر سکتی ہے۔
#####
ہماری زندگی کنوئیں کے مینڈک کی طرح محدود دائرے میں گردش کرتی ہے۔ ہم اِنسانوں کی محدود تعداد سے آشنا ہیں۔ہماری زِندگی محدود حرکات سے گزرتی ہے۔ہم محدود علم رکھتے ہیں۔ہم لائبریری میں عمر بسر کر سکتے ہیں لیکن لائبریری کو پڑھ نہیں سکتے۔ہم اپنے گھر کے افراد سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں ہوتے۔
محلے کے مکانوں سے،شہر کے محلوں سے،مُلک کے شہروں سے،دُنیا کے ممالک سے اور کائنات کی دُنیاؤں سے کیسے آگاہ ہوں گے… اورپھر خالقِ کائنات ہمارے علم کی رینج میں آنے والی بات نہیں۔بس وہ کیا ہے‘صرف وہی جانتا ہے۔ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقیِن۔
#####
تقدیر‘تدبیر شکن ہوتی ہے ۔مقدر وہ ‘جو ہو کرر ہے۔
خوش قسمتی ‘وہ حاصل ہے جو حق سے زیادہ ہو۔
 
 عبرت ‘بداعمالی کا نتیجہ ہے …اور توبہ‘ اعمال کی عبرت سے نجات دلاتی ہے۔
#####
لوگ تو ہماری خوشی میں شریک نہیں ہوتے‘غم میں کون شریک ہوگا۔
#####
مومن کی خوشی کا چراغ بُجھ جائے توکافر کے گھر میں گھی کے چراغ جلتے ہیں۔
#####
اِسلام مُسلمانوں کے علم کا نام نہیں‘اُن کے عمل کا نام ہے۔
یعنی اِسلام بولنے والی بات نہیں‘کرنے والا کام ہے۔
#####
نظر آنے والی ہر شے محسوس نہیں ہو سکتی۔ہر محسوس ہونے والی شے نظر نہیںآ سکتی۔
#####
ایک بیج میں کتنا بڑا درخت ہوتاہے۔درخت میں کتنے ہی بیج ہوتے ہیں۔ گویا ایک بیج میں اَن گنت بیج ہیں اور اِسی طرح ایک درخت میں لاتعداد درخت ہیں۔ غور کرنے والی بات ہے۔قطرے میں قُلزم اور قُلزم میں قطرے۔
#####
جس اِنسان کے دل میں روشنی نہ ہو ‘وہ چراغوں کے میلے سے کیا حاصل کرے گا؟
#####
اپنی اَولاد کو ہم بہت کچھ سمجھانا چاہتے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتی۔
ہماری اَولاد بھی ہمیں بہت کچھ سمجھانا چاہتی ہے لیکن ہم نہیں سمجھتے۔
#####
جس کو زندگی میں کوئی سچا گُرو نہ ملا ہو اُس جھوٹے چیلے کو بدنصیب نہ کہا جائے‘ تو کیا کہا جائے؟
#####
گزرا ہوا زمانہ اِنسان کے چہرے پر بہت کچھ لکھ جاتا ہے۔مسافر کے چہرے پر گردِ سفر اُس کے سفر کا حال بتا دیتی ہے۔

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif