
پھانسی ہو، پھانسنا نہ ہو
جمعہ 25 ستمبر 2020

احسن اقبال بن محمد اقبال خان
گزشتہ چند برسوں سےجنسی جرائم کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس درندگی نے انسانیت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ اور انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا کسی درجہ میں کوئی لحاظ نہیں رکھا ۔ اگرچہ اس برائی و جرم کا مرتکب کوئی درندہ صفت انسان ہی ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ جیسا بھی ہو اس معاشرے کا ایک فرد ہی ہوتا ہے جس کی برائی سے اہل معاشرہ کرب و بلا میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
کچھ عرصہ پہلے معصوم زینب اس درندگی کا شکار ہوئی، پورے ملک میں ایک کہرام مچ گیا ، ہر فرد چاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقہ سے ہو اس نے حتی الوسع اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، اسی دباؤ میں آکر حساس ادارے اور تفتیشی مشینری متحرک ہوئی اور 14 دن میں وہ درندہ صفت انسان قانون کے شکنجے میں آگیا، چنانچہ اس وقت کی حکومت نے ایک بڑی پریس کانفرس کر کے عوام کومطلع کیا کہ مجرم پکڑ ا جا چکا ہے ، ایک رخ یہ تھا تو دوسری طرف اس واقعہ نے کتنی ہی معصوم جانوں پر ہونے والے ظلم سے پردہ اٹھا یا جو عوام کی نظروں سے پوشیدہ تھے، اور نہ جانے کب تک رہتے، وہ الگ ہیں، اور ان کے مجرم کہاں ہیں؟ بحیثیت پاکستانی یہ سوال بنتا ہے۔ پھر اس ظالم کے بارے میں عوامی رائے تھی کہ اسے عبرت ناک سزا دی جائے تا کہ دوبارہ کوئی اس درندگی کی ہمت نہ کر سکے ، چنانچہ اس کو پھانسی ہو گئی۔ ہم خوش ہوگئے کامیابی مل گئی،بس کام ختم ہوگیا، لیکن شاید اس بات کو بھلا بیٹھے کہ ابھی تک جتنی بھی تگ ودو کی گئی وہ مجرم کو تلاش میں تھی۔ ابھی اس سے آگے کا مرحلہ باقی تھا کہ جرم کے راستے روکے جاتے، اس جرم کی وجہ تلاش کی جاتی ، اس پر کوئی قابل ذکر کام ہوتا، کسی کو نظر آتا لیکن ہم چپ سادھ کر خواب خرگوش میں کھو جاتے ہیں۔
یہ سب یاد دہانی کے طور پر ذکر کردیا، اب آتے ہیں موٹر وے واقعہ کی طرف۔ اس واقعہ میں ملوث اور بچوں پر جنسی تشدد کرنے والوں میں واحد چیز جو مشترک ہے وہ حیا اور انسانیت کا فقدان ہے۔ چنانچہ ہر طرف ایک دفعہ پھر شور ہے کہ مجرم کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے،ہونی چاہئے۔ لیکن ایک سوال کا جواب دیتے جائیں کہ زینب کیس میں بھی سزا ہوئی تھی، لیکن پھر کیا ہوا؟ اس کے جواب کے طور پر ایک تازہ رپورتاژ (رپورٹ) ملاحظہ فرما لیں، قصور کی زینب کے علاوہ بھی بہت سی ایسی جانیں نظر آئیں گی جن کا قصور محض ان کی معصومیت ہے۔ آپ کو ایسے مظلوم بھی ملیں گے جن کی آوازیں اٹھی ضرور تھی لیکن نا جانے پھر کہاں دب کر رہ گئیں۔
ملک بھر میں غیر سرکاری تنظیم جو جنسی ہراسگی کے متعلق سروے کرتی ہے اس کی حالیہ رپورتاژ کے مطابق سال 2020 کے ابتدائی 6 ماہ (جنوری تا جون) میں کم ازکم 8 بچے یومیہ اس ظلم کا شکار ہوئے ہیں اور مجموعی طور پر 1489 بچوں کو درندگی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ جن میں 785 بچیاں اور 704 بچے شامل ہیں۔ سب سے زیادہ 853 کیس پنجاب میں رپورٹ ہوئے اور اسی طرح بالترتیب سندھ میں 477، خیبر پختون خوا میں 91، اسلام آباد میں 35، بلوچستان 22 ، کشمیر 10 اور گلگت میں ایک کیس رپورٹ ہوا۔2019 کے تقابل میں 2020 کے ابتدائی چھ ماہ میں زیادتی کے کیس کم ہونے چاہیے تھے لیکن ان میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آخر کیوں؟ اس کا جواب اس وقت بالکل واضح ہو جاتا ہے جب ہم یہ سوچ سکیں کہ اتنے واقعات میں سے کتنوں کو سزا ہوئی ؟اور کون سے چوراہے پر کس مجرم کو لٹکایا گیا؟ اگر آپ نے بھی انگلیوں پہ گنتی شروع کر ڈالی ہے تو چھوڑ دیجئے، بڑوں سے سنا ہے جس کام کوئی فائدہ نہ ہو اس میں مغز کھپانا بڑی غفلت کی بات ہے۔
اس لئے حالیہ واقعہ کے مجرم کی سزا پر ہی بات ختم کرنا تعاون علی المعصیہ کے زمرے میں نہیں آئے گا تو کہاں جائے گا۔ظلم کرنے والے چند ایک مجرموں کو پھانسی دے کر قوم کو اپنے اس چنگل میں پھانسنا کہ تمام معاملات صرف اسی سے سدھر جائیں گےتو کیا واقعی مجرم رک جائے گا؟ اور اگر یہی خیال ہے تو پھر”ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘۔مجرم کا تعاقب کرنا اور وہ بھی تب جب تک افراتفری نہ ہوتو یقین مانیے رواں برس چھ ماہ کی تازہ رپورٹ اگر آنکھیں ہوں تو کھولنےکو کافی ہے۔ وقتی شور وغوغا کو روکنے کے لئے کچھ بھی کیا جائے لیکن اس کا مستقل حل ہی امن کی راہیں ہموار کر سکتا ہے۔ اور جب تک کڑی سزاؤں کا طلاق کلی طور پر نہیں ہوگا، اور جرم کے سد باب کے لئے کوئی سنجیدہ قدم اٹھائی دیتا دکھائی نہیں دے گا تب تک کوئی مجرم تو کسی نہ کسی دن شکنجے میں آسکتا ہے ، لیکن اس جرم کی جڑ باقی رہے گی، کچھ ہی عرصے بعد وہ جرم دوبارہ سر اٹھا کر پوری امت کا سر شرم سے جھکا دے گا۔اس لئے اگر حالیہ واقعہ کے مجرم کو پھانسی کی سزا ہو بھی جائے تو ایک دفعہ پھر غور کیجئے گا کہ کہیں پھانسنے کا کوئی ٹوٹکہ نہ ہو۔ اگر فی الفور اس بات کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے تو آنے والے دن اس کے حقیقی روپ سےپردہ ضرور اٹھائیں گے۔فانتظروا انّی معکم من المنتظرین۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
احسن اقبال بن محمد اقبال خان کے کالمز
-
حضرت عمرؓ غیر مسلموں کی نظر میں
بدھ 11 اگست 2021
-
مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندرؒ، ایک عہد جو تمام ہوا
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
آؤ آسمان سر پہ اٹھاتے ہیں
جمعہ 25 جون 2021
-
”لمحہ فکریہ‘‘
منگل 22 جون 2021
-
کڑوے گھونٹ، میٹھی زندگی
پیر 10 مئی 2021
-
”خوشحال زندگی گزارنے کا ہنر“
بدھ 7 اپریل 2021
-
پھانسی ہو، پھانسنا نہ ہو
جمعہ 25 ستمبر 2020
-
سیاسی گٹھ جوڑ سیزن ٹو
بدھ 16 ستمبر 2020
احسن اقبال بن محمد اقبال خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.