
خطے کی صورت حال اور نیا سال
منگل 6 جنوری 2015

بادشاہ خان
ایساف نے افغانستان کی سکیورٹی افغان فورسز کے حوالے کی، تقریب ایک جمنیزیئم میں خاموشی سے منعقد ہوئی۔ نیٹو مشن کا جھنڈا افغانستان اور نیٹو کے اعلیٰ فوجی افسران کی موجودگی میں اتارا گیایکم جنوری سے افغانستان میں نیٹو اور اس کے اتحادی ممالک کا کردار افغان افواج کی تربیت اور مدد تک محدود ہو جائے گا۔
(جاری ہے)
اپنے امن مشن کو باضابط طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد تیرہ ہزار امریکی فوجی افغان فوجیوں کی تربیت اور معاونت کے لیے دو سال کے عرصے کے لیے افغانستان میں رہیں گے ۔
ان میں چند ہزار امریکی فوجی ایسے ہوں گے جن کا مقصد انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لینا ہو گا۔دوسری جانب افغان طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف فتح کا اعلان کرنے کے بعد ملک سے باقی ماندہ غیر ملکی فوجیوں کو نکالنے کے بعد شرعی نفاذ کرنے کا عزم کیا ہے۔
افغانستان خطے میں ایسے ملک کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ جس کی ضرورت ہر ملک کو پہلے سے بڑھ کر ہے،جس کی کئی وجوہات ہیں اس کے ایک طرف وسطی ایشیاء کی مسلم ریاستیں ہیں جو معدنیات سے مالامال ہیں دوسری طرف پاکستان اور تیسری طرف ایران ہے ۔خود افغانستان میں اس وقت سونے ،تانبے اور فولاد کے محفوظ ذخائر بڑی مقدار میں موجود ہیں جبکہ تیل وگیس بھی موجود ہے۔
ساتھ اسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے نہیں جارہا صرف فوج کی تعداد میں کمی کی جارہی ہے۔اس عالمی ایجنڈے کی نشاندہی کرتا ہے کہ جس کا انجام اس ریجن میں تاحال نہی ہوا،اس کے تکمیل کے لئے نئے اتحاد بن چکے ہیں۔دوسری طرف پاکستان کو مطمئن کیا جارہا ہے اور اسے بین الاقوامی طاقتیں لولی پاپ دے رہی ہیں کہ وہ اس صورت حال پر خاموش رہے کابل اس کے خلاف استعمال نہیں ہوگا اور کسی ملک میں مداخلت نہ کرے،پاکستان میں کئی ادارے و افراد اس پروپیگنڈے و بیرونی ایجنڈے پر کا م کررہیں ۔جن کے آئے روز فرمودات سامنے آتے ہیں ہمیں پڑوسیوں کے معاملات میں مداخلت نہی کرنی چاہی ہے حکومت اپنی خارجہ پالیسی بدلے وغیرہ وغیرہ۔جبکہ اس بات سے نظریں چرائیں جارہی ہیں کہ ہندوستان کابل ،خوست،کنڑ و قندہار سے دہشت گروں کے بعد اب پاکستانی مارکیٹوں جعلی پاکستانی کرنسی پھیلا رہا ہے یہ جعلی پاکستانی کرنسی جو کہ انڈیا کے پرنٹنگ پریسوں میں چھاپی گئی ہے تیزی سے پھیلی جارہی ہے جس کامقصد پاکستانی معیشت کو تباہ کرناہے۔
تقریباً ایک دہائی قبل شروع کی گئی نیٹو کی طویل المدت اور مہنگی لڑائی کی باوجود طالبان نہ صرف خاصے سرگرم ہیں بلکہ حالیہ مہینوں میں ان کی قوت اور حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے ۔افغان مشن کے آغاز سے اختتام تک افغانستان میں ہزاروں غیر ملکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
تیرہ برس جاری رہنے والی جنگ کے عروج کے دنوں میں پچاس سے زیادہ ملکوں کے ایک لاکھ تیس ہزار فوجی افغانستان میں موجود تھے
افغانستان میں رہ جانے والی فوجوں کی کمان کرنے والے جنرل جان کیمپبل نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انھیں مکمل اعمتاد ہے کہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز افغانستان کو شام اور عراق کی طرح داعش جیسے گروپوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ عراق نہیں ہے اور ان کے پاس فوج ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ داعش افغانستان میں آ سکتی ہے جیسے وہ عراق میں آ گئی۔ افغانستان سکیورٹی فورسز ایسا نہیں ہونے دیں گی۔
مگر حقیقت اس طرح نہیں ہے جس طرح کہا جارہا ہے ،امریکہ و اس کے اتحادی افغانستان کو عراق کی طرح تقسیم کرنے کے منصوبہ بندی کرچکے ہیں اور افغانستان کو قومی و لسانیات کے فارمولے پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں جس طرح ماضی میں عرب ممالک کو ترکی کے خلاف کھڑا کیا گیا،کہ یہ عجمی تم پر حکمران ہیں تم تو عرب ہو اور اسلام میں تمیں فوقیت حاصل ہے،وغیرہ وغیرہ، اسی طرح افغانستان میں پختون،کو ازبک،تاجک سے لڑئے جانے کا امکان ہے۔تین سالہ منصوبے میں یہ شامل ہے کہ پہلے مرحلے میں افغانستان کی کٹھ پتلی حکمرانوں کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ وہ کئی برسوں تک طالبان سے لڑسکیں جس سے افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی میں تبدیل ہوجائے افغانستان ایک بار پھر ازبک و پختون کیمپ میں بٹ جائے ،اس طرح امریکہ و اتحادیوں کے مفادات کا تحفظ آسان ہوجائے گا، کیونکہ انڈیا و ایران نے ان علاقوں میں بڑے معاہدے کئے ہیں جوشمالی اتحاد کے زیر قبضہ تھے جو ماضی میں بھی طالبان کے مخالف تھے اب بھی ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پہلی خواہش ہے کہ نئے راونڈ میں طالبان کا کردار نہ ہو بلکہ افغانستان کو نسلی بنیاد پر پختون و شمالی اتحاد میں تقسیم ہوکر ابھرے،جس سے براہ راست انڈیا کو فائدہ ہوگا،انڈیا نے بامیان ،کاپیسا،پروان اور ان علاقوں میں فولاد سیمت کئی شعبوں میں معاہدے کئے ہیں ان علاقوں میں شمالی اتحاد کا اثررسوخ ہے۔
ماضی قریب میں ناقدین طالبان کے خلاف افغان سکیورٹی فورسز کی تنظیم اور ان کے حوصلوں کے بارے میں سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال 4600 افغان سکیورٹی فورس کے اہلکار ہلاک ہو گئے تھے ۔
جبکہ افغان صدر اشرف غنی کا تازہ بیان سامنے آیا ہے کہ دو سال میں افغانستان سے آخری امریکی فوجی کو بھی نکال لینے کی مدت پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ،ڈیڈ لائن عقیدہ نہیں ہوتیں۔امریکی صدر براک اوباما نے سنہ 2016 کے آخری میں تمام امریکی فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلا لینے کا وعدہ کر رکھا ہے اور اس دوران افغانستان اپنی سکیورٹی کی ذمہ داریاں خود پوری کرنے لگے گا۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ افغانستان کے حکمران افراد عبداللہ عبداللہ اور صدر اشرف غنی جن میں اب تک وزارتوں پر اتفاق نہیں ہوسکا کیا وہ افغانستان میں غیر ملکی اثر رسوخ ختم کر سکے گے؟ کیا ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ افغان طالبان کا راستہ روک سکتے ہیں؟ کیونکہ پاکستان سمیت کئی ممالک اس صورت حال سے براہراست متاثر ہیں،سب سرگرم ہیں بس ہم ہیں کہ خان کی طرف دیکھ رہے ہیں،پشتو میں محاورہ ہے کہ میں خان کی طرف دیکھ رہا تھا اور خان آسمان کی طرف سمجھنے کے لئے اشارہ کافی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
بادشاہ خان کے کالمز
-
معلومات کے حصول کے حق کا تحقیقاتی صحافت میں استعمال
جمعرات 17 مارچ 2016
-
تقسیم در تقسیم دنیا کا مستقبل
جمعہ 18 دسمبر 2015
-
مشرق وسطی کی جغرافیائی توڑ پھوڑ
جمعرات 5 نومبر 2015
-
وزیراعظم کا دورہ امریکہ اور ڈاکٹر عافیہ
بدھ 28 اکتوبر 2015
-
راکھ کے نیچے آگ کی چنگاریاں
ہفتہ 24 اکتوبر 2015
-
فلسطین سے کشمیر تک مغرب کا دہرا معیار
جمعہ 16 اکتوبر 2015
-
مسلم ممالک پر سپرپاورز کی بمباریاں
جمعرات 8 اکتوبر 2015
-
سانحہ منیٰ اور اس کے اثرات
بدھ 30 ستمبر 2015
بادشاہ خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.