”لمحہ فکریہ‘‘
منگل 22 جون 2021
یہ ایک واقعہ تھا جس کے ہم چشم دید گواہ ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ فضا عام ہو چکی ہے، کسی بھی شرعی مسئلہ میں کوئی بھی انسان اپنی رائے پیش کرنے میں پیش پیش رہتا ہے، اگر اسے زیر کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ شد و مد سے زبر ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اورکبھی تو کسی نازک مسئلہ پر دڑھلے سے ایسی بات کہہ دی جاتی ہے کہ الامان والحفیظ۔
(جاری ہے)
اور اس سے بھی بڑھ کر افسوس کا مقام یہ ہے کہ عوام کی جانب سے بھی شرعی مسائل کو ان کے ماہر اور وابستہ افراد سے پوچھنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ بس جس انسان کا حلیہ ذرا مولوی ٹائپ دکھے اس سے سوال کر لیا جاتا ہے۔
پچھلے دنوں ایک وکیل صاحب سے ملاقات ہوئی ان کے متعلق سن رکھا تھا کہ وہ مفتی بھی ہیں ، عالم بھی ہیں اور بھی بہت کچھ ہیں۔
خیر جانیں دیں، بات ہو رہی تھی کہ عام طور پر دینی مسائل کے متعلق لوگ پتلی گلی تلاش کرتے ہیں ، جبکہ دوسری طرف مادی مفاد میں معاشرتی پالیسی یہ ہے کہ ہر معاملہ میں حتی الامکان اس کے ماہر انسان کو تلاش کرنے کی جستجو کی جاتی ہے۔ جیسے بطور مثال آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہے تو مختلف ذرائع سے اس کی مہارت کا پتہ لگاتے ہیں ، سند تو اس کے پاس ہے،اس میں تو کوئی شک نہیں، لیکن آپ جو جاننا چاہ رہے ہیں وہ اس کے پیشہ اور فن میں مہارت ہے کہ آیا یہ بندہ صحیح ڈاکٹر بھی ہے یا نہیں ؟ کہیں ایسا نہ ہو کسی کی جان سے کھیل جائے۔
اسی طرح جب آپ کو کسی پراجیکٹ کے لئے انجینئر کی ضرورت پڑتی ہے تو آپ ماہر انجینئر کی تلاش میں کبھی ملکی حدود سے بھی باہر نکل جاتے ہیں، یقینااس قدر تگ و دو اور احتیاط کی وجہ ایک فکر ہے کہ کہیں غیر ماہر انجینئر کے ہاتھوں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں.
اسی طرح اگر آپ کو کسی خاص موقع کے لیے کپڑے سلائی کرانے ہوں تو آپ ماہر درزی تلاش کرتے ہیں۔ کہیں لباس تمسخر کا ذریعہ نہ بن جائے۔لیکن جب بات کسی شرعی مسئلہ کی آتی ہے تو ہم آسان سے آسان رستہ تلاش کرنے میں لگ جاتے ہیں، اسے انٹر نیٹ کے سپرد کر دیتے ہیں، انٹر نیٹ پر موجود مسائل و فتاوی آپ کے مسائل سے مشابہ تو ہو سکتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ آپ کے مسئلہ کا جواب نہیں ہوتا، بعض علماء بھی اس وباء کا شکار دیکھے گئے ہیں۔ اور بعض لوگ تو پوچھنا تک گوارا نہیں کرتے بلکہ اپنااجتہاد چلانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ نہ تو اس پر کوئی بل آتا ہے اور نہ کبھی کسی نے مسئلہ بتانے پر فیس کا مطالبہ کیا ہے۔
انگلش کا ایک مقولہ ہے "practice make perfect" آپ نے سنا ہوگا، مگرVince Lombardi نے ایک قدم اور آگے بڑھا کر کہا کہ . Practice does not make perfect, only perfect practice makes perfect:اسی تناظر میں دیکھا جائے کہ اگر کوئی انسان کچھ مخصوص عرصہ کسی مخصوص درس گاہ یا جامعہ میں گزارتاہے، اور بعد از سند فراغت مخصوص لقب اپنے لیے چن لیتا ہے یا معاشرہ اسے وہ لقب عطا کرتا ہےتویہ ایک الگ بات ہے، لیکن اس سے وہ اس فیلڈ کا ماہر نہین بن سکتا، پھر چاہے وہ کوئی بھی فیلڈ ، شعبہ یا پیشہ ہوا، جب تک کہ وہ اس سے وابستہ رہ کر پرفیکٹ پریکٹس نہیں کرتا، پرفیکٹ نہیں بن سکتا ,وہ اس فیلڈ کی پیچیدگیوں پر مہارت نہیں رکھ سکتا۔
لہذا طریقہ یہ اختیار کیا جائے کہ "لکل فن رجال"(ہر فن کے ماہر لوگ ہوتے ہیں) کے تحت مسئلہ ماہر انسان سے پوچھا جائے۔ کیا یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں کہ ہم مادی مسائل میں انتہائی درجہ کی احتیاط کریں مگر روحانی اور شرعی مسائل کے متعلق سستی کا مظاہرہ کریں؟
جب ہم ایسے مسائل جن کا تعلق دنیاوی اور جسمانی فوائد سے ہے ان میں حد درجہ محتاط رہتے ہیں، تو ایسا کیوں نہیں کہ ہم ان مسائل میں بھی انتہائی درجہ کی احتیاط کریں جن کا تعلق جسم سے بھی ہے روح سے بھی ، جن کا تعلق دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احسن اقبال بن محمد اقبال خان کے کالمز
-
حضرت عمرؓ غیر مسلموں کی نظر میں
بدھ 11 اگست 2021
-
مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندرؒ، ایک عہد جو تمام ہوا
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
آؤ آسمان سر پہ اٹھاتے ہیں
جمعہ 25 جون 2021
-
”لمحہ فکریہ‘‘
منگل 22 جون 2021
-
کڑوے گھونٹ، میٹھی زندگی
پیر 10 مئی 2021
-
”خوشحال زندگی گزارنے کا ہنر“
بدھ 7 اپریل 2021
-
پھانسی ہو، پھانسنا نہ ہو
جمعہ 25 ستمبر 2020
-
سیاسی گٹھ جوڑ سیزن ٹو
بدھ 16 ستمبر 2020
احسن اقبال بن محمد اقبال خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.