
رات اور دن
ہفتہ 20 جنوری 2018

ڈاکٹر اظہر وحید
(جاری ہے)
جسم اور روح بنانے والے نے رات اور دن بھی بنائے ہیں ۔ خالقِ کون و مکاں نے رات روح کی پرداخت اور نگہداشت کیلئے نازل کی .... اور دن جسم اور اس کی پرورش کیلئے مقرر کیا۔ رات کو تسکین کا باعث کہا گیا.... قابلِ توجّہ اَمر یہ ہے کہ تسکین روح کی جا ہے‘ بدن کا مقام نہیں! رات کے خیمے میں پناہ گزیں کو چاہیے کہ وہ اپنے دل کو چاند کی طرف متوجہ رکھے۔ چاند کوئی بھی ہو‘ روح کے سمندر پر متصرف ہوتا ہے۔ جوار بھاٹا.... کیفیات کا سارا مد وجزر ....کسی چاند کے زیرِ اثر ہے۔ دن کو روشنی ہوتی ہے، رات کو نور! روشنی بصارت کو چندھیا دیتی ہے، نور بصیرت کو بڑھا دیتا ہے۔ مومن تو دیکھتا ہی اللہ کے نور سے ہے، اس کی فراست سے ڈرنے کا حکم ہے.... کہ فراست سیاست کا باب نہیں، سیاست میں ہر وار کا توڑ موجود ہوتا ہے، فراست آسمان سے وار کرتی ہے.... اور سب چالاکیوں کی کمرتوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
جس کی رات روشن نہ ہو‘ اس کا دن بھی تاریک ہوتا ہے۔ رات کو جاگنے والے اگر دن کو سوتے ہوئے پائے گئے‘ تو سمجھ لینا چاہییے کہ رات کو روح کی پرورش نہیں ہو سکی۔ روح کی نگہداشت نہ ہو‘ تو بدن بھی ماند پڑ جاتا ہے۔ چہرے کی تاب روح کی چھاب تلک سے ہے۔ صبحدم چہرہ بولتا ہے کہ رات کیسے گذری۔ شب بیداری عیش و عشرت سے عبارت نہیں بلکہ عبادت اور غوور و فکر کی جائے اعتکاف ہے۔ شب بیداری کے ساتھ صبح خیزی نہ ہو تو یہ شب بیداری نہیں‘عیش کوشی ہے۔
رات کے سمے نور کی بجائے روشنیوں کی طرف راغب ہونے والا اپنے لیے دن کا سماں بھی تاریک کر لیتا ہے۔ ذہن ِ رسا کیلئے رات ایک رسائی ہے.... عالمِ بالا کی طرف !!! رات بدن کی نہیں‘ روح کی جائے قرار ہے! روح لطافت کی راہ نہ پائے تو مضطرب رہتی ہے۔ روح کی طاقت لطافت ہے.... کثافت اسے مضمحل کرتی ہے۔ اس فرق کو وہی سمجھیں گے جو روشنی اور نور میں فرق کرنا جانتے ہیں۔ روشنی اور نور جدا حقیقتیں ہیں۔ جنہیں روشنی مرغوب ہوتی ہے‘ وہ نور کو تاریکی سمجھتے ہیں .... ظاہر ہے ٗ ظاہر پرست آنکھ کو نور میں تاریکی نظر آتی ہے۔۔۔۔۔ وہ نور کو دیکھ نہیں سکتی! کعبے کے پردے کا رنگ سیاہ ہے.... لیلیٰ بھی سیاہ فام.... قیس نے شاعر کی زبانی کہلا بھیجا ہے کہ قرآن کے الفاظ جس روشنائی سے لکھے جاتے ہیں اس کا رنگ بھی سیاہ ہے !! نور کا رنگ دیکھنے کیلئے کم از کم وہ آنکھ چاہیے ‘جو قیس کے پاس تھی۔ بہت سے حقائق کو دیکھنے کیلیے جاننا ضروری ہوتا ہے.... اور بہت سی حقیقتوں کو جاننے کیلئے پہلے انہیں ماننا ضروری ہوتا ہے۔ ہماری اناٹومی کی کتاب میں ایک جملہ لکھا ہوتا تھا، ابھی تک یاد ہے Eyes cannot see what mind does not know ۔۔۔۔ یہ دانش درست ہے‘ لیکن نامکمل ہے.... کیونکہ جاننے سے پہلے ماننا بھی ایک مرحلہ ہے.... اوربہت ضروری مرحلہ ہے۔ جو طبیب کو طبیب ہی تسلیم نہ کرے‘ وہ طب کا اسلوب نہیں جان سکے گا.... وہ کب جان پائے گا کہ علم الابدان کے باب میں طبیب اسے کیا سکھانا چاہتا ہے۔ طبیب کے بغیر طب کیا ہے.... بجز ایک قیاس آرائی کے !! جو ماننے سے گریزاں ہے‘ اس کا جاننا بھی ناقص ہوگا.... کیونکہ وہ جو کچھ بھی جانتا ہے‘ وہ اس کے ذہن کی جگالی ہوتی ہے۔ اپنی فہم کا اسیر....اپنی ہی عقل کی سرکس میں جھولنے والا.... اپنی ہی طے شدہ منطق کے کرتب دکھانے والا .... اس ماوارائی کلام کی تفہیم سے قاصر رہتا ہےٗ جس کا ماخذ انسانی عقل نہیں!! ہمارے حواسِ خمسہ کا محتاج علم اتنا ہی محدود ہوتا ہے‘جتنا ہمارے حواس۔ سائنسی آلات گو ہمارے حواسِ خمسہ کی رینج بڑھاتے ہیں لیکن انہیں تحدید سے آزاد نہیں کرتے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ظاہر اور غیب میں فرق صرف جاننے اور نہ جاننے کے فرق جیسا ہے۔ ایک شخص کسی حقیقت سے آگاہ ہے ، اور دوسرا اس سے آگاہ نہیں تو موخرالذکر کیلئے وہ حقیقت غیب قرار پائے گی اور پہلے کیلئے حاضرو موجود۔ ایسا ہر گز نہیں۔ غیب اور حاضر کا علم relative نہیں، ان میں نسبت جاننے اور نہ جاننے کی نہیں‘ بلکہ ماننے اور نہ ماننے کی ہے۔ عالمِ غیب وہ ہے ‘ جس تک رسائی نہ تو حواسِ خمسہ کی ہے ، اور نہ ہی انسانی عقل و فہم و دانش کی! جنت ، دوزخ ، میزان ، صراط ، مابعد کا سارا بیان غیب سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے جاننے کیلئے ہمیں ماننے کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔ بصورت ِ دیگر ہم تقابلی موازنہ مذاہب ِ عالم comparative study of world’s religions کے گورکھ دھندے میں کھو کر رہ جائیں گے۔ درحقیقت” یومنون بالغیب“ کا مطلب رسولِ کریم خاتم البنیین ﷺ پر ایمان لانا ہے۔ جب تک رسولِ خداﷺ پر ایمان نہ ہوگا ، خدا اور روزِ آخر پر "ایمان" بھی ایک ذہنی مشق کے سوا کچھ نہیں۔ غیب کے علاوہ ہر دوسرا علم بنیادی طور پر مادّے سے تعلق رکھتا ہے.... توانائی کے کرشمات اور زمانی واقعات کی آگہی بھی اپنی اصل میں مادّی آگہی ہے۔ تونائی مادّے سے جدا نہیں۔ زمان‘ مکان سے علیحدہ نہیں .... یہ دونوں حقیقتیں ایک دوسرے میں خلط ملط ہیں، ایک کو جدا کریں تو دوسرا بے معنی ہو جاتا ہے۔ مادّی علم سے مادّے پر تصرفات تو حاصل ہو جاتے ہیں ‘ لیکن انسان اپنے نفس کے زیرِ تصرف رہتا ہے.... اور نتیجتاً اپنے وجود سے ورا حقائق کا شاہد نہیں ٹھہرتا۔ نفس کے تصرف سے آزاد ہونے کو تزکیہِ نفس کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ نجات اور نروان بھی یہی ہے!
آمدم برسر مطلب ‘ جس طرح جسم ظاہرہے اور روح باطن ، اسی طرح دن ظاہر ہے اور رات باطن !! باطن سے آشنائی نہ ہو‘ تو ظاہر باطل ہوجاتا ہے ....کارِ عبث قرار پاتا ہے۔ روح کی حقیقت کا منکر ‘جسم سے بھی عدل نہیں کر سکتا۔ رات اگر روحانیت سے متعارف نہ ہوسکے‘ تو دن اپنی عقل کی روشنی سمیت مادے کے ساتھ انصاف نہ کر سکے گا.... کیونکہ باطن ظاہر پر متصرف ہوتا ہے
رات کے تصرفات عجب ہیں….. اگر رات کو نفس کے تصرف سے نجات مل جائے تو رات روح کی سیر کرواتی ہے، افکارِ عالیہ سے روشناس کرواتی ہے.... اور اِس کائنات کی روح سے ہمکلام ہونے کا شرف عطا کرتی ہے!!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اظہر وحید کے کالمز
-
خاص خدمت.... خاص عبادت!!
جمعرات 15 نومبر 2018
-
”گمنام ادیب“
جمعرات 31 مئی 2018
-
تا ثریا می رَور دیوار کج
ہفتہ 12 مئی 2018
-
خیال .... نظریہ .... اور پاکستان!!
جمعرات 10 مئی 2018
-
ہمیں فنڈز نہیں چاہییں
اتوار 4 مارچ 2018
-
بڑے دن کا آغاز.... ایک چھوٹے سے کام سے !!
جمعہ 2 مارچ 2018
-
اخلاص اور اخلاق
جمعرات 15 فروری 2018
-
رات اور دن
ہفتہ 20 جنوری 2018
ڈاکٹر اظہر وحید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.