مائی بیگ چیلنج

منگل 14 جولائی 2020

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

رواں ماہ کے آغاز کے ساتھ ہی جاپان میں ایک نیاقانون نافذالعمل ہو گیا ہے۔اس نئے ضابطے کے مطابق سودا سلف یا کسی بھی چیز کی خریداری کے ساتھ بلا معاوضہ دیاجانے والاپلاسٹک شاپنگ بیگ اب مفت نہیں دیا جائے گا۔ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لئے دیگرمہذب ممالک کی طرح جاپان کی حکومت بھی گاہے بگاہے اقدامات کرتی رہتی ہے۔تازہ ترین اقدام جو یکم جولائی سے عملی طورپرپورے ملک میں نافذہو چکا ہے،اس کے تحت اب کسی بھی دکان یا سٹور سے جب خریداری کرکے معاوضہ اداکردئیے ہیں تو اس وقت خصوصی طور پرآپ سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ کو پلاسٹک شاپنگ بیگ درکار ہے ؟اس کی قیمت آپ کو الگ ادا کرنی پڑے گی،کیا آپ کو یہ بات معلوم ہے؟اس پنچائیت نما مکالمے کا مقصد پانچ ،دس روپے کی اہمیت اجاگرکرنا نہیں ہوتاجوکہ اب الگ سے اداکرنی پڑتی ہے۔

(جاری ہے)

اس کا مقصد یہ احساس دلاناہے کہ پلاسٹک شاپنگ بیگ کا استعمال بری عادت ہے ۔کیاآپ مجبور ہیں کہ ضروری طور پر اسے استعمال کرناناگزیر سمجھتے ہیں؟
فروخت شدہ سامان کی قیمت وصول کرنے کے بعد سوال وجواب کا مطلب ہے کہ آپ شاپر کا کوئی متبادل اختیار کرلیں توبہترہوگا۔ادائیگی کے کاؤنٹرکے ساتھ ہی کپڑے اور دیگرماحول دوست مواد سے تیارکردہ بیگ فروخت کرنے کے لئے دستیاب ہیں،جنہیں بارباراستعمال کیا جاسکتاہے ۔

جاپان میں ر بع صدی یونیورسٹی کے شعبہ اردومیں تدریس کے فرائض سرانجام دینے والے ہمارے ادیب دوست تبسم کاشمیری کامانناہے کہ جاپانیوں کے باطن کو سمجھنابہت ہی مشکل ہے ۔ایک ذاتی واقعے سے شائد میں اپنی بات کی وضاحت کرسکوں کہ اشاروں ،کنایوں کی اس سماج میں کیااہمیت ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ جاپان میں میری آمدسے پیشترہی بڑے بھائی جان نے میری رہائش کا انتظام کردیا تھا۔

ٹوکیوسے دور یہ گھرکافی بڑاتھا۔اور میرے دفتر کے قریب بھی تھا۔مکان کے سامنے چھوٹا سا باغیچہ بھی تھا،جس میں چند درخت اور مختلف طرح کے پودے لگے ہوئے تھے۔میں کاروباری مصروفیات میں الجھ گیااور اس لان کے پیڑ،پودے اپنی رفتارسے بڑھتے بڑھتے کافی بڑھ گئے۔ایک دن دفتر سے واپس آکریہ حسین منظر دیکھاکہ میرے باغیچے کے تمام پیڑ ،پودوں کی احسن انداز میں تراش خراش ہوچکی ہے۔

میں نے سمجھاکہ شائد یہاں کی بلدیہ یامقامی حکومت باغیچوں کے بیل بوٹوں کی تراش خراش کا کام کرتی ہوگی۔ان دنوں چونکہ نیا نیا جاپان آیا تھااور سو طرح کے بکھیڑوں میں الجھاہواتھااسلئے گھر کے آنگن اورروش کے پیڑ پودوں کے حسن کی داددیکرانہیں بھی فراموش کردیا۔وقت گزرا اوبہارکے دن آگئے۔بہت تیزی سے بڑھتے ہوئے بے ہنگم سبزے کوایک شام پھربڑے قرینے سے تراشاہواخوبصورت ترتیب میں دیکھا تو جی بہت خوش ہوا۔

میں اس حسین منظر سے لطف اندوزہوہی رہا تھا کہ میری ہمسائی بڑھیاآن ٹپکی ۔میں نے جاپانی اندازمیں جھک کراسے سلام کیامگر بڑھیابغیر لمبی تمہید کے مجھ سے کہنے لگی ک میں نے اس بار بھی تمہارا لان تراش کر ٹھیک کردیا ہے،مگر اگلی بار تمہیں یہ کام خودکرنا ہوگا۔
سمندروں،دریاؤں اور جنگلوں میں پلاسٹک بیگ کی وجہ سے جو آلودگی پھیل رہی ہے اس سے قدرتی مناظرکا حسن نہ صرف گہنارہاہے بلکہ آبی جانوروں کی زندگی بھی خطرے سے دوچارہورہی ہے ۔

قومی سطح پر یہاں گرچہ نوے ٹن پلاسٹک فضلے میں شاپر کا حصہ بہت تھوڑاہے مگرالمیہ یہ ہے کہ یہ صرف ایک ہی مرتبہ استعمال ہوتاہے اوراپنے وزن سے زیادہ آلودگی پھیلانے کاموجب ہے۔کہیں آبی بہاؤمیں رکاوٹ کاسبب ہے توکہیں مچھلیاں اس کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہی ہیں۔
یہاں تک تو ہم نے حکومتی اقدام اوراس کی عملداری کا ذکر کیا ہے۔اب ذرا سماج اورمیڈیا میں اس اقدام پر ردعمل کا جائزہ لیتے ہیں۔

جہاں تک قیمتاًپلاسٹک بیگ الگ طورپر خریدنے کا تعلق ہے ،وہ تو عوام کی کسی حد تک مجبوری بھی کہی جاسکتی ہے،چونکہ یہاں جو بھی ،جیسا بھی قانون بن جائے ۔اس کی صد فیصد عملداری یقینی ہوتی ہے۔عوامی ردعمل جو میڈیاکے ذریعے سامنے آیا ہے وہ بڑا دلچسپ ہے۔آج کل ریڈیو،ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیاپر لوگوں نے”مائی بیگ چیلنج“کے نام سے ایک زبردست سلسلے کا آغاز کیا ہے۔

اس ”ذاتی تھیلا چنوتی“کی تفسیر یوں ہے کہ اب لوگ پلاسٹک بیگ کی جگہ کپڑے یا پھر کسی ماحول دوست میٹریل سے بنائے گئے باربار استعمال کے قابل تھیلے کا استعمال کرنے لگے ہیں۔اسی طرح کے تھیلے معاشرے میں فروغ پا جائیں،اس مقصد کے تحت”مائی بیگ چیلنج“میں ہر کوئی اپنا تھیلا دکھا رہا ہے۔جس میں وہ اب گھر کا سودا سلف اوردوسراضروری سامان بازار سے کرآرہاہے۔

روزانہ کئی کئی گھنٹوں کی نشریات اس’ ’ذاتی تھیلا چنوتی“کے لئے مخصوص ہیں۔سیلیبریٹزاورمشاہیراپنااپناسودا ڈھونے کا تھیلا دکھارہے ہیں۔کچھ خود اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ تھیلوں کی تشہیرکررہے ہیں۔کہیں کہیں یہ ”میراتھیلا چیلنج “یوں نظرآتاہے،جیسے ”میراتھیلامیری مرضی“یوں ماحولیاتی تحفظ کے لئے پلاسٹک شاپرسے چھٹکارے کے لئے اس کی اہمیت وافادیت اجاگرکررہے ہیں۔


جن دنوں میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کررہا تھا تو وہاں ماحولیاتی تحفظ کے لئے ایک متحرک انوارنمنٹ پروٹیکشن سوسائٹی ہواکرتی تھی،جس کا میں سیکرٹری تھا۔اس تنظیم سے وابستگی کے سبب ہی شائد میں آج کاکالم تحریرکررہاہوں۔ایسی تنظیمیں تمام تعلیمی اداروں میں بننی چاہئیں تاکہ ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے متعلق طلباء کوشعوروآگہی بخشی جائے ۔

جس سے وہ آئندہ زندگی میں اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔ریاست کے علاوہ میڈیا کا بھی یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ معاشرے کے مستقبل کو مدنظررکھتے ہوئے عوامی شعور اجاگر کرنے کی اس بابت مہم چلائیں۔
میرے خیال میں ہمیں اس دن کا انتظار نہیں کرنا چاہئیے جب آلودگی کے سبب فضاء میں سانس لینابھی انسانوں کے لئے ناممکن ہو جائے کسی بڑی تباہی اور المیے کے جنم لینے سے پہلے ہی ہمیں اس زمین کی فضاکو آلودہ کرنا بند کردیناچاہیئے اوراپنے مسکن کو مزیدنقصان نہیں پہنچاناچاہئیے۔افریقی کہاوت ہے کہ یہ زمین ہمیں اپنے اجداد سے ورثے میں نہیں ملی بلکہ ہمارے بچوں کی ہمارے پاس ایک امانت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :