Episode 4 - Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 4 - کرن کرن سورج - واصف علی واصف

باز اور شِکروں کی موجودگی کے باوجود چڑیا کے بچے پرورش پاتے رہتے ہیں۔آندھیاں سب چراغ نہیں بجھا سکتیں۔شیر دہاڑتے رہتے ہیں اور ہرن کے خوبصورت بچے کلیلیں بھرتے رہتے ہیں۔یہ سب اُس مالک کے کام ہیں۔اُس کی پیدا کردہ مخلوق اپنے اپنے مقرر شدہ طرزِ عمل سے گزرتی ہی رہتی ہے۔فرعون نے سب بچے ہلاک کر دیے‘ مگر وہ بچہ بچ گیا۔یہ سب قُدرت کے کام ہیں۔
زمانہ ترقی کر گیا ہے مگر مکھی ،مچھر اور چوہے اب بھی پیدا ہوتے ہیں۔جراثیم کُش دوائیں نئے جراثیم پیدا کرتی ہیں۔طبّ ِ مشرق و مغرب میں بڑی ترقی ہوئی‘بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا۔اِنسان کل بھی دُکھی تھا،آج بھی سُکھی نہیں۔علاج‘ خالق کے قُرب میں ہے۔لوگ کیوں نہیں سمجھتے!
#####
رِزق صرف یہی نہیں کہ جیب میں مال ہو‘بلکہ آنکھوں کی بینائی بھی رِزق ہے۔

(جاری ہے)

دماغ میں خیال رِزق ہے۔دِل کا اِحساس رِزق ہے۔رگوں میں خون رِزق ہے ،یہ زندگی ایک رِزق ہے ‘اور سب سے بڑھ کر ایمان بھی رِزق ہے۔
#####
بندے‘ اللہ کی طرف یا خوف کی وجہ سے رجوع کرتے ہیں یا شوق کی وجہ سے۔گردشِ روز گار میں خوف پیدا ہوتا ہی رہتا ہے اور لوگ اللہ کو مدد کے لئے پکارتے ہی رہتے ہیں۔شوق عنایتِ اَزلی ہے۔یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
اِسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کچھ لوگ اللہ کو اِس لئے تلاش کرتے ہیں کہ اللہ اُن کے بگڑے کام سنوارنے والا ہے‘ اور اہل ِ دل حضرات اِس لئے اللہ کا تقرّب مانگتے ہیں کہ اُن کو قرار ملے،تسکین حاصل ہو،اِطمینان نصیب ہو۔خوف کی عبادت اور ہے ‘ اور سجدہٴ شوق اور !
#####
جو شخص سب کی بھلائی مانگتا ہے‘اللہ اُس کا بھلا کرتا ہے۔جن لوگوں نے مہمانوں کے لیے لنگر خانے کھول دیے ہیں‘کبھی محتاج نہیں ہوئے۔
#####
توبہ جب منظور ہو جاتی ہے‘ تو یادِ گناہ بھی ختم ہو جاتی ہے۔
#####
اللہ کے محبوب ﷺ کی محبت ہی عطائے اِلٰہی ہے۔حضورِ اقدس ﷺ سے محبت ایمان کی اصل ہے۔
 #دِین کیا ہے عشقِ احمد ﷺ کے سِوا
دِین کا بس اِک یہی معیار ہے
عشقِ مصطفےٰ ﷺ میں فراق بھی عطا ہے اور وصال بھی۔حضور ﷺ سے محبت کرنے والے‘ حضورﷺ کی اُمت کے ہر فرد سے محبت کرتے ہیں۔
اُمت کی فلاح کی دُعائیں مانگتے ہیں۔حضور ﷺ کے کُوچے کی گدائی کو اپنے لیے تاجِ شاہی سمجھتے ہیں۔ حضور ﷺ کے اِرشاد کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔حضور ﷺ کے طالب‘ اِس کائنات کو آئینہٴ جمالِ مصطفےٰ ﷺ سمجھتے ہیں اور جمالِ مصطفےٰ ﷺ کو پَرتو ِاَنوارِ کبریا سمجھتے ہیں۔
#####
جب عزت اور ذِلت اللہ کی طرف سے ہے،رنج و راحت اللہ کی طرف سے ہے،دولت اور غریبی اللہ کی طرف سے،زندگی اور موت اللہ کی طرف سے‘تو ہمارے پاس تسلیم کے علاوہ کیا رہ جاتا ہے؟
#####
تلاشِ حقیقت ،تلاشِ حق آگاہ،تلاشِ صاحب ِ دِلاں،تلاشِ اِمامِ زماں یا تلاشِ محرمِ اَسرار کسی جغرافیائی سفر کا نام نہیں۔
سِند باد کے سفراور متلاشی ٴ حق کے سفر میں بڑا فرق ہے۔حقیقت کے سفر کے لیے پہلے اپنے آپ میں اپنی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنا چاہیے۔آئینہٴ دِل جتنا مُصفّاہو گا‘اُتنا ہی آسانی سے جلوہٴ حق قبول کرسکے گا۔ اللہ کا قرب‘پیشانی کو سجدے میں رکھ کر حاصل ہوتا ہے۔سجدہ یہاں ہے‘ تعلق وہاں۔ دُرود شریف یہاں ہے‘منظوری وہاں۔ حاصل یہ کہ پہلے اپنی ہی اِصلاح ہے ،خود کو اِس قابل بنانا ہے کہ جلوے کامفہوم سمجھ آسکے۔
بوجہل کودیدار سے تقرب حاصل نہیں ہوسکتا۔اویس قرنی کو تقربِ مکانی کے بغیر ہی دیدار حاصل ہوتا ہے۔ مخلصین کو اِبتدائے سفر میں ہی منزلوں کا سلام آتا ہے۔
#####
ہماری آنکھوں کے سامنے عجائبات ہیں لیکن ہم دیکھتے نہیں۔ایک معمولی سی بے عقل ،بے شعور گائے کتنا بڑا کرشمہ ہے‘فطرت کا عجوبہ‘گھاس سے دُودھ بنانے والا حیرت انگیز کارنامہ …ہم کیوں نہیں دیکھتے!
#####
اپنے حال پر افسوس کرنا،اپنے آپ پر ترس کھانا،اپنے آپ کو لوگوں میں قابل ِ رحم ثابت کرنا‘اللہ کی ناشکرگزاری ہے۔
اللہ کسی اِنسان پر اُس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ بیمار اور لاغر رُوحیں ہمیشہ گلہ کرتی ہیں،صحت منداَرواح‘ شکر۔ زندگی پر تنقید‘خالق پر تنقید ہے‘ اور یہ تنقید ایمان سے محروم کر دیتی ہے۔
#####
ایک انسان نے دُوسرے سے پوچھا:”بھائی!آپ نے زندگی میں پہلا جھوٹ کب بولا؟“ دُوسرے نے جواب دیا:”جس دن میں نے یہ اعلان کیا کہ میں ہمیشہ سچ بولتا ہوں۔
#####
ُاپنے علم کو عمل میں لانے کے لیے یقین کے ساتھ ساتھ ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔
#####
اگر نوح کی اِلتجا،دُعا یا خواہش کے باوجود اُن کا بیٹا طوفان سے نہیں بچایا گیا تو اِس میں نوح کی نبوت پر کوئی شک نہیں ہو سکتا۔اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے‘ چاہے تو ایک معمولی اِنسان کی دُعا قبول کر لے،چاہے تو نبی کی بات ٹال دے۔
اللہ بے نیاز ہے۔
#####
ہر اِنسان ہر دُوسرے اِنسان سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ایک اِنسان دُوسرے کے پاس سے خاموشی سے گزر جائے تو بھی اپنی تاثیر چھوڑ جاتا ہے۔ اِنسان دُوسرے اِنسان کے لیے محبت،نفرت اور خوف پیدا کرتے ہی رہتے ہیں۔ ایسے بھی ہوتا ہے کہ اِنسان صرف نظر ملا کر دُوسرے اِنسان کے مسائل حل کر دے،اُسے با شعور کر دے،اُسے عارف بنا دے۔
کچھ اِنسانوں کا قرب ہی علم کا ذریعہ بن جاتا ہے۔اپنے قریب آنے والے ‘اور پاس سے گزرنے والے اور نگاہوں میں رہنے والے اِنسانوں سے اِنسان بہت کچھ حاصل کرتا ہے‘مگر خاموشی کے ساتھ۔
#####
اِنسان دُوسرے کی دولت دیکھ کر اپنے حالات پر اِس قدر شرمندہ کیوں ہوتا ہے۔یہ تقسیم‘ تقدیر ہے۔ہمارے لیے ہمارے ماں باپ ہی باعثِ تکریم ہیں۔ ہماری پہچان‘ ہمارااَپنا چہرہ ہے۔
ہماری عاقبت‘ ہمارے اپنے دِین میں ہے۔اِسی طرح ہماری خوشیاں‘ ہمارے اپنے حالات اور اپنے ماحول میں ہیں۔مور کو مور کا مقدر ملا،کوّے کوکو ّے کا۔ہم یہ نہیں پہچان سکتے کہ فلاں کے ساتھ ایسا کیوں اور ہمارے ساتھ ویسا کیوں ہوا۔موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے پوچھا:”اے ربّ العالمین!آپ نے چھپکلی کو کیوں پیدا فرمایا؟“اللہ نے جواب دیا:”عجب بات ہے‘ابھی ابھی چھپکلی پوچھ رہی تھی:اے رب!تم نے موسیٰ کو آخر کیوں پیدا کیا؟“بات وہی ہے کہ اِنسان اپنے نصیب پر راضی رہے تو اِطمینان حاصل کرے گا۔
نصیب میں تقابلی جائزہ‘ نا جائز ہے۔
#####
اِس دُنیا میں اِنسان نہ کچھ کھوتا ہے‘ نہ پاتا ہے۔
وہ توصرف آتا ہے اور جاتاہے۔
#####
تکلیف آتی ہے:
ہمارے اعمال کی وجہ سے۔
ہماری وُسعتِ برداشت کے مطابق۔
اللہ کے حُکم سے۔
ہر تکلیف ایک پہچان ہے اور یہ ایک بڑی تکلیف سے بچانے کے لیے آتی ہے۔
#####
اِنکار‘ اِقرار کی ایک حالت ہے،اُس کا ایک درجہ ہے۔
اِنکار کو اِقرار تک پہنچانا‘ صاحب ِ فراست کا کام ہے۔اِسی طرح کفر کو اِسلام تک لانا ‘صاحبِ ایمان کی خواہش ہونا چاہیے۔
#####
صحت کے لیے خوراک ضروری ہے‘لیکن خوراک صحت نہیں۔
#####
جس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہوتا ہے ‘اُسی طرح وقت کے بدلنے کا بھی ایک موسم ہوتا ہے۔حالات بدلتے ہی رہتے ہیں۔حالات کے ساتھ حالت بھی بدل جاتی ہے۔رات آ جائے تو نیند بھی کہیں سے آ ہی جاتی ہے۔وہ اِنسان کامیاب ہوتا ہے جس نے اِبتلا کی تاریکیوں میں اُمید کا چراغ روشن رکھا۔اُمید اُس خوشی کا نام ہے جس کے انتظار میں غم کے اَیّام کٹ جاتے ہیں۔اُمید کسی واقعہ کا نام نہیں‘یہ صرف مزاج کی ایک حالت ہے۔فطرت کے مہربان ہونے پر یقین کا نام اُمید ہے۔

Chapters / Baab of Kiran Kiran Sooraj By Wasif Ali Wasif