شہزادی کی شا دی

پیر 26 فروری 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

آج کل شہزادی کی شا دی ذرائع ابلا غ کا یہاں محبو ب مو ضو ع بنا ہوا ہے ۔ یہ وضا حت از بس ضروری ہے کہ شہزادی کی شا دی سے میری مراد بشری بی بی کی تحریک انصا ف کے چیئر مین اور سا بق کر کٹر عمران خان سے شا دی نہیں ہے ۔ روئے سخن جا پان کے شہنشاہ معظم اکی ہیتوکی بڑی پو تی شہزادی ماکو کی طرف ہے۔جو کہ ایک عامی جا پانی لڑکے سے شادی کا ارادہ رکھتی ہیں، شاہی محل کے قانون و روایت کی رو سے شہزادی کو اس شا دی کی پاداش میں شاہی خاندان سے بے دخل کر دیا جا ئے گا، چونکہ شاہی قوانین کے مطا بق اہل قصر فقط شاہی خاندان کے افراد کے سا تھ ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہو سکتے ہیں ۔

اگر شاہی خاندان کا کو ئی فرد عام آدمی سے شا دی کر لے تو اسے شاہی خاندان سے با ضا بطہ طور پر نکال دیا جا تا ہے ۔

(جاری ہے)

چونکہ ان دنوں پاکستان کی فضا ایسی بنی ہو ئی ہے ، جیسی کرکٹ کے بخار میں مبتلا ایام ہیں ، آپ کسی سے اس کا حال ، احوال پو چھیں تو جواب میں کر کٹ میچ کا تا رہ ترین سکو ر بو رڈ بتا تا ہے ، ستر رنز پر آؤٹ ہو گئے ہیں،” کوئی حال نہیں“بالکل ویسے ہی آج کل شا دی ، بیا ہ، نکا ح کا ذکر کریں تو با ت عمران خان کی بشری بی بی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو نے کے واقعے کی جانب رخ مو ڑ لیتی ہے ۔


شاہی محل کے شعبہ اطلا عا ت و نشریا ت تا زہ خبر اس با بت یہ جا ری کی ہے کہ شہزادی ماکو کی شادی ملتوی کر دی گئی ہے۔ تمام قومی و مقامی اخبارات کے صفحہ اول پر چیختی ، چنگھا ڑتی شہ سرخیا ں بتا تی ہیں کہ ولی عہد سلطنت کی بیٹی ماکوکی مجو زہ شا دی اب 2020 میں ہو گی، اس التوا کی وجہ شہزادی سے منسوب یہ بیا ن ہے کہ موجودہ صبر میں تجویز کر دہ تا ریخ پر شا دی کے لیے ا بھی تک منا سب تیا ری نہیں ہوسکی تھی۔

اب وقت چونکہ کم رہ گیا ہے اور اس مختصر وقت میں انتظاما ت کر نا ممکن نہیں ہوسکے گا ۔ ان دو لا ئنوں کے بیان پر میڈیا میں ہلچل مچی ہو ئی ہے
چند با تیں اس با بت قابل ذکر ہیں ۔ ایک تو یہ کہ شاہی خاندان سے متعلق میڈیا میں خبر کا عمو ما فقط ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ شاہی محل کا شعبہ اطلا عات ہے ، بہت ہی کم ایسا ہو تا ہے کہ شاہی خاندان کے کسی فرد یا واقعے کے متعلق کوئی خبرکسی دیگر ذریعے سے اخبارات یاٹیلی ویژن کی زینت بنے۔

خبر کے الفا ظ اور ان کی ترتیب تک تمام میڈیا میں ایک جیسی ہو تی ہے ۔ اس احتیا ط پسندی کی وجہ ابلا غیات کو لا حق کو ئی خو ف یا احساس ذمہ داری نہیں بلکہ با دشاہ کا احترام ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک جا پان کے شہنشاہ کو جاپانی قوم خدا کا اوتا ر مانتی تھی، اور اس کی با قا عدہ پو جا کی جا تی تھی۔ جنگ عظیم میں جب امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے اور جا پان شکست کھا گیا، تو اس ہز یمت کے بعد با دشاہ ہیرو ہیتو نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا ، شکست کو کھلے الفا ظ میں تسلیم کیااور اعلان کیا کہ اس دن کے بعد وہ ایک عام انسان ہیں، خدا یا اس کے نائب نہیں ہیں۔

شہنشاہ کے لیے جا پا نی جو لفظ استعمال کر تے ہیں وہ ”تھن نو “ ہے جس کا مطلب ”خدا جیسا “ یا پھر ”بھگوان سمان “ ہے ۔ اب با دشاہ کی پر ستش نہیں ہو تی ، چونکہ اس نے خو د ہی اعلان کر دیا کہ وہ لا ئق عبا دت نہیں ہے مگر اب بھی اسے بے حد مذہبی تقدس حا صل ہے ۔ عام جا پانی لو گو ں کو مرنے کے بعد ہندؤں اور سکھوں کی طرح بدھ مت اور شنتو عقیدے کے مطا بق جلا دیا جا تا ہے ، مگر شہنشاہ کی میت کو مسلما نو ں ، عیسائیوں اور یہودیوں کی طرح دفن کیا جا تا ہے ۔


مذہبی تقدس اور با دشا ہت کا یوں تو چولی دامن کا سا تھ ہے مگر جا پان کے سرکاری مذہب شنتو ازم کا تو مدار المہا م ہی شہنشا ہ معظم کی ذات تقدس ہے ۔ کبھی کبھی میں سو چتا ہو ں کہ مذہبی طبقے اور حکمرانوں کی با ہمی قربت کی وجہ آخر کیا ہے ؟ مشرق کو تو چھو ڑیے ،
مغر ب کے دل اور جدید جمہو ریت کی با نی ریا ست برطا نیہ کی ملکہ عا لیہ کے تا ج پر صلیب کا نشان بنا ہے اور” Defender of faith “ یعنی ایمان کی محا فظہ لکھا ہوا ہے ۔

پو رے یو رپ میں جہا ں جہاں شاہی محل ہو گا، اس کے سامنے یا پھر برابر میں اتنا ہی پر شکوہ کلیسا ہو گا ، بر سبیل تذکرہ شاہی قلعے کے سامنے با دشاہی مسجد کی شان و شوکت بھی اسی رابطہ کی عکا سی کر تی ہے ۔ جنرل ضیا ء الحق کے دور حکومت میں ہم نے بارہا سنا ہے کہ ”اول الا مرمنکم“ کی اطا عت سے متعلق جو قرآنی آیات ہیں وہ ہما رے حکمرانوں کی اللہ اور رسول کے بعد اطا عت کر نے کی فرضیت کا حکم ہیں شاید اسی تنا ظر میں انقلابی شا عر فیض احمد فیض# نے کہا تھاکہ
ہر ایک اول الا مر کو صدادو کہ اپنی فرد عمل سنبھا لے
اٹھے گا جب جمع سرفروشاں پڑیں گے دارواسن کے لالے
دلچسپ با ت ہے کہ جب جاپان اپنے ہمسایہ ممالک کو گزشتہ صدی کی ابتدا میں ان پر جنگ مسلط کر کے اپنی نو آبادی بنا رہا تھا ، تب بھی اپنے اس عسکر یت پسند جا رہا نہ عمل کی تو جیح شہنشاہ معظم کے لیے کشور کشا ئی ہی تھی ۔

فوجی مراسلوں اور ڈائریوں سے پتا چلتا ہے کہ سپاہی اپنے با دشاہ کی خو شنودی کے لیے سلطنت کو تو سیع دیتا چا ہتے تھے۔ اس تو سیع پسندی کا انجام اچھا نہ ہوا ، با قی سب تا ریخ ہے ۔ شاہی محل کے ما حول اور عوام النا س میں اس کی تکریم میں ذرا برابرفر ق نہیں آیا ۔ اپنے طویل قیام کے دوران میں نے کسی جاپانی کے منہ سے شاہی خاندان کے متعلق تنقید کا یک لفظ نہیں سنا، میں نے ہی کیا آج تک میں کسی ایسے آدمی سے زندگی میں نہیں ملا جس نے کبھی کسی جا پانی کے منہ سے قصرِ شاہی کے متعلق نا زیبا یاناگوار با ت سنی ہو ۔

با ت ہو رہی تھی شہزادی ماکو کی شا دی کے متعلق ، شہزادی اور اس کے محبوب کی عمریں 26 سال ہیں ، دونوں یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھتے تھے، وہا ں پر ہی دونو ں کی محبت پروان چڑھی ۔ لڑکا وکیل بن گیا ہے اوریو کو ہا ما میں اپنے والدین کے سا تھ رہتا ہے ۔پروگرام تو یہ تھا کہ اسی برس چا ر ما رچ کو دو نو ں کی منگنی ہو گی اور نو مبر میں شہزادی
محلو ں کو لا ت ماکر ایک عام لڑکے سے شا دی کر کے عا میوں کے درمیان زندگی گزارنے لگے گی ، مگر شہزادی محلو ں کو لات ما رکر ایک عام لڑکے سے شا دی کر کے عا سیوں کے درمیان زندگی گزارنے لگے گی ، مگرشہزادی سے منسوب اس بیا ن نے اخبا ر نو یسوں کے کان کھڑے کر دیے ہیں کہ اتنی جلدی بیا ہ کے انتظا ما ت ہو نا ممکن نہیں لہذا اولمپک اورشہزادی کی شا دی جا پانی ایک سا تھ یعنی 2020 میں دیکھیں گے ۔

کچھ وہمی قسم کے لو گ سمجھتے ہیں کہ بھی یہ بیل میڈھے نہیں چڑھے گی ، ضرور کو ئی گڑ بڑ ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ رشتہ ٹو ٹ جا ئے ۔ وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پا س بھی نہیں تھا۔ سیدھی سی با ت ہے کہ شہزادی کی شا دی ہے ۔ دھو م دھا م سے ہو گی ۔ پوری دنیا سے
مشا ہیر آئیں گے ۔ اب ایسے بڑے منڈل کو سجا نے کے لیے وقت تو لگتاہی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :