
خواتین کو انسان کا درجہ کب ملے گا؟
بدھ 15 اکتوبر 2014
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
جمہوری حکومت میں جمہور کے ساتھ ہونے والے ہاتھ پر جب کہیں سے کوئی رپورٹ میڈیا کی زینت بنتی ہے تو حکومت اسے اپنے خلاف سازش قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس پر غور فکر کر کے ان مسائل کا خاتمہ کیا جائے اب یہی دیکھیے پاکستان کے صوبہ سندھ جہاں اس ملک کی پہلی بڑی جمہوری پارٹی کے ” مالکوں“ کا قیام اور صوبے میں حکومت بھی ہے جو جماعت خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم عمل بھی رہتی ہے کے اپنے صوبے میں خواتین اور مصوم بچیوں کی حالت زار پر عورت فاونڈیشن نے واویلا مچاتے ہوئے بتانے کی کوشش کی کہ خیرپور، سندھ کے وزیراعلٰی سید قائم علی شاہ کاآبائی ضلع ہے، یہ صوبے کے ان اضلاع کی فہرست میں اول درجے پر ہے جہاں اس سال کی تیسری سہہ ماہی کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کی سب سے زیادہ واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔جبکہ سندھ میں خواتین کے خلاف تشدد کی صورتحال پر سہ ماہی رپورٹ (جولائی تا ستمبر 2014ء) کے مطابق صوبے میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے تمام 421 واقعات میں سے 72 واقعات کا تعلق صرف خیرپور سے تھا۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 421 واقعات میں 534 خواتین اور لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن ان میں سے صرف 66 کیسز کی ایف آئی آر درج کی گئی۔ان تین ماہ کی مدت کے دوران اخبارات میں شایع ہونے والے اعدادوشمار کی بنیاد پر تیار کی گئی اس رپورٹ کا کہناہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کا مسئلے کی جڑ سماجی روایات اور معاشی انحصار میں پوشیدہ ہیں، جبکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک مردوں کی اجارہ داری کے نظام کا نتیجہ ہیں۔صنفی بنیاد پر تشدد سے خواتین کے کمتر کردار ، ان کے سیاست میں کم سے کم سطح پر شراکت، ان کی کمتر تعلیمی سطح و مہارت اور کام کے محدود مواقع کو برقرار رکھنے میں مدد دی ہے۔رپورٹ کا کہنا ہے کہ غلط الفاظ کے ساتھ درج کی جانے والی ایف آئی آر سے بھی موٴثر حل کے لیے مقدمات تک خواتین کے لیے رسائی کے حق کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔اکثر اوقات اس طرح کے واقعات سے پولیس کو مطلع نہیں کیا جاتا، جبکہ پولیس کو رپورٹ کیے گئے کچھ واقعات کو پولیس اپنے روزنامچے میں درج نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ اگر چند کیسز درج بھی ہوجائیں تو مناسب انکوائری نہیں کی جاتی اور یہ معاملہ بالآخر التواء کا شکار ہوجاتا ہے۔یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات شہری علاقوں میں بھی بڑھتے جارہے ہیں، جو باعثِ تشویش ہے۔ جیسا کہ 421 کیسز میں سے 197 شہری علاقوں سے رپورٹ کیے گئے تھے۔متاثرہ خواتین کی ازدواجی حیثیت کے بارے میں اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 534 خواتین میں سے 249 (59 فیصد) شادی شدہ تھیں، جبکہ 67 غیر شادی شدہ۔ نامکمل رپورٹوں کی وجہ سے 218 خواتین کی ازدواجی حیثیت معلوم نہیں ہوسکی۔خواتین کے خلاف تشدد کے جرائم نوعیت کچھ یوں تھی، قتل (76 خواتین)، غیرت کے نام پر قتل (57 خواتین)، خودکشی (49 خواتین) جرگہ (41)، اغوا (41) زخمی (39)، ریپ اور گینگ ریپ (21/5)، جنسی حملہ (17) تشدد (17) اور اقدام خودکشی (19)۔
91 متاثرہ خواتین کی عمر 19 سے 36 برس کے درمیان تھیں، 66 چھوٹی بچیاں تھیں، اور 13 کی عمر 37 سال سے زیادہ تھی۔ جبکہ دیگر 364 تشدد سے متاثرہ خواتین کی عمروں کا تعین نہیں کیا جاسکا۔ان تین ماہ کے دوران اضلاع کے حساب سے کیسز کی تعداد کچھ یوں تھی، خیرپور 72، جیکب آباد 46، لاڑکانہ 45، شکارپور 28، سانگھڑ 27، سکھر 23، بے نظیرآباد 21، گھوٹکی 21، نوشہروفیروز 16، میرپورخاص 15، کشمور 15، تھرپارکر 14، کراچی 12، جامشورو 12، دادو 11، حیدرآباد 9، بدین 8، قمبر شہداد کوٹ 8، ٹھٹھہ 7، مٹیاری 4، عمر کوٹ 4، ٹنڈو محمد خان 2 اور ٹنڈو الہ یار ایک۔
جب اس طرح کی رپورٹس منظر عام پر آتی ہیں تو حکومت بڑی ڈھٹائی سے اسے اپنے خلاف سازش قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے ، یہ تو صرف ایک صوبے کی رپورٹ ہے باقی کے تین صوبوں میں بھی صورت حال کوئی تسلی بخش نہیں المیہ تو یہ ہے کہ حکومت تو ایک طرف معاشرہ بھی خواتین اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر پر مبنی واقعات پر چپ سادھے بیٹھا رہتا ہے حالانکہ معاشرئے کا ہر فرد بہن، بیٹی، ماں رکھتا ہے جب تک معاشرتی سطع پر آواز کو نہیں اٹھایا جاتا اور حکومت خواتین کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم پر مجرموں کو قرار واقعہ سزا دلانے کے لئے کوشش نہیں کرتی پاکستان دنیا بھر میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے حوالے سے ہی جانا جاتا رہے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.