Episode 7 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 7 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

اپنے ماتحتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک یہی ہے کہ اُنہیں ماتحت نہ سمجھو۔وہ اِنسان ہیں‘اُسی طرح زندہ جیسے آپ۔اُن کے جذبات و اِحساسات اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھا کرو‘اللہ راضی رہے گا۔جو سلوک اللہ سے چاہتے ہو‘اپنے ماتحت کے ساتھ کرو۔ماتحت بھی آزمائش ہے اور افسر بھی آزمائش۔چھوٹا‘ چھوٹا نہ رہا تو بڑا ‘بڑا نہ رہے گا،اِنسان نظر آئیں گے۔
#####
ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور ہر وقت کے لیے ایک کام ہوتا ہے۔
بے وقت کی نماز بھی نماز نہیں کہلائی جا سکتی۔حج کے ایّام ہیں۔ صیّام کا مہینہ ہے۔نیند کا وقت ہے۔تلاشِ رِزق کا وقت ہے۔تعلیم کا زمانہ ہے۔عِلم کا دَور الگ ہے،خواہش کے زمانے اور ہیں۔فتوحات کے ایّام اور ہوتے ہیں۔شکست کی گھڑی اور ہے۔ عمل کا میدان اور ہے۔

(جاری ہے)

جزا سزاکاوقت الگ مقرر کر رکھا ہے۔نہ خوشی مستقل ہے‘ نہ غم ہمیشہ رہ سکتا ہے۔ہر کام اپنے مقررہ وقت پر حَسین و موزوں لگتا ہے‘ ورنہ بے زیب و بدنُما!!عِلم و عمل کے زمانے پہچاننے چاہئیں۔

#####
اچھا ڈرائیور وہی ہے ‘جو زیادہ ہارن نہ بجائے اور بار بار بریک اِستعمال نہ کرے۔ہارن دُوسروں کو ڈرانے کے لیے ہے اور بریک اپنے لیے برداشت۔ اِسی طرح اچھی زندگی وہی ہے‘ جو دُوسروں کو نہ خوفزدہ کرے اورنہ زیادہ برداشت۔دُوسروں پر اپنی پسند مُسلّط کرنے کے لیے اُنہیں ڈرایاجاتا ہے اور دُوسروں کی نا پسندیدہ بات کو برداشت کیا جاتا ہے۔
اپنی پسند اپنے تک رکھو۔ دُوسروں کی پسند اُن تک رہنے دو۔اُسے نا پسند نہ کرو۔زندگی کا سفر اچھا کٹ جائے گا۔ جس نے دُوسروں کو پسند کیا ‘وہ ضرور پسند کیا گیا۔جس نے دُوسروں کی بھلائی چاہی‘ اُس کاضرور بھلا چاہا جائے گا۔الغرض‘ دُوسروں سے نیکی ‘اپنے ساتھ نیکی ہے۔ دُوسروں سے بدی ‘اپنے ساتھ بدی ہے۔دُوسروں سے نیکی ‘ہماری فلاح ہے۔دُوسروں سے بدی ‘ہماری عاقبت کی خرابی ہے۔
#####
خالق کا گِلہ مخلوق کے سامنے نہ کرو اور مخلوق کا شِکوہ خالق کے سامنے نہ کرو … …سکون مِل جائے گا۔
#####
دِین و دُنیا…جس شخص کے بیوی بچّے اُس پر راضی ہیں‘اُس کی دُنیا کامیاب ہے اور جس کے ماں باپ اُس پر خوش ہیں‘اُس کا دِین کامیاب۔
#####
جو سچّا نہیں‘وہ کسی”سچّے“ کا اِنتظار نہیں کر سکتا۔
#####
ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں‘اگر ہم معاف کرنا اور معافی مانگنا شروع کر دیں۔
#####
سب سے بڑی قوت‘قوتِ برداشت ہے۔
#####
اللہ کے راز اللہ ہی جانتا ہے۔اللہ کی باتیں اللہ جانے یا‘ اللہ کا حبیب ﷺ جانے۔ ہم مُشیّتِ اِلٰہی کو نہیں سمجھ سکتے بلکہ ہم تو اپنی مُشیّت کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔موسیٰ علیہ السّلام نہ سمجھ سکے کہ اُن کا ساتھی کیا کر رہا ہے۔کشتی کیوں توڑی گئی ،بچہ کیوں قتل ہوا،دیوارِ یتیم کیوں مرمت کی گئی……ایک پیغمبر  کو سمجھ نہ آ سکی۔
یعقوب علیہ السّلام کو یہ پتا نہ چل سکا کہ اُن کا جدا ہونے والا بیٹا کس حال میں ہے۔یہ اللہ کے کام ہیں۔اللہ نہ چاہے تو کون جان سکتا ہے۔اللہ کو ماننا چاہیے‘اللہ کو جاننا مشکل ہے۔ ہمارے ذِمّے تسلیم ہے‘تحقیق نہیں۔تحقیق دُنیا کی کرو اور تسلیم اللہ کی۔کہیں ایسانہ ہو کہ ہم دُنیا کو تسلیم کر لیں اور اللہ کی تحقیق کرنا شروع کر دیں۔
#####
جو اِنسان اپنی وفا کا ذکر کرتا ہے‘وہ اصل میں دُوسرے کی بے وفائی کا ذِکر کر رہا ہوتا ہے……وفا تو ہوتی ہی بے وفا سے ہے۔
#####
کچھ لوگ زندگی میں مُردہ ہوتے ہیں اور کچھ مَرنے کے بعد بھی زندہ۔
#####
ترقی کے لیے محنت و مجاہدہ ضروری ہے‘لیکن یہ نہ بھولنا چاہیے کہ مجاہدہ ایک گدھے کو گھوڑا نہیں بنا سکتا۔
#####
یہ اللہ کا بڑا اِحسان ہے کہ ا ِنسانوں کی دُنیا میں غیر اِنسانی مخلوق ‘جِن،فرشتہ وغیرہ‘ غیر اِنسانی شکل میں نہیں آ سکتے۔
#####
محبت سے دیکھوتو گلاب میں رنگ مِلے گا،خوشبو مِلے گی۔نفرت سے دیکھو تو خار نگاہوں میں کھٹکیں گے۔
#####
دُور سے آنے والی آواز بھی اندھیرے میں روشنی کا کام دیتی ہے۔
#####
ولیوں کی صحبت میں رہو……سکون مِل جائے گا۔
#####
فرض اور شوق یکجا کر دو……سکون مِل جائے گا۔
#####
ہوسِ زَر اور لذتِ وجود چھوڑ دی جائے‘ تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔
#####
کسی کاسکون برباد نہ کرو……سکون مِل جائے گا۔
#####
دل سے کدورت نکال دو……سکون مِل جائے گا۔
#####
حقیقت کا متلاشی ‘حقیقت کی تلاش میں کسی نہ کسی ذریعے کو لے کر نِکلتا ہے، مثلاًاُس نے کہیں سے پڑھ لیا کہ حقیقت ایسے ہے ‘تو وہ اُس خیال کے مطابق نکلا ہے اور جب اُس کو ویسی حقیقت ملے تو وہ اُس خیال کی روشنی میں اُسے پہچانے گا۔
گویاپہچان کا معیار متلاشی کے اپنے پاس ہوتا ہے اور اِس معیار کے مطابق اُس نے اُس حقیقت کو دیکھنا ہے۔ہم اگر آنکھ کو ذریعہٴ پہچان مان لیں تو حقیقت کسی نظارے کی شکل میں سامنے آئے گی‘کسی چہرے کے رُوپ میں آئے گی۔اگر ہم صرف کان لے کر نکلیں تو حقیقت نغمہ ہے۔اگردِل کے ہمراہ چلیں توحقیقت دِلبری ہے۔اگر ذہن کے ذریعے چلیں توحقیقت حیرت ہے۔
اگر ہم سائل بن کر چلیں تو حقیقت سخاوت کے رُوپ میں سامنے آئے گی۔اگر ہم سخی ہو کر نکلیں تو حقیقت سائلوں میں ہوگی۔الغرض متلاشی جس رنگ سے نکلے گا‘تلاش وہی رنگ اختیار کر لے گی‘ اور ہر رنگ حقیقت کا رنگ ہے کیونکہ اِس کائنات میں کوئی چیز باطل نہیں۔
#####
جس نے ماں باپ کا اَدب کیا‘اُس کی اولاد موٴدب ہوگی…نہیں تونہیں۔
#####
آخرت کا سفر دُنیا سے ہی شروع ہوتا ہے اور اللہ سے تعلق اِنسانوں کے ذریعے بنتا ہے۔
ہم گناہ اِنسان کے ساتھ کرتے ہیں،جو نیکی کرنی ہے ‘اِنسان کے ساتھ،سخاوت اِنسان کے ساتھ،رحم اِنسان کے ساتھ،سلوک اِنسان کے ساتھ،محبت و نفرت اِنسان کے ساتھ۔احکامِ اِلٰہی‘ اِنسانوں کے ساتھ عمل میں آئیں گے۔نماز اِنسانوں کے ساتھ مل کر پڑھنی ہے۔ جہاد اِنسانوں کے ہمراہ ‘اِنسانوں کے خلاف۔ اُمّت اِنسانوں کا اجتماع ہے،قوم اِنسانوں کی وَحدت ہے۔
اِنسان کسی مقام پر تنہا نہیں۔ تنہائی میں اِنسانوں کی یادیں ہیں۔محفل میں اِنسانوں کے چہرے۔ بازاروں میں اِنسانوں کی بھِیڑ۔ذِکروفِکرکی مجالس اِنسانوں کے ساتھ۔حتیٰ کہ جنازہ بھی اِنسانوں کے ہمراہ۔نمازِ جنازہ بھی اِنسانوں کا گروہ…اگر کوئی اِنسان تنہا عبادت میں مصروف ہو جائے ‘توکچھ ہی عرصے بعد اُس کے گِرد ہجوم اکٹھا ہو جائے گا۔
مسجد بن جائے گی۔خانقاہ بن جائے گی۔لنگر خانے کھل جائیں گے اور تنہائیوں میں رہنے والا میرِ مجلس بن کر رہ جائے گا۔زِندگی اِظہارِ ذات ہے۔اب غور طلب بات یہ ہے کہ ہمارا اعمال نامہ کیا ہے …ہمارے گِردوپیش کے اِنسانوں سے تعلقات کا نتیجہ !! ماں باپ کی خدمت نیکی ہے۔محتاجوں کی خدمت نیکی ہے۔وفا نیکی ہے اور اِسی طرح اِس کے بر عکس بدی۔نیند میں اِنسان تنہا ہوتا ہے ‘وہاں بھی ”تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ“۔
نیند میں نیکی سے محروم ہوتا ہے اور نیند میں اِنسان بدی سے بچ جاتا ہے۔ اِنسان کا ہر عمل دُوسرے اِنسان سے متعلق ہے۔ذاتی عمل صرف ایک ہے اور وہ ایک سجدہ ہے۔ساری نماز میں ہم لوگوں کا ذِکر کرتے ہیں‘اِس لیے محویت نہیں حاصل ہوتی۔مثلاً اُن لوگوں کا ذِکر جن پر اللہ کا اِنعام ہوا،اُن کا‘ جن پر اُس کا غضب ہوا۔گمراہ لوگوں کا ذِکر۔مخلصین و صالحین کا ذِکر۔
حضرت ابراہیم  اور اُن کی آل کاذِکر۔والدین کا ذِکر۔اولاد کا ذِکر‘اور اپنے پیارے نبی اکرم ﷺ اور آپ کی آلِ پاک کا ذِکر۔یہ سب اَذکار ہیں۔اِنسانوں کے مختلف رُوپ ہیں۔اِن کا ذِکر اور اِسی انداز سے ذِکر‘عبادت ہے۔پس میری عبادت ‘اِنسانوں کے ذِکر، اِنسانوں کے تقرب ،اِنسانوں سے سلوک ،اُن سے رہنمائی حاصل کرنے کے اسلُوب، اُن کی کوتاہیوں،غفلتوں اور گمراہیوں سے بچنے کے آداب کا نام ہے۔ میری محویت اور تنہائی صرف”سجدہ“ہے۔اِس لیے یہ ضروری ہے کہ سجدہ کبھی قضا نہ ہو اور اِنسانوں سے حُسنِ سلوک جاری رہے ‘تا کہ دِل کو سکون مل جائے۔

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif