
نئے سیاسی نظام کی ضرورت کیوں ؟
جمعرات 19 نومبر 2015
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
وقت، حالات اور دنیا کے جدید رجحانات کو دیکھتے ہوئے تمام جمہوری ملکوں میں ارسطو کا کچھ نہ کچھ فلسفہ کارفرما ہے کیونکہ اسوقت جمہوری نظام حکومت ہی واحد کامیاب نظام حکومت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جس میں جمہور ملکی انتظام و انصرام میں اپنے ووٹ کے زریعے شمولیت اختیار کرتے ہیں ۔لیکن یہ نظام ایسے ملکوں میں کامیاب ہے جہاں تعلیم اور شعور کی شرح بلند ہے جبکہ ہمارے جیسے ملکوں جہاں جمہور کی جمہوری عمل میں شرکت طوہاً کراہاً وڈیرے، جاگیر دار اور سرمایہ دارکی دھونس دھاندلی سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی ہے اور تمام ملکی سیا سی جماعتیں اپنی ساخت اور سوچ میں جمہوری سوچ اور اپروچ نہیں رکھتیں۔مقامی حکومتوں کا نظام عوام کے قریب تر ہوتا ہے جس میں ان کیشمولیت لازمی ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں جو نظام متعارف ہے اس میں بھی اختیارات کی تقسیم ابھی تک متنازعہ ہے۔
ہمارے ہاں جمہوریت کے ساتھ ایک ستم یہ ہوا کہ حکمرانوں نے جمہوریت کی جو برانڈ متعارف کروائی اس میں اختیارت کی واضع تقسیم نہیں کی گئی مثال کے طور پر انیس سو چھپن میں جب پہلا آئین تیار ہوا تو اس حوالے سے صدر ،وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے درمیان اختیار کی کشمکش ہوتی رہی اور نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کے بعد ایوب خان اور بھٹو کے دور میںآ ئین بنے لیکن ہر آئین میں ترامیم کی بھر مار ہوتی رہی۔انیس سو تہتر کے آئین کو متفقئین قرار دیا گیا لیکن تاحال اس میں بھی ترامیم کا سلسہ جاری ہے ۔جو بھی حکمران آیا اس نے اپنے اقتدار کوطور دینے اور گرفت مظبوط رکھنے کے لئے آئین میں مانی مانی ترامیم کرائیں ضیا رجیم اس حوالے سے سر فہرست رہا ۔
جبکہ عوام بے چاری جمہوریت کے فیوض و برکات سے محروم ہی نہیں رہی بلکہ اس کے حقوق بھی متاثر ہوئے ہیں اس وقت جو جمہوریت چل رہی ہے اس میں عام آدمی کی شمولیت بظاہراً نظر تو آتی ہے مگر وہ عملاً اس میں شامل نہیں ہے ۔کوئی بھی قومی پالیسی عام آدمی کی ضرورتوں کے مد نظر رکھ کر نہیں بنائی جاتی۔ تعلیم اور صحت کے شعبے جن کا تعلق عام آدمی سے ہے کو نظر انداز کر کے ایسے منصوبے شروع کئے گئے جن کی ضرورت سے انکار نہیں مگر ملکی صورت حال کے پیش نظر ابھی ان کی ضرورت نہیں تھی۔ پہلی ترجیح تعلیم اور صحت ہونی چاہے تھی جس سے عوام محروم چلے آرہے ہیں کوئی ہسپتال، ڈاکٹر کا کلینک ایسا نہیں جہاں مریضوں کا اژدہام نہ ہو لیکن انہیں صحت عامہ کی سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔کہیں دوائی نہیں تو کہیں مشین خراب اور اس پر مستزاد ڈاکٹرز اور عملے کاتوہین آمیز رویے کا شکار عام آدمی جس قدر مشکلات کا سامنا اس دور میں کر رہاہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح تعلیم کامعاملہ ہے حکومت ابھی تک سکولوں سے باہر اڑھائی کروڑ بچوں کو سکولوں میں نہیں لاسکی جبکہ پراویٹ سکولوں پر چڑھائی سے بھی بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے اور نظام تعلیم کی سمت بھی ابھی تک واضع نہیں کی گئی موجودہ نظام تعلیم پاکستانی بچوں کو انسان بناے سے قاصر ہے تفریق تقیسم اور اذہان کو منتشر کرنے والے نظام تعلیم سے کس تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے؟۔ انہتا پسندی ،نفرت ،تعصب اور عدم روداری کو فروغ دیتا نصاب فوری تبدیلی کے تقاضے کررہا مگر ہماری توجہ اس جانب نہ ہونے کے برابر ہے۔
امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے مگر آج ہر ادارہ اور گھر پراویٹ سیکورٹی گارڈ کا مرہون منت ہو چکا ہے محلے آہنی جنگلوں کی حصار میں قید ہوچکے ہیں انسانی آزادی اور حقوق کا تصورآہستہ آہستہ مفقود ہوتا جارہا ہے ان حالات میں اگر کوئی دوسرا ریاستی ادارہ حکومت کو اپنی کار کردگی اچھی کرنے کا کہتا ہے تو تو حکومتی نابغے اسے حکومتی امور میں مداخلت قرار دے کر اس کے لتے لینے شروع ہو جاتے ہیں حالانکہ ملکی معاملات کودرست کرنا تمام ادارورں کا فرض اور زمہ داری ہے۔ عوامی مسائل سے حکومتی لاتعلقی نے ہی عوام کے ایک اغلب حصے کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ موجودہ جمہوری سیاسی نظام میں ان کے مسائل کا حل نہیں اور وہ کوئی ایسا نیا نظام چاہتے ہیں جس میں پاکستان ایک فلاحی مملکت کے روپ میں ڈھل کر ہر شہری کو اس ضروریات اور حقوق اس کی گھر کی دہلیز پرمہیا کرنے کی صلاحیئت رکھنے کے ساتھ امن و امن کے قیام کا داعی ہوجو حقیقی معنوں میں قائد کا پاکستان کہلا سکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.