
”گمنام ادیب“
جمعرات 31 مئی 2018

ڈاکٹر اظہر وحید
(جاری ہے)
پہلے پہل چند کالموں میں کالم کے آخر میں رابطے کیلئے آپؒ کی رہائش گاہ کا ایڈریس تحریر ہوتا۔
ازاں بعد انتظامیہ کے معترض ہونے پر پوسٹ بکس نمبر لے لیا گیا۔منتظمین ادارہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کو تشکیل دیتے ہیںٗ دراں حالیکہ یہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ادارے تشکیل دیتے ہیں۔ بہر طور یہ ایک فلسفیانہ بحث ہی رہے گی کہ حالات انسان کو بناتے ہیںٗ یا انسان حالات کی تشکیلِ نَو کرتا ہے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر سب کچھ حالات کے تابع ہوتاٗ تو انسان محض ایک تابع مہمل بن کر رہ جاتا.... اور تاریخ کے اوراق ہمیں کسی انقلاب کی خبر نہ دیتے .... آدم تا ایں دمٗ سب کچھ سٹیٹس کو کے مطابق چل رہا ہوتا.... لیکن ایسا نہیںٗ ایک انسان اس دنیا میں آتا ہے.... اور پھر جاتا نہیں.... وہ اپنے افکار کی صورت میں قیام پذیر ہو جاتا ہے اور مخلوقِ خدا کے دل کا قطب نما اس کے نام، کام اور کلام کے ساتھ مرتعش رہتا ہے۔کہتے ہیںٗ کسی کے آنے اور جانے سے کیا فرق پڑتا ہے.... لیکن کسی کے آنے اور پھر جانے کے بعدیہ دنیا ویسی نہیں رہتیٗ جیسی پہلے تھی۔ اقبالؒ کے آنے اور جانے کے بعد افکار کی دنیا ویسے نہیں رہی جیسے پہلے کبھی ہوا کرتی تھی، قائدِ اعظمؒ کے آنے اور جانے کے بعد اس دنیا کی تاریخ ایک طرفٗ جغرافیہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ افکارواحساسات کی نک سک درست کرنے والے کچھ ایسے اہلِ کمال یہاں موجود ہیں جوکارِ مشاطگی اس انداز سے کر جاتے ہیں کہ فکر فقر میں ڈھلنے لگتا ہے....اور افکارِ پریشاں کی زلف صدیوں تک سلجھ جاتی ہے۔حضرت واصف علی واصفؒ کے خطوط محض مراسلت برائے مراسلت نہ تھے بلکہ ہر خط قاری کے فکری اشکال کا ازالہ کرتا اور اس کی روحانی تشفی کا باعث ہوتا۔ جس موضوع پر قاری کسی فکری الجھن کا شکار ہوتاہے ‘ اس موضوع پریہ خط ایک مکمل تھیسیس ہے۔ خطوطِ واصفؒ کے یہ چند درجن صفحات فکرِ واصفؒ کا خلاصہ ہے۔ دراصل خطوط کسی مفکر یا صوفی کا خلاصہ فکر ہوتے ہیں.... بالخصوص وہ خطوط جو عمر کے آخری حصے میں تحریر کیے جاتے ہیں۔ گفتگو کے عنوان سے 31 جلدیںٗ آپؒ کی محافلِ گفتگو کی ٹرانسکرپشن ہیں۔ یہ گفتگو معنی کا ایک بہتا ہوا دریاہے .... ایک سیلِ رواں ہےٗ جو قاری کو اپنے ساتھ بہاتا ہوا لے جاتا ہے۔ "گفتگو " میں تحریر بولنے لگتی ہے۔ ایسے لگتا ہے ‘ جیسے حضرت واصف علی واصفؒ ان صفحات میں قاری سے محوِ گفتگو ہو جاتے ہیں۔ آپؒ کے خطوط میں "گفتگو" کا یہ دریا ایک کوزے میں بند کردیا جاتا ہے۔ اگر حضرت واصف علی واصفؒ کی "گفتگو" کے اکتیس 31 والیوم پڑھنے کا وقت میسر نہ ہو‘ توآپؒ کے خطوط کا مطالعہ کر لیا جائے۔
بعد از وصال شائع ہونے والی خطوط کی اس کتاب کانام "گمنام ادیب" آپؒ نے خود ہی تجویز کیا تھا۔ " گمنا م ادیب" دراصل "قطرہ قطرہ قلزم" کے ایک مضمون "گمنام ادیبوں کے نام" سے لیا گیا ہے۔ اس مضمون میں آپؒ نے دنیائے ادب کے گمنام ادیبوں کی خدمت میں ایک بھر پور خراجِ تحسین پیش کیا ہے ، آپؒ رقم طراز ہیں کہ جس طرح جنگ میں کام آنے والے گمنام سپاہیوں کو ہم خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیںٗ اس طرح ادب کے میدان میں بھی گمنام رہ جانے والے ادیب ہماری توجہ اور تحسین کے مستحق ہیں۔ جنگل میں کھلنے والا پھول بھی اتنا ہی دلکش ہوتا ہے جتنا شالیمار باغ میں کیمروں کے زوم لینز کی زد میں آنے والا کوئی پھول۔
حلقہ ادب کی اس نشست میں اس کتاب سے دو خطوط کا انتخاب کیا گیا، ان میں سے ایک خط قارئین کی فکری ذوق کی نذر بھی کئے دیتے ہیں، یہ خط ایک ایسے نوجوان کے خط کے جواب میں ہے جس نے آپؒ کا ایک مضمون بعنوان "رحمت" پڑھا اور آپؒ سے چند نصیحتوں کا طالب ہوا۔ طوالت کے خوف سے خط کا صرف ایک حصہ نقل کیے دیتاہوں۔ یہ چند نصیحتیں فکرِ واصفؒ کی تلخیص ہے۔ آپؒ لکھتے ہیں
" خوشی ہوئی کہ آپ نے اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونے کا بروقت اورصحیح فیصلہ کر لیا۔ اپنے فیصلے پر قائم رہنے کی اللہ آپ کو توفیق دے۔ نصیحت کرنا یا اچھی اچھی باتیں بتانا دراصل پوچھنے کے بعد ہی ہے.... زندگی کے ہر شعبے میںکوئی نصیحت درکار ہوتی ہے اور زندگی کے بے شمار شعبے ہیں۔ بہر حال موٹی موٹی باتیں یہ ہیں کہ ۔۔۔۔۔
٭ کسی کو تکلیف نہیں پہنچانی....
٭ کبھی کوئی شخص زیادتی کر جائے تو اسے معاف کردینا....
٭ سائل کوگھر سے خالی ہاتھ نہیں بھیجنا....
٭ زندگی میں مرشد تلاش کرنا اور اگر کبھی خدانخواستہ کچھ وقت کسی غلط مرشد کے پاس گزارنا پڑ جائے تو بھی اس کے خلاف لب کشائی نہ کرنا، یعنی کسی شخص کو بھی جب ایک بار اچھا کہہ دیا جائے ‘ اس کے جدا ہونے کے بعد بھی اس کے خلاف کچھ نہیں کہنا۔
٭ اپنے نصیب پر راضی رہنا، دینے والے نے جو کچھ دیا ہےٗ صحیح دیا ہے۔
٭ طلب کو حاصل سے زیادہ نہ کرنا۔
٭ انسانوں کی خدمت ، حضورﷺ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کبھی ترک نہ ہونے پائے۔
٭ ماں باپ زندہ ہوںٗ یا پردہ کر چکے ہوں، اُن سے مدد مانگتے رہنا۔
٭ شوق اور فرض کو یکجا رکھنے کی کوشش کرنا ....
آپؒ کو خط لکھنے والے معمولی لوگ نہ ہوتے، ان کی تحریر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فکری اور شعوری اعتبار سے ایک اعلیٰ قد کاٹھ رکھنے والے لوگ تھے۔ بعض خطوط ادب کا ایک شاہکار ہیں۔ان میں سے بعض خطوط منظوم لکھے گئے اور ان خطوط کے جوابات بھی اسی بحر ردیف اور قافیے کے اشعار کی صورت میں دیے گئے۔ یہ لوگ حقیقتاًجوہرِ قابل تھے۔ ان میں کئی نام ایسے ہیں جو بعد میںادب کے افق پر ایک ستارہ بن کر جھلملا تے رہے۔ چند ایک نام جو فوری طور پر یاداشت کی گرفت میں آرہے ہیں، ان میں ثاقب ،سلیمانی، عابد کمالوی، ظہور فقیر اور ہمارے ہی اخبار کے معروف کالم نگار جناب ڈاکٹر زاہد منیر عامر تھے۔ اس سخنِ مختصر میں چونکہ "جوہرِ قابل" کا لفظ استعمال کر چکا ہوں ‘ اس لیے یہ بتانے میں دشواری ہورہی ہے کہ آپؒ کے ساتھ مراسلہ نگاری میں یہ خاکسار بھی شامل ہے۔ میرے پاس آپؒ کے تین عدد خطوط بطور تبرک موجود ہیں جو 1984ء سے 1985ء کے دوران لکھے گئے۔ ان میں سے ایک خط کا عکس حاضرین محفل کو ملٹی میڈیا پروجیکٹر سے دکھایا گیا۔ اس خط کے مندرجات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ، حاضرین کے سوالات نے بہت لطف دیا۔ یہ نشست گفتگو کم اور سوال و جواب کی ایک بھر پورمحفل کی صورت اختیار کر گئی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اظہر وحید کے کالمز
-
خاص خدمت.... خاص عبادت!!
جمعرات 15 نومبر 2018
-
”گمنام ادیب“
جمعرات 31 مئی 2018
-
تا ثریا می رَور دیوار کج
ہفتہ 12 مئی 2018
-
خیال .... نظریہ .... اور پاکستان!!
جمعرات 10 مئی 2018
-
ہمیں فنڈز نہیں چاہییں
اتوار 4 مارچ 2018
-
بڑے دن کا آغاز.... ایک چھوٹے سے کام سے !!
جمعہ 2 مارچ 2018
-
اخلاص اور اخلاق
جمعرات 15 فروری 2018
-
رات اور دن
ہفتہ 20 جنوری 2018
ڈاکٹر اظہر وحید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.