
خاص خدمت.... خاص عبادت!!
جمعرات 15 نومبر 2018

ڈاکٹر اظہر وحید
بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں‘ خدمت عبادت ہے ،لیکن اس پرکبھی غور نہیں کیا تھا کہ خدمت کو عبادت کیوں کہا گیا ہے۔
(جاری ہے)
بے لوث خدمت کرنے کی چند ساعتیں اگرنصیب ہو جائیں توانسان اپنے باطن میں ایسی فرحت اور کشادگی محسوس کرتا ہے‘ جو صرف قربِ خداوندی سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے جنہیں خدمتِ خلق کا "نشہ" لاحق ہو جائے وہ دن رات اسی میں منہمک رہتے ہیں۔
عبادت کی غائت بھی قرب ہے، عبادت کی مسنون نیات میں ”قربتاً الی اللہ“کے الفاظ ملتے ہیں۔ عابد اور معبود کا رشتہ صرف عبادت گاہ کی چار دیواری تک محدود نہیں۔ عبادت کے تصورکو مسجد اور خانقاہ تک محدود کر لینا اس معبودِ حقیقی کے شایانِ شان نہیں جو مشرق مغرب کا خالق ہے، کل عالمین کا رب ہے۔ رب العالمین کے محبوب رسول رحمت اللعالمینﷺ ہیں، اور رحمت اللعالمینﷺ کے امتی کا یہ شرف ہے کہ اس کیلئے کل روئے زمین مسجد بنا دی گئی ہے۔ لازم ہے کہ امتی اپنی وسیع المشربی کا ثبوت دے اور اپنی عبادت کو عبادت گاہ کی حدود تک محدود نہ کرے۔ یوں بھی ‘ مومن کا سونا جاگنا، خاندان کی خدمت کرنا ، تجارت اور معیشت کی راہوں میں صبح سے شام کرنا سب عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔جب ہم معیشت کے دائرے میں قدم رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ہم سے آگے ہیں اور کچھ پچھلی صفوں میں موجود ہیں۔ یہ تقسیمِ فطرت ہے۔ اس کائنات کی تخلیق میں تنوع اور تفضیل کا کلیہ رائج ہے۔ انسان سے اس کے خالق کا تقاضا کچھ اور ہے۔ اگلی صف والا اگر پچھلی صف والے کو اپنے ساتھ کھڑا کر لے تو اس کی صف قائم ہو جائے گی اور نماز بھی!! معیشت کی طرح جسمانی طاقت میں بھی کچھ لوگ ہم سے آگے ہیں اور کچھ پیچھے ، کچھ پیدائشی طور پر پیچھے ہیں، انہیں دامے درمے سخںے اپنے ساتھ کھڑا کرنا اپنی صفوں کو مضبوط کرنا ہے۔ یہ ایک روحانی کلیہ ہے، کمزور لوگ آپ کی کمزوری نہیں بلکہ اثاثہ ہیں۔ طاقت میں زیادہ لوگوں کو اگر اپنی طاقت کا تحفظ چاہیے تو کمزور لوگوں کے محافظ بن جائیں۔ کاش یہ نکتہ آج کے مادّہ پرست انسان کی چھوٹی سی سمجھدانی میں سما سکے۔ مادّیت میں لت پت شعور یہ سمجھتا ہے کہ وقت، وسائل اور پیسہ تقسیم کرنے سے کم ہو جائیں گے.... وہ مادّی نظام کو پیدا کرنے والی قادر ذات کی بے پناہ قدرتوں کا قائل ہے نہ شاہد، وگرنہ اسے معلوم ہوتا کہ جو انسان خود کو اس کی مخلوق کی خدمت کیلئے وقف کر دیتا ہے ‘کائنات کی قوتیں وفورِ شوق میں اس کے ہمراہ ہو جاتی ہیں۔ بس لنگر چولہے پر رکھنے کی دیر ہے کہ مَچ سَچ مُچ پَخ جاتا ہے.... ایمان کی روشنی اور جذبے کی حرارت ارد گرد کے ماحول کر گرما دیتی ہے۔۔۔۔ عقول و قلوب منور ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں چھپا ہوا جذبہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ خدمت کا دسترخوان بچھانا ہمارا کام ہے، اس دسترخوان پر رزق بھیجنا رازق کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ بس.... اک لازم شرط اَدب دی ہے۔ اس ادب کا اظہار اخلاص اور اخلاق کی صورت میں ہوتا ہے.... باطن کی دنیا میں اخلاص اور ظاہر کی دنیا میں اخلاق۔ اخلاص اپنے مزاج اور مفاد کی نفی کا نام ہے ، اور اخلاق اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا نام۔ اخلاق کی ہر نظیر سنتِ نبویؐ سے ملے گی۔ اخلاص کا تعلق توحید سے ہے اور اخلاق کا تعلق رسالت سے۔ یہ پورا کلمہ طیبہ ہے۔ کلمے کا پہلا حصہ توحید ہے اور دوسرا توحید کے تقاضوں پر مشتمل سنت نبویؐ کی پیروی کا عہد ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ سچ فرماتے ہیں” کلمہ طیبہ ایک عہد ہے“
گزشتہ دنوں قصور سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا، قصور میرا آبائی شہر ہے ، میرے دادا اور پردادا کی قبریں یہیں ہیں۔ اس خوشبودار شہر سے جب بھی دعوت موصول ہوتی ہے‘ سر کے بل جاتا ہوں۔ اس چاہت کی وجہ محض اہنے آبا و اجداد کی مٹی کی کشش نہیں بلکہ اس شہر میں باربار آنے کا سبب وہ روحانی کشش ہے، جو بابا بلھے شاہؒ یہاں مہکا کر بیٹھے ہوئے ہیں.... گھونگھٹ کی اوٹ میں۔ میرا چھوٹا کزن عبدالقدوس اعوان ، ہے تو اک لڑکا چھوٹا سا ، اسے ہم ساری عمر چھوٹا ہی سمجھتے رہے، پَر کام کرتا ہے بڑے بڑے۔ گورنمنٹ کالج یونیوسٹی میں اس کا شعبہ خصوصی افراد کی تعلیم کے حوالے سے ہے اور یہ نوجوان اپنی تعلیم کو بروئے کار لا کر ان خصوصی افراد کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس کی ایک شاگرد صائمہ ناصر کہ جس کی بچی گویائی اور سماعت سے محروم تھی، اس نے اپنی بچی کیلئے اس شعبے میں خصوصی کورس مکمل کیا۔ استاد نے اپنی شاگرد کو قائل کیا کہ وہ اپنی حاصل شدہ مہارت کوقصور شہر میں ایسی ہی دیگر خصوصی بچیوں کیلئے بھی وقف کرے۔ استاد کا یہی کام اور مقام ہے۔ وہ اپنے شاگردوں میں تعلیم کو علم میں ڈھالنے کی جستجو میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ تعلیم دراصل تربیت دینے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ علم والا تربیت والا ہوتا ہے۔ خدمت ایک بہت بڑا علم ہے۔ خدمت علم کا عمل ہے۔ قصور جیسے شہر میں خصوصی افراد کیلئے ایسا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں تھا، عبد القدوس کی انگیخت سے یہاں اس نوعیت کا پہلا تعلیمی ادارہ وجود میں آگیا۔ ”سیرت ایجوکیشنل اینڈ وویکشنل انسٹیٹیوت فار اسپیشل چلڈرن“ کی افتتاحی تقریب کو دوآتشہ اور سہ آتشہ کرنے کیلئے اس نوجوان نے اہلِ قلم کو بھی مدعو کیا تھا ، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وقاص احمد کے ادارے’ پیس ٹو لائف‘ کے تعاون سے یہاں میڈیکل کیمپ کا انعقاد بھی کر رکھا تھا۔ گورنمنٹ کالج کا وقاص احمد ایک ایسا خصوصی فرد ہے جو ہمارے معاشرے میں ایک لیجینڈ کی حیثیت رکھتا ہے، یہ نوجوان بچپن سے ویل چیر پر ہے، چل پھر نہیں سکتا، بمشکل اور مبہم بولتا ہے ، لیکن اس کے فلاحی کاموں کی فہرست اتنی واضح اور طویل ہے کہ عقل حیران ہو جاتی ہے۔ بارِ خدایا تُو نے انسان کو اتنی ہمت عطا کر رکھی ہے۔ انسان کی عظمت اور اس کے اندر چھپی ہوئی قوت ، پوٹینشل کا اندازہ ایسی شخصیات کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ ویل چیئر پر بیٹھا ہوا یہ شخص ان معنوں میں بھی خصوصی ہے کہ صحیح سالم نظر آنے والے لوگوں کی مدد کر رہا ہے ، انہیں اٹھا رہا ہے، ان کے عزم کو قائم کر رہا ہے۔ وقاص احمد کی موہوم سی گفتگو کا ایک ایک لفظ دانائی میں ڈوبا ہوا تھا، ظاہر ہے وہ خود پر بیتی ہوئی بات بتا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے ٗ ہمیں قابلِ رحم نہ سمجھو، ہمیں قابلِ عزت سمجھو۔ اقبال منج نے اپنی گفتگو میں خوبصورت نکتہ اٹھایا کہ ایسے افراد اللہ میاں کی پارلیمنٹ کے خصوصی نمائندے ہوتے ہیں۔ یہ نکتہ ایک تھسیس ہے۔ عام لوگوں کی خدمت بھی کم عبادت نہیں ، خصوصی لوگوں کی خدمت تو خدمتِ خاص ہے اور ۔۔۔۔۔ خاص خدمت خاص عبادت ہے!!
یہاں آکر مجھے اپنی معذوری کا احساس ہوا۔ معذوری کی نئی تعریف میرے سامنے تھی اور اس کی تائید قرآن کریم سے مہیا ہو رہی تھی۔ ” کیا ہم نے انہیں دل نہیں دیے، یہ سوچتے کیوں نہیں“۔ مجھے معلوم ہوا کہ اگر میں تفکر کے میدان میں دل سے کام نہیں لے رہا تو دماغی طور پر صحتمند ہونے کے باوجود میں قلبی طور پر معذور ہوں، اگر میں سائل کے چہرے پر لکھا ہوا سوال نہیں پڑھ سکتا تو میں بینائی سے محروم ہوں، اگر میں سائل کی صدا پر بہرہ بن کر گزر جاتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری قوتِ سماعت معذوری کا شکار ہے۔ اگر میں مظلوم کے حق میں آواز بلند نہیں کرتا، مفاد اور منافقت میرا راستہ روک رہے ہیں‘ تو میں گویا قوتِ گویائی سے محروم لوگوں میں شامل ہوں۔
اپنے مالکِ حقیقی کے حضور دست بستہ دعا ہے کہ وہ ہمارے ہاتھ کھلے رکھے۔۔۔۔۔۔ دل ، پیشانی اور دسترخوان کشادہ رکھے۔۔۔۔۔ اور ہمیں انسانِ کاملﷺ کے طفیل جملہ باطنی و بدنی معذوری سے بچائے رکھے!!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اظہر وحید کے کالمز
-
خاص خدمت.... خاص عبادت!!
جمعرات 15 نومبر 2018
-
”گمنام ادیب“
جمعرات 31 مئی 2018
-
تا ثریا می رَور دیوار کج
ہفتہ 12 مئی 2018
-
خیال .... نظریہ .... اور پاکستان!!
جمعرات 10 مئی 2018
-
ہمیں فنڈز نہیں چاہییں
اتوار 4 مارچ 2018
-
بڑے دن کا آغاز.... ایک چھوٹے سے کام سے !!
جمعہ 2 مارچ 2018
-
اخلاص اور اخلاق
جمعرات 15 فروری 2018
-
رات اور دن
ہفتہ 20 جنوری 2018
ڈاکٹر اظہر وحید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.