Episode 17 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 17 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

تقریب رونمائی 
”کرن کرن سورج“
۳۰ جولائی ۱۹۸۶ء کی سہ پہر پرل کانٹی نینٹل لاہور میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا ‘جس میں واصف صاحب کے عقیدت مندوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ اِس تقریب کی کمپیئرنگ جناب ذوالفقار احمد تابش نے کی۔ تقریب کی کارروائی پیشِ خدمت ہے۔
ذوالفقار احمد تابش: 
اِس شہرِلاہور میں کتابوں کی بے شمار تقریبات ہوتی رہی ہیں ، ہوتی رہیں گی لیکن آج ایک کتاب کی رونمائی ہو رہی ہے ‘جس کی رُونمائی میں شرکت ‘ مَیں اپنے لیے سعادت گردانتا ہوں۔
مَیں نے سینکڑوں کتابوں کی اِفتتاحی تقریب منعقد کی ہے لیکن اِس کتاب سے میری عزت میں اضافہ ہوا ہے۔ کتاب اِسم بامسمیٰ ہے اور مصنّف کے بارے میں کیا کہوں ‘ جس کی شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے اشفاق احمد جیسے ادیب اور براڈکاسٹر اور حنیف رامے جیسے مقرر کی زبانیں گُم ہو جاتی ہوں ‘ اُن کا تعارف میں کیا کرا سکتا ہوں! بہر حال کتاب کا نام”کرن کرن سورج “ ہے اور مصنف ہیں ‘ واصف علی واصف ! اِس کتاب کی تقریب ِ رُونمائی کی صدارت‘ جیسا کہ آپ نے کارڈ پر دیکھا ہو گا‘ جناب قدرت اللہ شہاب کو کرنا تھی‘ وہ آج ہم میں نہیں ہیں لیکن ایک اور بہت محترم شخصیت ہمارے درمیان موجود ہے‘ جناب شیخ منظور الہٰی صاحب ! میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ کرسیٴ صدارت پر تشریف لائیں … اور اب صاحبِ کتاب جناب واصف علی واصف سے بھی درخواست ہے کہ آپ بھی تشریف لائیے۔

(جاری ہے)

تقریب کا آغاز اللہ کے پاک نام سے ہوتا ہے۔ قاری سیّد صداقت علی صاحب قرآن پاک کی تلاوت فرمائیں گے۔ تشریف لائیے !… (تلاوت سورہ رحمٰن) 
محترمہ بانو قدسیہ صاحبہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ تشریف لائیں اور اپنے مضمون سے نوازیں ۔
بانو قدسیہ :
صاحبِ صدر! جناب واصف صاحب!
خواتین و حضرات! جب واصف صاحب نے مجھے کہا کہ میں ”کرن کرن سورج“ پر مضمون پڑھوں تو مَیں حیران رہ گئی۔
شاعری‘ القائے ربانی ،خلیل جبران جیسی نثر،فلسفیانہ ملفوظات اور رَب کی باتوں کو مَیں محسوس تو ضرور کرتی ہوں لیکن سمجھتی نہیں ہوں۔ کچھ خواتین کمرے میں گُھستے ہی بتا دیتی ہیں کہ فضا میں کون سی خوشبو رچی بسی ہے لیکن کچھ لوگ سونگھتے رہ جاتے ہیں لیکن بتا نہیں سکتے کہ کون سی خوشبو کس شخص سے آ رہی ہے ‘وہ کمرے کی فضا سے آ رہی ہے کہ کھلی کھڑکی کے باہر پھولوں کی فرستادہ ہے۔
”کرن کرن سورج “بھی خوشبو کا ایک تحفہ ہے لیکن میں جانتی نہیں کہ پوری کتاب میں مہک ہے یا کسی خاص سطر سے آتی ہے۔خوشبو ‘خیالات سے نکل رہی ہے یا صاحب ِکتاب سے‘ کہیں سے حاصل ہو سکتی ہے یا ‘یہ عام مارکیٹ کے لئے نہیں ہے۔یہ جسم کو لگانے کے کام آئے گی ‘یا رُوح کو خوشبودار کرنے کے کام آئے گی۔اِس کا بہتر تجزیہ نکھار کے ساتھ‘ آنے والے چند لوگ کریں گے۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب کسی قابلِ ذِکر اِنسان کی سواری کسی جلسہ میں آتی ہے ‘تو پہلے پنڈال کی تیاری کے لئے مختلف اِنتظامات ہوتے ہیں۔فرش،گملے لگانے والے مالی ،پھاٹک کو کیلے کے پتوں سے سجانے والے ،تخت پر سرخ قالین بچھانے والے ،روسٹرم اور مائیکروفون کے انتظام والے وغیرہ وغیرہ۔
اصل سواری سے پہلے ایک قیامت بپا ہوتی ہے۔میں بھی اُسی قیامت کا ایک حصہ ہوں۔
میرے بعد جو مقررین آئیں گے ‘آپ اُن کی باتوں کو سنیں گے تو آپ کو” کرن کرن سورج“ اور اِس کے مصنف کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوں گی جن کی اہلیت مجھ میں نہیں ہے‘مَیں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ بزرگانِ دین کی ذات مجھ میں تحیّر کا عالم بپا کرتی ہے۔اِنسان کی زدَ میں کون سی گردوں ہے اور اِس کے اِمکانات کی ممکنات کن سرحدوں سے ملتی ہیں ‘اِس کی جھلکی سی دیکھ کر میرے لیے کچھ بھی کہنا آسان نہیں ہوتا۔
کچھ بھولے بھالے جب واصف علی صاحب سے ملتے ہیں ُتو اُن کے دِل میں کرید ہوتی ہے ‘وہ سوال کریں گے ”اے جوگی! بتا تو کس پہاڑ سے اُترا ہے ‘ کیا وہاں برف تھی؟بتا کہ کیا اُونچے درخت ‘سدا بہار دُھند میں ڈھکے رہتے تھے۔بتاجوگی! کیا تو جانوروں کی بولی بولتا ہے۔کیا تو آبشاروں سے ،خودرَو بیلوں سے گفتگو کر سکتا ہے؟بتا! کیا شیر اور ہرنیاں مل کر تجھ پر پہرہ دیا کرتے تھے ،کیا تو پہاڑوں میں اِس لیے رہا کہ مردَم گزیدہ تھا؟کیا پہاڑوں نے تجھے اِس لیے کھینچا کہ وہاں نور کی سمتیں تھیں کہ کرنوں جیسی اَن گنت آوازیں تھیں اور گھٹتی بڑھتی تجلیاں تھیں۔
بتا جوگی!تیرا ماضی کیا ہے؟ “ معصوم روحیں اپنے اِیمان کو مضبوطی دینے کے لئے تجسس رکھتی ہیں ‘جیسے بچہ اِس کھوج میں رہتا ہے کہ ماں نے ٹافیاں کہاں چھپائی ہیں‘ وہ ماں کے کسی راز سے آگاہ نہیں ہونا چاہتا‘ کچھ لوگ واصف صاحب کے متعلق اِس لئے متجسس رہتے ہیں کہ وہ اَزلی اِنکار کا شکار ہیں۔مثبت سے منفی اور منفی سے مثبت کادائرہ مکمل کرتے رہتے ہیں۔
وہ اِن کی شخصیت سے متاثر ہونے کے بعد اُن وجوہات کی تلاش میں رہتے ہیں ‘جن سے وہ اپنے اِنکار کی عادت کو تقویت دے سکیں۔وہ جاننا چاہتے ہیں کہ واصف صاحب کون ہیں؟کس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں؟”کرن کرن سورج “ سے پہلے وہ کہاں تھے؟اُن کی کتنی بیویاں ہیں؟اگر یہ گزشتہ عہد میں کسی محبوبہ کے ڈسے ہوئے ہیں ‘ تو اُس ناگنی کا نام کیا ہے؟کیا یہ صاحب ِجائیداد ہیں اور اگر ہیں تو اِن کی زمینیں کہاں ہیں اور کتنی ہیں؟ لوگ ہر لمحہ اِس کوشش میں رہتے ہیں کہ ”دیکھا! ہم نہ کہتے تھے‘ ہمیں پہلے ہی معلوم تھا“ جو شخص جیسی تلاش میں رہتا ہے ‘اُسے ویسے ہی جواب ملتے ہیں۔
سبب اور کوائف ویسے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ایک شام کا ذکر ہے‘ ہمارے گھر کے باہر ایک وین کھڑی تھی۔ اُس میں چند ہپی چھوٹے سے تیل کے چولہے پر چائے پکانے کا عمل کر رہے تھے۔ اشفاق صاحب گھر لوٹے اور اُنہیں اندر لے آئے۔دورانِ گفتگو پتہ چلا کہ وہ سب مختلف ممالک کے ہیں اور شاہراہوں پر دورانِ سفر ایک دُوسرے سے ملے تھے۔اُن میں سے ایک انگریز نے بتایا کہ وہ سری لنکا سے آ رہا تھا۔
میں نے سوال کیا کہ سری لنکا واپس جائیں گے؟”جی نہیں‘مَیں نے اُس دیس کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا ہے“۔کیا وہ خوبصورت جگہ نہ تھی؟پھر آپ وہاں رہنا کیوں نہیں چاہتے ؟بڑی دیر تک وہ اپنی داڑھی کھجاتا رہا ،پھر بولا”غالباٌ گر وتھ نہیں تھی‘ کچھ دیر کے بعد میں اِردگرد کے سبزے کی طرح ویجیٹیبل بن جاتا‘ میں اِس انجام کے لئے تیار نہیں تھا“۔اللہ کے برگزیدہ بندے‘ سبزی بننا پسند نہیں کرتے‘ وہ جوانی میں بچپن،بڑھاپے میں جوانی اور حسنِ خاتمہ کے قریب ‘ انوالومنٹ کے آرزو مند نہیں ہوتے۔
اِس لئے اُن کا ماضی نہیں ہوتا۔اُن کی صرف گروتھ ہوتی ہے۔ اُن کا ماضی بڑھوتری کا اونچا نیچازینہ ہوتا ہے۔جو باتیں عام زندگی میں گہری منافقت اور تضاد کی نشان دہی کر سکتی ہیں ‘ اُن کے لئے فقط کوٹھالی کی آگ جیسی ہوتی ہیں ‘جن میں تپ کر وہ کندن بنے ہوتے ہیں۔صاحبِ حال بھی کبھی بچہ رہا ہے‘ اُس پر بھی کبھی جوانی نے والہانہ حملے کئے ہیں لیکن عام اِنسان اور بزرگانِ دین میں صرف یہی فرق ہے کہ ہر کرائسز کو ہم نے کیسے فیس کیا اور اُس نے اُن حالات سے کیسے اِرتقاکی سیڑھیاں بنائیں۔
حالات سبھی کے سانجھے ہیں ‘ بچپن میں سبھی کھاتے ہیں، ‘ کھیلتے ہیں،جھگڑتے ہیں،جوانی میں سب مبتلا رہتے ہیں،گھر بناتے ہیں، بچے پالتے ہیں،دوست بنانے اور دُشمن بنانے کا یہ عہد ہوتا ہے۔فرق ‘حالات ،تجربات یا واقعات کا نہیں ہے۔بلڈنگ بلاکس ہم سب کو ملتے ہیں۔فرق ‘رُوح کی لطافت اور ردِ عمل کا ہے۔ غم اور خوشی کے شدیداِحساس سے آگے نہیں بڑھتا ۔
خاص اِنسان عام مواد سے لطیفہ پیدا کرتا ہے لیکن خاص الخاص کے ہاتھ میں یہ حالات شعبدہ بازی کی مضبوط رسی ہے ‘جس سے وہ آسمان میں ٹھیکری لگانے کا کام کرتا ہے ا ور پھر پویا‘ پویا آسمانی مسافتوں کی جانب مضبوطی اور شکر گزاری کے ساتھ سفر کرتا ہے۔اِس لئے مجھ جیسوں کو نہ تو واصف صاحب کی سمجھ آ سکتی ہے ‘نہ اُن کی کتاب ”کرن کرن سورج“کی۔ہم بیان کی غلطیاں دیکھنے والے ہیں۔
ہم چاہے واصف صاحب سے ملیں‘ اُن کی کتاب پڑھیں یا اُن کی محفل سے اٹھ کر واپس آئیں‘ واپسی پر کار میں بیٹھتے ہی ہم تجزیے کا شکار ہو جاتے ہیں‘۔چھان پھٹک کی عادت ہو ‘تو عمل سے گریز کی توجیہہ بھی مل جاتی ہے۔ہمارے پاس خود اِتنے سارے نظرئیے ہیں،پیمانے ہیں،ہم ملک سدھارنے والے ہیں،راہیں بچھانے والے ہیں‘ ہم اگر مان بھی جائیں گے ‘ اعتراف بھی کر لیں گے ‘ تو کتنی دیر۔
منفی سے مثبت کا سفر‘ آخر کتنی دیر رہ سکتا ہے۔
ابھی پچھلے دِنوں کی بات ہے کہ ہمارے درمیان سے ایک مردِ ابریشم خموشی سے سلیپر پہن کر چلا گیا۔جانے سے پہلے اُس نے تمام لوگوں سے ملنے کی خواہش کی‘ کوشش کی‘ سب کے دُکھ دَرد میں شریک ہوا۔مجھے پہلی بار اِحساس ہوا کہ میری سہیلی نثار عزیز نے قدرت اللہ شہاب کا نام مردِ ابریشم رکھ کر کسی بڑی ہی سخت چیز سے اُس کو تشبیہ دی ہے۔
اُن کے جانے کے بعد لوگوں نے اُنہیں اور بھی سخت القاب دیئے‘ کسی نے اُنہیں کہا کہ بڑا اچھا سی ایس پی تھا‘ آئی سی ایس تھا۔کسی نے اُنہیں عالم کہا‘ کسی نے ادیب …یہ نہیں کہ وہ یہ سب کچھ نہیں تھے۔وہ مختلف اوقات میں یہ سب کچھ کر رہے تھے لیکن یہ سب مراحل طے کرنے میں ‘ کرتے ہوئے‘ اِن کی خامیوں،خوبیوں اور خرابیوں سے گزر کر وہ ”ابریشم“ ہوئے تھے۔
جب غم شدید ہو ‘تو ردِ عمل بھی شدید ہوا کرتا ہے۔فرطِ غم میں شہاب صاحب کے چاہنے والوں نے اپنے اپنے طور پر جان سے گزر جانے کا فیصلہ کیا‘ اپنا وجود نذر دے کر اُن کی ذات کو بقا دینے کا ارادہ کیا۔ کچھ نے تجویز کیا کہ وہ سال بہ سال ایک تقریب منائیں گے‘ ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ آؤ باہم مل کر ایک کتاب لکھیں ‘جس میں شہاب صاحب کی پیاری پیاری باتیں ہوں‘ ایک دو نے کہا کہ چلو قبر پر ایسا سنگ ِ مرمر کا روضہ بنائیں ‘جو رہتی دنیا تک قائم رہے۔
ہم سب اپنے اپنے طور پر انہیں ابدیت بخشنے کی کوشش کر رہے تھے۔کسی کو بھی خیال نہ آیا کہ جب تک ہم میں سے ایک اور مردِ ابریشم پیدا نہ ہو ‘سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔
بڑے مزار اور چھوٹے مزار میں بزرگانِ دِین کی چھوٹائی یا بڑائی کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ تمام بزرگانِ دِین کا وجود ایک ہے ‘بالکل ایسے جیسے آئینہ خانے میں ایک شمع روشن کریں‘ تو چہار سمت موم بتیاں روشن ہوجاتی ہیں۔
چھوٹے مزار اور بڑے مزار میں فقط مرید کا‘ ماننے والے کا فرق ہوتا ہے۔جب ماننے والا مولانا روم جیسا ہو‘ تو شمس تبریز کی مِتھ بنتی ہے ،ورنہ بڑا آدمی تو بڑا ہی رہتا ہے‘ چاہے اُس کی یاد کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔اِن لوگوں کے پاس ہمارے جیسے پیمانے نہیں ہوتے۔یہ بے وفائی کی ملاوٹ کے ساتھ وفا کرتے ہیں اور بے وفائی میں بھی وفا کا خمیر ڈال دیتے ہیں۔
اِن کا سچ ‘جھوٹ کے فریم میں اور بھی اچھا لگتا ہے اور جھوٹ کے آئینہ میں سچ کی تصویر ابدیت حاصل کرتی ہے۔ یہ لوگ شعبدہ باز ہیں۔اِن سے اِنسانی ممکنات کے اِمکانات کھلتے ہیں۔وہ ہمارے جیسی حرکتیں کرتے ہیں لیکن انُ کا عمل ارتقاکا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اِس لئے یہ کیمیا گر ‘دُنیا کو دِین بنانے کا فن جانتے ہیں۔
مَیں واصف صاحب کو بہت اچھی طرح سے نہیں جانتی۔
مَیں اِن کی کتاب”کرن کرن سورج“ کو خوشبو کا جھونکا سمجھتی ہوں‘ جو محسوس تو کیا جا سکتا ہے‘ سمجھتا نہیں جا سکتا،پھر پتی پتی کرنے سے پھول میں باقی بھی کیا رہتا ہے۔اِس لیے مَیں نے اُن تجزیات سے گریز کیا ہے ‘جو وقتاًفوقتاًمیرے ذہن میں کار پر واپسی پر اُبھرے ہیں۔مَیں آپ کے اور اِن کے درمیان زیادہ دیر تک حائل بھی رہنا نہیں چاہتی ‘کیونکہ کچھ لوگ مجھ سے بہترجانتے ہیں۔
میری ایک ہی دُعا ہے کہ وہ تا دیر اپنے چاہنے والوں سے بے وفائی نہ کریں اور اُن کے پیچھے چلنے والوں میں سے کوئی ایسا ضرور ہو ‘جو مجسم واصف صاحب ہو اور اُن کی جلتی ٹارچ کو لے کر اولمپیا کی پہاڑی پر بھاگنے والا ہو،دُنیا کو دِین بنانے کا نسخہ ضائع نہ ہو اور ایسے کیمیا گر آنے والی نسلوں کے لئے باعث ِرحمت ہوں ‘جیسی رحمت آج واصف صاحب ہیں۔واصف صاحب ! میری طرف سے مبارک باد اور اِس حوصلہ افزائی کا شکریہ…!

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif