میاں میررحمہ اللہ علیہ کاعرس اورحساس تقرری

جمعرات 21 اکتوبر 2021

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے میں مدفون مغل شہزادے داراشکوہ کی پرورش مستقبل کے بادشاہ کے طورپرکی گئی تھی ۔شاہ جہاں نے کم سنی میں ہی اسے ولی عہد نامزدکردیاتھا۔مغلیہ سلطنت تو قائم رہی مگرتصوف اورفنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والایہ نفیس شہزادہ کبھی ہندوستان کا حکمران نہیں بن پایا۔لاہور سے اسے خاص الفت تھی۔وہ اس شہر میں حضرت میاں میررحمہ اللہ علیہ کے کاشانے سے خصوصی لگاؤ اور عقیدت رکھتا تھا۔

ایک دن داراشکوہ جو کہ شاعر بھی تھا،اس نے حضرت بابا میاں میررحمہ اللہ علیہسے یہ سوال پوچھا
گرمن منم، خلاف من چرا؟
گرمن نیستم، چہ تقصیر ماست؟
جبروقدرکے تاریخی مسئلے کے بارے میں انسان کی مجبوری اورمختاری کا سوال داراشکوہ نے بالکل ایک نئے اندازمیں صوفی بزرگ کے سامنے پیش کیاتھا۔

(جاری ہے)

یعنی اگرمیں بااختیار ہوں تو میرے گردوپیش ظہورپذیرہونے والے واقعات،میرے جسم کے اندربے شمارعوامل میری مرضی اور منشاء کے بغیراور خلاف کیوں وقوع پذیرہو رہے ہیں۔

مثال کے طور پر ہم اپنی سانس روکنا چاہیں توچندسیکنڈ،منٹ سے زیادہ نہیں روک پاتے ہیں،دل کی دھڑکن ہمارے بس میں نہیں۔نہ تو اپنے جسم پرہماراپورا کنٹرول ہے اور نہ ہی ہمارے حالات ہماری مرضی کے تابع ہیں۔اگر میں خودمختارہوں تویہ سب کچھ میری خواہش کے خلاف کیوں وقوع پذیرہو رہاہے؟
بصورت دیگر،اگرمیں مجبور محض ہوں،میراکوئی اختیارہی نہیں ہے،کوئی ہستی اورحیثیت ہی نہیں میری،سب لوح ازل پر لکھ دیا گیا ہے،میرے چاہنے یا نہ چاہنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا،تو پھر روز محشرحساب کس چیز کا ہوگا؟میری لغزشوں پرپکڑ کرنے کا کیا جواز ہے؟میری غلطی کیا ہے؟میں کیسے مجرم ٹھہرایا جا سکتا ہوں اگر میں تقدیر کے جبرکے سامنے مجبور محض ہوں؟
حضرت میاں میررحمہ اللہ علیہنے جو جواب دیاشائد وہ بہت سے دوستوں کو پسند نہ آئے،فرمایا!حلوہ ایک اچھی غذاہے مگرشیرخوار بچے کے لئے مضرہے۔

ان رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک شائد داراشکوہ اس اسرار کو جاننے کے لئے ذہنی طورپر ابھی پختہ و تیار نہیں تھا۔کچھ تربیت ابھی باقی تھی۔تصوف اور راہ سلوک میں غالباًاس کی مثال ابھی شیر خواربچے کی سی تھی۔جوسوال اس نے کیا تھا،شائد اس کا درست جواب ہضم کرنے کی اس میں سکت ابھی نہیں تھی۔حالانکہ داراشکوہ کی حضرت بابا میاں میررحمہ اللہ علیہ سے عقیدت کا عالم یہ تھا کہ ان کے مزار کی تعمیرکے لئے وہ سرخ پتھرلاہورمنگوایاجوکہ اب بادشاہی مسجد میں لگا ہواہے۔

جس سگے بھائی اورنگزیب عالمگیرنے تخت کے حصول کے لئے داراشکوہ جیسے بھائی کو قتل کروادیاوہ بھلااس مرنے والے کی خواہشات اورعقیدتوں کا احترام کیسے کرسکتاتھا۔اسی لئے بادشاہی مسجدلاہور میں وہ پتھرلگوادیاگیا۔ویسے تو امرتسرکے گولڈن ٹیمپل کی بنیادبھی سکھ گروکی خواہش پر سائیں میاں میررحمہ اللہ علیہنے ہی رکھی تھی جو کہ سکھوں کا سب سے مقدس استھان ہے مگر اس موضوع پر پھر کبھی بات کریں گے۔


راہ سلوک کے مسافروں اورعسکری موضوعات کا براہ راست تعلق تو زیادہ نہیں بنتا،مگرجتنے دنوں سے فوج کے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا موضوع میڈیامیں زیر بحث ہے،مجھے میاں میررحمہ اللہ علیہکا مغل ولی عہدداراشکوہ کو دیا گیا جواب بارباریاد آ رہا ہے۔کہ ہر بات ہر شخص کے لئے نہیں ہوتی۔اس کی ایک وجہ شایدیہ بھی ہے کہ اس بارحضرت میاں میررحمہ اللہ علیہ کے سالانہ عرس اورعساکرمیں مذکورہ تقرریوں اورتبادلوں کا وقت چونکہ ایک ہے۔

خداکے ولی کی حکمت سے بھرپوربات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بات کرتے ہوئے مخاطب کا ہاضمہ اورجذب کی قوت کا بھی خیال رکھنا چاہئیے ،جب حساس موضوعات پر بات کی جائے ۔ایک خالصتاً فوج کا اندرونی معاملہ عوامی گفتگواورذرائع ابلاغ کے تجزیوں تبصروں کاموضوع نہیں بنناچاہئیے تھا۔حکومت نے اس حساس تقرری اورتبادلے کو جس غیر سنجیدگی سے طے کرنے کی کوشش کی ہے وہ کسی طورپربھی پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔

کوئی ایک بھی روشن پہلواس حکومتی طرز عمل کے نتیجے میں اس معاملے میں نظرنہیں آیا۔یہ کہنا بالکل بھی درست نہیں ہے کہ اس افسوسناک صورتحال میں میڈیاکا کوئی قصوراور کردار ہے۔مین اسٹریم میڈیانے تو بہت دیر بعد اس موضوع پر بات کرنا شروع کی ہے،اس حساس معاملے کو عوامی بحث کاموضوع توخود حکومت نے بنایاہے،جوکہ بالکل غلط طرز عمل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :