Episode 8 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 8 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

اپنے سکونِ قلب کا کچھ اہتمام کر
اِس خانہٴ خدا سے کدورت نکال دے 
#####
خوش نصیب اِنسان وہ ہے ‘جو اپنے نصیب پر خوش رہے۔
#####
اِنسان پریشان اُس وقت ہوتا ہے ‘جب اُس کے دل میں کسی بڑے مقصد کے حصول کی خواہش ہو لیکن اُس کے مطابق صلاحیت نہ ہو۔سکون کے لیے یہ ضروری ہے کہ یا تو خواہش کم کی جائے یا صلاحیت بڑھائی جائے۔ہر خواہش کے حصول کے لیے ایک عمل ہے۔
عمل نہ ہو تو خواہش ایک خواب ہے۔ہم جیسی عاقبت چاہتے ہیں‘ویسا عمل کرناچاہیے۔کامیابی‘ محنت والوں کے لیے،جنت‘ ایمان والوں کے لیے اور عید ‘روزہ داروں کے لیے۔
#####
ظاہر کی روشنی کی تلاش‘ آنکھ کی بینائی سے ہے اور باطن کے نور کی تلاش‘ قلب ِ منور سے اور صادق کی پہچان‘ اپنی صداقت سے۔

(جاری ہے)

#####
آپ کی اپنی تسلیم ہی کا نام اللہ ہے۔
باہر کی دُنیا میں اللہ کے لاکھ مظاہر ہوں‘آپ سے آپ کے اللہ کا تعلق اُتناہے جتنا کہ وہ آپ کی تسلیم و رضا میں ہے۔
#####
سب سے زیادہ بدقسمت اِنسان وہ ہے‘ جو حد درجہ غریب ہو اور خدا پر یقین نہ رکھتا ہو۔
#####
کچھ لوگ اپنے آپ کو اپنے پیشے سے بڑا سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ پیشے کو خود سے بڑا سمجھتے ہیں۔دونوں حالتوں میں نتیجہ پریشانی ہے۔
اپنے آپ کو اپنے سے بڑا سمجھنا یا اپنے سے کم تر جاننا اِنسان کو مضطرب رکھتا ہے۔مثلاًکوئی شخص یہ کہے کہ میں یہاں ڈائریکٹری میں عُمر ضائع کر رہا ہوں‘اگر میں وزیر ہوتا تو بہتر کام کر سکتا تھا۔ دوسرا اِنسان یہ کہتا ہے کہ وزیر ہونا میرے لیے مصیبت کا باعث ہے‘اِس سے بہتر تھا کہ میں وکیل ہی رہتا۔اِسی طرح لوگ حال سے بیزار رہتے ہیں۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں ‘جو اپنے حال اور اپنی حالت پر مطمٴن ہوں۔
#####
راہِ حق کے مسافر پر دورانِ سفر تنگی بھی آتی ہے اور کشادگی بھی۔تنگی میں مردِحق صبر کا سہارا لیتا ہے اور کشادگی میں شُکر کا۔یہ سفر دریا کی طرح ہے جو پہاڑوں میں سے سِمٹ کے گزرتا ہے اور میدانوں میں پھیل کر کناروں کو سیراب کرتا ہواآخرِ کار اپنی منزلِ مقصود یعنی بحرِ بے پایاں سے مل جاتا ہے۔دریا بے دم ہو کر راستے میں ٹوٹتا نہیں،نہ واپس لوٹتا ہے۔
اِسی طرح مردِحق آگاہ ‘ہر مقام سے نکلتا ہُوا اپنی منزلِ حقیقت سے واصل ہو جاتا ہے۔مردانِ حق ‘راہ کی دُشواری سے مایوس نہیں ہوتے۔فقیر ہر تکلیف کو برداشت کرتا ہے‘اِس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ جس نے عزمِ سفر عطا کیا ہے‘اُسی نے تکلیف بھی بھیجی ہے اور وہی منزل تک پہنچانے والاہے۔
#####
ہر فرد کے دِل میں قوم کی خدمت کا جذبہ ہونا چاہیے ،جذبہ نیت سے ہے، نِیت ایک علم ہے‘اور علم کے لیے ایک عمل ہے۔
عمل کے لیے میدانِ عمل ہے‘اور میدانِ عمل میں شریک ِعمل نیک نِیّت لوگ ہوں تو انجامِ عمل صحیح ہو گا۔ہم سفر‘ ہم خیال نہ ہوں تو کامیابی نہ ہو گی۔
#####
اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں اور اِس کا بغور مطالعہ کریں۔غور کریں کہ آپ کے بیوی بچے،ماں باپ،بہن بھائی،عزیز و اقارب ،دوست یار‘آپ کے بارے میں کیا خیال کرتے ہیں۔لوگ آپ کے سامنے آپ کو کیا کہتے ہیں۔
آپ کی عدم موجودگی میں آپ کا تذکرہ کس انداز میں کرتے ہیں۔کبھی کبھی خاموشی سے اپنے گھر کے دروازے کے سامنے سے اجنبی ہو کر گزر جائیں اور سوچیں کہ اِس گھر میںآ پ کب تک ہیں۔وہ وقت دُور نہیں‘جب یہ گھر تو ہو گا مگر آپ نہیں ہوں گے۔اُس وقت اِس گھر میں کیا ہو گا؟آپ کا تذکرہ ہو گا…کس انداز سے؟
#####
اگر اللہ کے محبوب ﷺ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا‘اور اگر کچھ بھی نہ ہوتا تو صرف اللہ ہوتا‘اور صرف اللہ ہوتا تو کیا ہوتا۔
حاصِل یہ کہ ہمیں اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ کے مقامات پر بحث نہ کرنی چاہیے۔اللہ کا مقام‘ اللہ کا حبیب ﷺ جانے اور حبیب ﷺ کا مقام‘ اللہ جانے۔
#####
جس طرح وِصال اور فراق دونوں محبوب کی عطا ہیں‘اُسی طرح دن اور رات دونوں ہی سورج کے رُوپ ہیں۔
#####
نماز پڑھنے کا حکم نہیں‘نماز قائم کرنے کا حکم ہے۔نماز اُس وقت قائم ہوتی ہے جب اِنفرادی اور اِجتماعی زندگی‘ تابعِ فرمانِ الٰہی ہو۔
ضروری ہے کہ مِلّتِ اِسلامیہ ایک انداز اور ایک رُخ میں اللہ کے حکم کے مطابق سفر کرے۔مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جِس طرح حالت ِنماز میں اپنے آپ کو خدا کے سامنے سمجھتا ہے‘اُسی طرح نماز کے بعد بھی خدا کے رُوبرو رہے اور اُس کا کوئی عمل ایسا نہ ہو‘ جو مِلّی مفاد کے خلاف ہو۔اُولی الا َمر کا فرض ہے کہ نماز قائم کرائے۔
#####
تسلیم کے بعد تحقیق گمراہ کر دیتی ہے۔
#####
بدی کی تلاش ہو‘ تو اپنے اندر جھانکو۔
نیکی کی تمنا ہو‘ تو دُوسروں میں ڈھونڈو۔
#####
غریب وہ ہے ‘جس کا حاصل اُس کی آرزو سے کم ہو۔جِس کی آرزو حاصل سے کم ہو‘ وہ امیر ہے۔یا یوں کہ غریب وہ ہے کہ جِس کا خرچ ‘اُس کی آمدن سے زیادہ ہو۔امیر وہ ہے جِس کی آمدن‘ خرچ سے زیادہ۔غریب اگر اپنی آرزو اور خرچ کم کر دے تو آسودہ ہو جائے گا۔
اگر اپنے سے امیر لوگو ں سے مقابلہ کرے گا تو کبھی آسودہ نہ ہوگا۔پستیوں کی طرف دیکھو‘آپ بلند نظر آؤ گے۔بلندی کی طرف دیکھو تو پست۔پس امیری غریبی،بلندی پستی‘ اِحساس ہے۔اپنے اِحساس کی اِصلاح کریں۔
#####
خیال بدل سکتا ہے لیکن اَمر نہیں ٹل سکتا۔
#####
محب اور محبوب کی الگ الگ تعریف مشکل ہے۔محبت کے رِشتے سے دونوں‘ دونوں ہیں۔
کسی کی کسی پر فوقیت کا بیان نہیں ہو سکتا۔مقامِ محبوب‘مقامِ محب سے کم تر یا برتر نہیں کہا جا سکتا۔ایک کی ہستی‘ دُوسرے کے دَم سے ہے۔دُنیاوی رِشتوں میں محب اور محبوب کا تقابل ناممکن ہے۔حقیقت کی دُنیا میں تو اور بھی نا ممکن۔ اللہ کو اپنے محبوب ﷺ سے کتنی محبت ہے کہ اُسے باعثِ تخلیقِ کائنات فرما دیا۔اللہ اپنے فرشتوں کے ہمراہ اپنے محبوب ﷺ پر دُرود بھیجتا ہے ،اُس کے ذِکر کو بلند کرتا ہے، اُ س کی شان بیان فرماتا ہے اور محبوب ﷺ اپنے اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اُس کی تسبیح بیان فرماتے ہیں،اُس کے لیے زِندگی اور زِندگی کے مشاغل وَقف فرماتے ہیں۔
#####
جب تک لوبھ موجود ہے‘خوف ضرور موجود رہے گا۔جو لوبھ سے آزاد ہو گیا‘خوف سے مبرّا ہو گیا۔زندگی سے محبت ‘موت کا خوف پیدا کرتی ہے۔مقصد کی محبت‘ موت کے خوف سے آزاد کر دیتی ہے۔
#####
گناہ ‘دِینی حُکم کے خلاف عمل کا نام ہے۔جُرم ‘حکومت کے حُکم کے خلاف عمل کا نام ہے۔گناہ کی سزا اللہ دیتا ہے اور جُرم کی سزا حکومت۔
گناہ سے توبہ کر لی جائے تو اُس کی سزا نہیں ہوتی،لیکن جُرم کی معافی نہیں ہوتی۔گناہ کی سزا آخرت میں ‘ اور جُرم کی سزا اِسی دُنیا میں ہے۔گناہوں کی سزا وہ حکومت دے سکتی ہے‘ جو حکومت ِ اِلٰہیہ ہو۔اگر توبہ کے بعد پھر گناہ سرَزد ہوجائے تو پھر توبہ کر لینی چاہیے۔ مطلب یہ کہ اگر موت آئے تو حالت ِ گناہ میں نہ آئے بلکہ حالتِ توبہ میں آئے۔
 توبہ منظور ہو جائے تو وہ گناہ کبھی سَرزد نہیں ہوتا اور نہ اُس گناہ کی یاد باقی رہتی ہے۔
 
 سچّی توبہ کرنے ولا ایسا ہے جیسے نوزائیدہ بچّہ ،معصوم۔
#####
جِس سفر کا انجام کامیابی ہے‘ اُس سارے سفر کو ہی کامیابی کہنا چاہیے۔
#####
ہماری خوشیاں ہی رُخصت ہو کر ہمیں غم دے جاتی ہیں۔جتنی بڑی خوشی‘ اُتنا بڑا غم۔ غم‘ خوشی کے چھِن جانے کا نام ہے۔
#####
کامیابی اور ناکامی اِتنی اہم نہیں جتنا کہ اِنتخابِ مقصد۔
نیک مقصد کے سفر میں ناکام ہونے والا بُرے مقصد میں کامیاب ہونے والے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایساممکن ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن اُس کی زندگی ناکام ہو۔
#####
اِنسانی حدبندیاں اور پیش بندیاں ‘ فطرت کے کام میں رکاوٹ نہیں پیدا کر سکتیں۔
#####
جھوٹا آدمی ‘کلامِ اِلٰہی بھی بیان کرے تو اثر نہ ہوگا۔صداقت بیان کرنے کے لیے صادق کی زبان چاہیے…بلکہ صادق کی بات ہی صداقت ہے۔جتنا بڑا صادق‘اُتنی بڑی صداقت۔

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif