Episode 10 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 10 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

ایک دوست دُوسرے سے بولا”تم نے وہ کہانی سُنی ہوئی ہے؟“ 
دوست نے جواب دیا”نہیں‘میں نے دُوسری کہانی سُنی ہوئی ہے“۔
#####
موت سے زیادہ خوفناک شے موت کا ڈر ہے۔
#####
اُس چیز کا ذِکر نہ کرو‘جس کو دیکھا نہیں اور اُس کا بھی کیاتذکرہ جو کسی کو دِکھلائی نہ جا سکے۔
#####
زمین پر ہی مشرق ومغرب ہیں۔آسمان پر مشارق و مغارب نہیں ہیں۔
آسمان بے جہت و بے سمت ہے۔
#####
خطرات کے باوجود زِندگی وقت سے پہلے نہیں ختم ہو سکتی اور اِحتیاط کے باوجود زِندگی وقت کے بعد قائم نہیں رہ سکتی۔
#####
آنکھ نہ ہو تو نظارے کا کیا قصور؟حضوریٴ قلب نہ ہو تو قربِ حقیقت کا کیا مطلب؟تمنّائے سفر نہ ہو تو جزائے سفر کیا؟دِل مومن نہ ہو تو زبان کا کلمہ کس کام؟منزل کا فیض ہی آمادہٴ سفر کرتا ہے۔

(جاری ہے)

جس چیز کی آرزو ہے‘وہی چیز حاصلِ آرزو ہے اور وہی خالقِ آرزو ہے۔یعنی آرزو ہی حاصلِ آرزو ہے۔حقیقت کے سفر میں اِرادہ بھی حقیقت ہے اور سفر بھی حقیقت۔
#####
آسمانوں پر نگاہ ضرور رکھو‘لیکن یہ نہ بھُولو کہ پاؤں زمین پر ہی رکھے جاتے ہیں۔
#####
بے اعتدالی کی اِس سے بڑی کیا سزا ہوسکتی ہے کہ اِنسان کو خوراک کی بجائے دوا کھانا پڑے۔
#####
اُس کی عطاؤں پر اَلحمداللہ اور اپنی خطاؤں پر اَستغفراللہ کرتے ہی رہنا چاہیے۔
#####
دو اِنسانوں کے مابین ایسے الفاظ…جو سُننے والا سمجھے کہ سچ ہے اور کہنے والا جانتا ہو کہ جھوٹ ہے…خوشامد کہلاتے ہیں۔
#####
بے رنگ زمین میں ‘بے رنگ بیج اور بے رنگ پانی سے رنگ کیسے پیدا ہو گئے؟
#####
تسلیم کے بعد اَمر کا مُنکر‘شیطان ہے۔
#####
مسلمان کے لیے اہلِ قرآن ہونا ہی کافی نہیں۔حاملِ قرآنِ مُبین ﷺ کے ساتھ نسبت کا مضبوط ہونا بہت ہی ضروری ہے۔قرآن کا اصول ‘حضور ﷺکی زِندگی ہے ‘یا یہ کہ حضور ﷺ کی زِندگی اور قرآن کے اصولِ زِندگی میں فرق نہیں۔ یہاں تک کہ نزولِ قرآن سے پہلے بھی حضورِاکرم ﷺ کی زِندگی اصولِ قرآن کے مطابق تھی۔
#####
ہماری زندگی کا سب سے بڑا حادثہ یہی ہے کہ ہم کثیر المقاصد ہیں۔
آج کا اِنسان بیک وقت ہزارہا کام کرتا ہے اور کرنا چاہتا ہے۔کثیروابستگیوں نے اِنسان کو مستقل مزاج نہیں رہنا دیا۔آج کا آدمی کمپیوٹر کی زندگی بسر کررہا ہے۔مشینی عمل سے مسلسل گزرنے والا اِنسان مشین کا حصہ بن گیا ہے۔جذبات سے محروم، ناآشنا … نہ محبت سے آشنا،نہ وفا سے باخبر۔نہ غم سے گزرتا ہے،نہ خوشی کو جانتا ہے۔آج کی ٹریجڈی یہی ہے کہ آج کوئی ٹریجڈی نہیں۔
سانحہ مَر چُکا ہے۔آج کی زِندگی میں نہ مرثیہ ہے‘ نہ قصیدہ۔اِنسان کئی زِندگیاں گزار رہا ہے اور لازمی ہے‘ کئی اموات دیکھ رہا ہے۔کثیرالمقاصد زندگی ہی بے مقصد زندگی ہو کر رہ جاتی ہے۔سب کا دوست کسی کا دوست نہیں۔ہر ایک سے بے تعلق‘ اپنی ذات سے بھی لا تعلق ہو کر رہ گیا ہے۔ صرف شکل اِنسان کی قائم ہے‘صفات سب بدل چُکی ہیں۔اِنسان کو کیا ہو گیا ہے؟ صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ اِنسان جو تھا‘وہ نہیں ہے۔
شاید کسی حادثے میں اِنسان مر چُکا ہے اور اَب اُس کا بھوت زِندہ ہے۔
#####
جب تک آنکھ میں آنسو ہیں‘اِنسان خدا کا تصور ترک نہیں کر سکتا۔
#####
منافقت اِنسان کو اللہ کے قرب سے محروم کر دیتی ہے۔منافق وہ شخص بھی ہے‘ جو اِسلام سے پیار کرے اور مسلمانوں سے دُشمنی۔منافق وہ بھی ہے جس کے ظاہر باطن میں فرق ہو، خلوت جلوت میں فرق ہو۔
جس کی باتیں سچی ہوں اور وعدے جھوٹے ہوں۔جو دُشمنوں کے ساتھ ہنس ہنس کر بات کرے اور دوستوں کی ہنسی اُڑائے۔جو محسنوں کے ساتھ وفا نہ کرے۔جو اِنسان کا شُکر نہ ادا کرے اور خدا کی تعریفیں کرے۔جو امانت کی حفاظت نہ کر سکے۔جس کواپنے سے بہتر کوئی اِنسان نظر نہ آئے۔جو اپنے دماغ کو سب سے بڑادماغ سمجھے۔جو یہ نہ سمجھ سکے کہ اللہ جب چاہے‘ مکڑی کے کمزور جالے سے بھی ایک طاقتور دلیل پیدا فرما سکتا ہے۔
#####
اللہ کریم کا اِرشاد ہے کہ ماں باپ کے سامنے اُف تک نہ کہو۔اُن کو جھِڑکی نہ دو،اُن سے نرم اَلفاظ میں بات کرو۔اُن کے بڑھاپے میں اُن کی ایسے خدمت کرو ‘جیسے بچپن میں اُنہوں نے آپ کی خدمت کی…آج یہ حکم آپ کے لیے ہے ‘ کل یہی حکم آپ کی اَولاد کے لیے ہو گا۔
#####
ہمارا عقیدہ کچھ اور ہے اور ہماری ضرورت کچھ اور۔خیال کسی اور محفل کا ہے اور ہماری محفل کسی اور خیال کی ہے۔
اگر ہمارا دوست ہمارا ہم عقیدہ نہیں‘ تو کون کس سے وفا کرے گا اور کون کس کا گِلہ کرے گا۔عقیدہ چُن لینے کے بعد اندازِزندگی اور احباب کا انتخاب بھی ضروری ہے۔بغیر روزہ کے افطاریاں اور روزے کے باوجودحرام شے سے افطاری ‘سب گمراہی کی دلیلیں ہیں،اِسلام سے مذاق ہے۔ اِسلامی ڈرامے اور ڈرامے کا اِسلام‘اللہ کا خوف چاہیے۔نہ جانے کب کیا ہونے والا ہے!! 
#####
یہ اللہ کا دعویٰ ہے کہ”وَمَااَرسَلنَکَ اِلّاَرَحمَ#ً لِلّعٰلَمِین“۔
اُس نے اپنے حبیب ﷺ کو جہانوں کی رحمت بنا کے بھیجا ہے۔اِسے یاد رکھنا چاہیے۔
اگر کبھی یومِ حساب میں اپنے اعمال کی کمی کی وجہ سے اور جلالتِ کِبریا سے خوف و لرزہ طاری بھی ہو‘ تو یہ یاد رہنا چاہیے کہ اللہ کے حبیب ﷺکا نام ہی شفاعت کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔
 #اب احتساب میرے گناہوں کا چھوڑیے
اب واسطہ دیا ہے تمہارے حبیب ﷺ کا
#####
ہماری تمام صفات ہمیں کامیابی تک نہیں لے جا سکتیں۔
ہر اِنسان میں ایک خاص صفت موجود ہوتی ہے‘ جس کو اگر پروان چڑھایا جائے تو وہ اِنسان کامیاب ہو سکتا ہے‘ اور وہی صفت اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کسی نے کیسے اور کسی نے کیسے کیا کیا کچھ کِیا۔کچھ لوگ صرف عبادت پر زور دیتے رہے اور کچھ لوگ صرف خدمت ِ خلق پر۔کچھ حضرات راتوں کو جاگتے رہے۔ کچھ درویش صرف سفر کرتے رہے۔
کسی نے شاعری کو ذریعہٴ ابلاغ بنایا۔کسی نے نثر میں بات کی۔کوئی اِشاروں سے بات کرتا رہا اور کچھ لوگ مُدّت تک خاموش رہے اور اِس خاموشی میں جمالِ گفتگو پیداکرتے رہے۔ہر آدمی‘ ہر کام نہیں کر سکتا۔یہ قدرت کی عطا ہے۔کوئی طالب کوئی مطلوب،کوئی اُستاد کوئی شاگرد،کوئی شیخ کوئی مُرید،کوئی منزل نُما،کوئی نشانِ راہ،کوئی سیلانی،بلکہ کوئی جہاں گشت۔
کوئی مکانی اور کوئی لامکانی،کوئی ناز،کوئی نیاز،کوئی نیازِبے نیاز،کوئی فخر ِ کون ومکاں،کوئی شہبازِ لامکاں، کوئی دستِ حق باطل شِکن،کوئی سجدہٴ نیاز،کوئی صاحب الرسول،کوئی نائب الرسول،کوئی غوث الثقلین،کوئی قدوةالسّالکین،کوئی زُبدةالعارفین،کوئی گنج بخشِ فیض ِ عالم مظہرِنورِ خدا،کوئی زُہدالانبیا،کوئی محبوبِ الٰہی‘غرض یہ کہ کوئی کچھ ہے ،کوئی کچھ …ہر اِک کے انداز جُدا،عطا جُدا،طریقہٴ تعلیم جُدا۔
کہیں قوالی ہو رہی ہے، کہیں سماع کو حرام کہا جا رہا ہے۔اصل میں سب سچ ہی کہہ رہے ہیں۔لیکن اب پورا ہاتھی دیکھنے کا وقت ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم کلمے کی وَحدت پر ،حضورِ پُرنور ﷺ کی ذاتِ مُبارک پر مکمل ایمان رکھتے ہوئے ایک عظیم وَحدت میں اِکٹھے ہو جائیں۔ راستے کے لُطف الگ ہیں لیکن مُدّعا اور منزل ایک ہے۔شریعت ہی واضح اور مکمل راستہ ہے۔مِل کر سفر شروع کریں‘قو م ترقی کر جائے گی۔

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif