مسلم اُمّہ کے اندھے بہرے حکمراں

جمعہ 16 جنوری 2015

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

پیرس (فرانس) میں بیتنے والے سانحہ کے بعد کچھ ایسی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔جنہیں سننے کے بعد دل و دماغ میں ایک ہولناک سناٹے نے ڈیرہ جما لیا ہے۔ جس گھپ اندھیرے سناٹے میں چاروں اطراف کانٹے ہی کانٹے بکھرے پڑے ہیں۔جن کی چبھن سے مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آ رہا ہے،جس کی شان نزول کیا ہے ؟ یہ تو یاد نہیں، البتہ جو کچھ میں دیکھ اور محسوس کر رہا ہوں، اُس کے اظہار کے لئے میں اس شعر کو اپنے جذبات کی آواز محسوس کررہا ہوں۔


آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
مجھے مہینے میں ہر منگل کے دن، کیمو تھیرپی کے لئے جانا ہوتا ہے۔جہاں ڈیڑھ دو گھنٹے کے انتظار کے بعد کیمو کے لئے اندر بلایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

میں اس انتظار کی کوفت سے بچنے کے لئے ہمیشہ اپنے ساتھ کوئی کتاب لے جاتا ہوں۔میں اپنی باری کا انتظار کرنے کے لئے ڈاکٹر سیدتقی عابدی کی کتاب ” فیض فہمی“ پڑھ رہا تھا۔

میرے ساتھ کچھ کینیڈینز بھی بیٹھے اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔” فیض فہمی“ مومی پیپر پر ۱۴۲۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ ایک کینیڈین نے کتاب کی ضخامت پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا ۔
” کس زبان میں ہے ؟“ میرے بتانے پر اس نے پوچھا۔”اُردوکس ملک میں بولی جاتی ہے ؟“ پاکستان کا نام سنتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔

کینڈین بڑے مہذب لوگ ہیں۔چند لمحوں کی سوچ بچار کے بعد اس نے بڑے دھیمے اور مہذب لہجے میں پوچھا۔”جو کچھ پیرس میں ہوا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ “اُس کے اس سوال پر چند دوسرے کینیڈین بھی جواب طلب نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے۔
اگر اس سانحہ کو انسان دوستی کے رشتے سے دیکھا جائے تو بہت برا ہوا ہے اور مسلمانوں کی اکثریت نے اس افسوس ناک سانحہ پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے اور اس درندگی کے خلاف کالم بھی لکھے ہیں۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاگل ہر معاشرے اور ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔میں اگر یہ کہوں کہ چند پاگلوں نے چند پاگلوں کو ان کے فتنہ پرور پاگل پن کی سزا دی ہے تو ممکن ہے آپ لوگوں کو برا لگے، لیکن میں اپنے اس موقف کی وضاحت میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں۔ ایک چوراہئے پر اکثر ایکسیڈنٹس ہوتے تھے، ماہرین کی ٹیم نے چورا ہے کا ہر اینگل سے مُعا وینہ کیا۔

چوراہئے کی کنسٹریکش ہر لہاز سے درست تھی۔ مُعاوینہ کرنے والی ٹہم کے ایک ممبر کی اچانک ہی چوراہئے پر لگے ہوئے ایک اشتہار پر نظر پڑی جس میں ایک ہاف نیکٹ بہت ہی خوبصورت لڑکی مُعاوینہ کار کی توجہ کا مرکز بن گئی۔اس نے اپنے ساتھیوں کی توجہ اس اشتہا ر کی طرف مبزول کرائی اور ایکسیڈنٹس کی وجہ اس اشتہار کو قرار دیتے ہوئے اس اشتہار کو وہاں سے ہٹا دیا اور ایکسیڈنٹس ہونابند ہو گئے۔


تو آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہر برائی کے پیچھے کسی نا کسی برائی کا ہاتھ ہوتا ہے ؟ لیکن کیا آزادی ِ رائے کو بھی برائی سمجھتے ہیں۔؟
ہاں کہنا تو یہی چاہتا ہوں کہ برئیاں ہی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔لیکن اس میں یہ بھی ایڈ کرنا چاہتا ہوں کہ اس سے بھی بڑی برائی یہ ہے کہ ہم برائی یا اچھائی کا پیمانہ اپنے نظریات کو بناتے ہیں۔ جیسا کہ ہم مغرب میں بسنے والوں کا ”آزادی ِ رائے“ کا نظریہ ہے۔

لیکن اس میں بھی ہم دوہرا معیار رکھتے ہیں۔اگر ہم میں سے کوئی یہودیوں کی مظلمویت کے اشتہار ”ہولو کاسٹ“ کے بارے میں کچھ لکھ دے تو ہم اُس پر مقدمہ چلا کر اسے جیل میں بند کر دیتے ہیں۔ لیکن انبیا ئے کرام کے بارے میں جھوٹ کے پلندے تراشنے والوں کو آزادی ِ رائے کی چھوٹ دے دیتے ہیں۔
کیا آپ مسلمان اپنے پرافٹ محمد (ﷺ ) کے بارے میں کچھ زیادہ ہی انتہا پسند نہیں ہیں ؟ “
ہم مسلمان صرف اپنے پرافٹ ہی کے بارے میں جذباتی نہیں ہیں۔

ہماری ہولی بک قرآن پا ک کے مطابق سبھی انبیائے کرام کی عزت و فضیلت کی پاسداری ہم مسلمانوں پر صرف لاز م ہی نہیں، انبیا ئے کرام کی عزت فضیلت کی پاسداری کو ہمارے ایمان کا حصہ بھی قرار دے دیا گیا ہے۔آپ کبھی بھی کسی ریلیجس مسلمان کی زبان سے کسی بھی پیغمبر کے لئے کوئی بے حودہ بات نہیں سنیں گے اور یہ صرف مسلمانو ں ہی میں نہیں، عیسائیوں اور دوسری اقوام کے دانشور بھی انبیائے کرام کے بارے خرافات نہیں بکتے“ میں نے چند لحوں کے توقف سے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

”دانشوری میں ایک مقام ایسا بھی آتا ہے جب کہ انسان قومیت کی عصیبتوں سے دامن چھڑا کر انسان دوستی اور سچ بولنے کی طاقت پا لیتا ہے۔بے شمار عیسائی ہیں جنہوں نے پرافٹ محمد کو محسن انسانیت ہونے کے حوالے سے ایک عظیم انسان قرار دیا ہے ۔ The Most Influential Persons The 100 Great کے رائٹر مائیکل ہارٹ نے ۱۰۰ عظیم ہستیوں کی فہر ست میں پرافٹ محمد اللہ ﷺ کو محسن انسانیت کے حوالے سے نمبر ون پر رکھا ہے اور ایسی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

مثلاًاوکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک عالم مارگولیتھ اپنی کتاب محمد کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔”محمد کے سوانح نگاروں کا سلسلہ بہت وسیع ہے۔جن کا ختم ہونا نا ممکن ہے اور ان میں جگہ پانا قابل فخر ہے۔“ یہ بات کوئی عالم ہی کر سکتا ہے جسے مُنہ سے بات نکالتے ہوئے اپنے عالمانہ مرتبے کی شرم اور پاس بھی ہوتا ہے۔ مار گولیتھ محمد ﷺ کے بارے میں سچائی کی آبیاری کرنے کے عمل کو نہ صرف مبارک عمل قرار دیتے ہیں قابل فخر بھی سمجھتے ہیں۔

لیکن پھر بات وہیں آ کر ختم ہوتی ہے کہ بات کون کر رہا ہے؟ ایک دانشور کو غلط بات کرتے یا تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرتے ہوئے اپنی دانشوری کی پاسداری کا فکر بھی ہوتا ہے۔لوگ کیا کہیں گے ؟
اِس حوالے سے مارٹن لنگز کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ جنہوں نے پرافٹ محمد کی زندگی پر نہ صرف ایک محمد کے نام سے کتاب لکھی ہے۔مسلمان بھی ہو گئے تھے۔اور اوکسفورڈ میں ان کے ساتھیوں نے ان کے مسلمان ہونے کی خبر سن کر کف افسوس ملتے ہوئے کہا۔

آج عیسائیت کا بہت بڑا نقصان ہو گیا ہے۔ لیکن پاگل اور مذہب میں تعصب رکھنے وا لے آدمی کو ان باتوں کی فکر نہیں ہوتی۔وہ جب بھی مُنہ کھولتا ہے تو اُس پر بارکنگ ڈوگ کا گماں ہوتا ہے۔میرے ملک پاکستان میں پارلیمنٹ ایک دربار کا درجہ پا چکی ہے اور ایسے پاگل درباری خاشامدیو ں میں پائے جاتے ہیں۔جو بات کرتے ہوئے بالکل نہیں سوچتے کہ ہماری اپنی بھی کوئی عزت ہے اور لوگ ہمیں جھوٹا کہتے ہیں۔

“ میرے مخاطب میری باتوں سے خاصے متاثر ہو رہے تھے۔جن میں اکثریت اُن لوگوں کی تھی جو اپنے فارغ وقت میں بئیر پیتے اور ، ٹی۔وی پر یہاں کا پسندیدہ کھیل آئس ہاکی دیکھتے ہیں۔یا ہم مسلمانوں کے خلاف یہ پروپیگنڈ ا سنتے ہیں کہ مسلمان شدت پسند ہیں اور میں ان میں اندھوں میں کانا سردار بنا باتیں کر رہا تھا۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا۔


ہم مذاہب کی عزت کرنے والے لوگوں کو شدت پسند کہہ کر خود کو انتہائی پر امن اور مہذب لوگوں میں شمار کر لیتے ہیں۔جب کہ مذہبی ہونا یا مذاہب کی عزت کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔کئی ہزار سال پہلے
ارسطو نے ( معاف کیجئے میری کیمو نے میری یاداشت کو بہت متاثر کیا ہے ) یا ان کے کسی ہمعصر فلسفی نے کہا تھا۔” سبھی مذاہب انسان کو سچائی اور نیکی کے راستے پر رکھنے کے لئے خوفزدہ یا ڈرانے دھمکانے کے لئے ایک ضابطہ ، حیات کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔

“میں کہتا ہوں اگر مذاہب کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور محض انسان کو ڈر ا اور دھمکا کر سچائی اور نیکی کے راستے پر رکھنے کا ایک ضابطہ ، حیات ہی ہیں تو اس میں بھی کیا برائی ہے ؟ ہم سچائی اور نیکی کے راستے پر رکھنے والے لوگوں کو شدت پسند کیوں کہتے ہیں۔جب کہ دوسری طرف ہم سو کالڈ انتہائی مہذب لوگ فتنہ پرور اور جھوٹ کے پلندے تراشنے والے لوگوں کو آزادی ِ رائے کے نام پر قابل معاف سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔

؟ جب کہ آزادی ِ
رائے کے لئے بھی ہم قابل افسوس دوہرا معیار رکھتے ہیں۔۔۔“ عین اُسی وقت میری نرس نے مجھے کیمو کے لئے بلا لیا اور ہماری بات ختم ہو گئی اور میں کیمو لیتے ہوئے بھی سوچتا رہا کہ مسلم اُمہ کے اندھے ، بہرے حکم راں کل اللہ سبحان و تعالیٰ کے دربار میں کیا مُنہ لے کر جائیں۔کیا وہ محسوس نہیں کرتے کہ مسلم اُمّہ کے خلاف ایک اچھی بھلی سازش تیار کی جا رہی ہے۔

وہ اس سازش کے خلاف کیا حکمت عملی تیار کر رہے ہیں ؟
میں ۱۶ دسمبر کو ، پاکستان کی تاریخ میں وحشیانہ بر بریت کے حوالے سے یوم سیاہ کہوں گا۔ کسی معصوم بچے کو تو ایک چانٹا مارتے ہوئے بھی ایک انسان دس بار سوچتا ہے، جب کہ کچھ درندوں نے ایک سکول پر حملہ کر کے ۱۴۰ بچوں کو موت کی نیند سلا دیا تھاہے۔ اسلام کے ایسے جھوٹے داعیوں کو مسلمان تو کہنا دور کی بات رہی وہ تو انسان کہلائے جانے کے لائق بھی نہیں ہیں اور میں ایسے حکمرانوں کو بھی اسلامی جمہوریہ پاکستا ن کا حکمران ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں جو ایسے مردودوں کو پھانسی دینے کے لئے دوسرے ملکوں کے حکمرانوں کی خوشنودی کو قرآن پاک میں دئے گئے قوانین پر فوقیت دیتے ہیں۔

سانحہ پشاور کے مقابلے میں فرانس کے ایک فتنہ پرور اخبار ، جو کم و بیش1.7بلین مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب بن رہا تھا، پر حملہ ہوتا ہے اور ۱۴ آدمی مار دئے جاتے ہیں۔جن خبیثوں پر ، ایک ایسی عظیم شخصیت کہ جنہیں بے داغ تاریخ محسن انسانیت کے نام سے جانتی ہے، کے صاف شفاف دامن پر کیچڑ اچھالنے کی فتنہ پروری کا کام کر رہے تھے، ایسے خبیث فتنہ پرور وں کے مار دئے جانے پر کم و بیش چھ ملین لوگ پیرس کی سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور چالیس ممالک کے نمائندے بھی اس احتجاج میں شریک ہوتے۔

جو ہم مسلمانوں کے لئے ایک واضح اشارہ ہے کہ ہمیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سانحہ پشاور کے منصوبے کے پس پردہ انڈیا کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے،اُس حملے کے جواب میں ہم لوگوں نے کیا کیا ہے ؟جو ابھی تک صرف منصوبے ہی بنا رہے ہیں۔اگر ہم بھی کوئی بڑا احتجاج کرتے تو شاید دنیا والے ہمارے ساتھ بھی کھڑے ہو جاتے۔ لیکن ہم نے تو آج تک کسی پلیٹ فارم پر خود پر اس حملے کے ماسٹر مائینڈ وں کا نام تک نہیں لیا اور لیں بھی کیوں۔

اس سانحہ پشاور کی وجہ سے تو ہمیں عمران خان کے دھرنے سے چھٹکارہ ملا ہے۔جو ہماری حکومت کے لئے خطرہ بنا ہوا تھا۔
ایک بات یہ بھی سننے میں آ رہی ہے کہ فرانس ،اٹلی ، جرمنی اور ڈنمارک نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخیوں کی مہم کو تیز کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔میں سوچتا ہوں ہمارے ہاں کم و بیش ساٹھ مسلم ممالک ی ”او۔آئی۔سی “ اپنے خلاف اس فتنے کی روک تھام کے لئے کوئی حکمت عملی کیوں تیار نہیں کر رہی ہے؟
ہمیں سب سے پہلے تو ”یو۔

این ۔او“ میں اس فتنے کے خلاف آواز اٹھا کر دنیا کو بتانا چاہئے کہ یہ سب کچھ محض چند پا گلوں کا کھیل نہیں، اس کھیل کی سارا مغرب پشت پناہی کر رہا ہے۔جس کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔حکمرانوں کے تو اپنے اپنے مفادات کے کھیل ہوتے ہیں،مغرب کا ایک عام انسان انتہائی مہذ ب اور انسان دوست ہے۔” یو۔ان۔او “ میں ہماری آوز کی سدائے باز گشت سن کر مغرب کے عوام کی اکثریت پر یقیناً مثبت اوراچھا اثر پڑے گا۔


دوسرے نمبر پر ان چاروں ممالک کی مصنوعات سے بائیکاٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جنہوں نے رسول اللہ /ﷺ کے خلاف اپنی جارحانہ مہم تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔لیکن ہم تو فقط شدت پسندی کے مظاہرے کر کے دنیا پر یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔اِن کے خلاف تم جتنی بھی ریاستی دہشت گردی کر لو تم حق بجانب ہو کہ ہم تمہاری ریاستی دہشت گردی کا بدلہ بھی اپنے
مسلمان بہن بھائیوں سے لیں گے۔لعنت ہے ایسی بد بخت قوم اور اُن کے اندھے بہرے حکمرانوں پر۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :