خیال .... نظریہ .... اور پاکستان!!

جمعرات 10 مئی 2018

Dr Azhar Waheed

ڈاکٹر اظہر وحید

اہلِ مشاہدہ کا ایک مسلسل مشاہدہ ہے کہ وجود سے پہلے خیال موجود ہوتا ہے۔ خیال وجود کا صورت گر ہے۔ خیال ایک گونہ وجد ہے ....اوروجد وجود کی کنجی ہے۔ خیال ایک جوہر ہے ....اور وجود اس کا عرض ہے۔ وہ وجود قابلِ تعین نہیں.... وہ عمل قابلِ تعریف نہیں.... جس کے پسِ پشت کسی خیال کی نغمہ سرائی نہ ہو۔ جب ایک عمارت یا مشین کے وجود پذیر ہونے کیلئے کسی خیال کا خاکہ ضروری ہے تو ایک ملک کے معرضِ وجود میں آنے کیلئے ایک خیال کی ضرورت محسوس کیوں نہیں کی جاتی؟ یہ ملک اگر مسلمانانِ ہند کے خوابوں کی تعبیر ہے توان کے خواب میں مخل ہونے کا حق ہمیں کیسے حاصل ہوا.... ہم تو ہنوز خواب میں ہیں.... اور شاعر کے شعر میں بھی ابھی تک جاگے نہیں!! گو خواب خیال نہیں ہوتے .... لیکن جاگتے میں دیکھے گئے خواب خیال ہی کہلا تے ہیں ۔

(جاری ہے)

کیا تاریخ محض تاریخی جبر ہے؟ کیا لیلة القدر میں ملنے والی ایک مملکت کے جغرافیے کا سبب تاریخ کا جبر ہے ؟ کیا دنیا کے نقشے پر رونما ہونے والا ہر واقعہ انگریز کی سازش کے تحت ہو رہا ہے؟ کیا ہمارے رہبر سفید آقاؤں کے گماشتے تھے؟ کیا کارخانہ قدرت میں قادر و کارساز قوتیں صرف مقتدر سیاسی قوتیں ہوتی ہیں؟ کیا معاشیات کا جبر انسان کو اپنا خیال تبدیل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے؟ ایک نازک سی کونپل کو گلاب کی صورت میں کھلنے کیلئے محض سبب اور نتیجے کا میکانکی عمل ہی درکار ہوتا ہے کیا ؟ کیا مشیتِ الٰہیہ سبب اور نتیجے کو تشکیل دینے والی قوت نہیں ہوتی ؟؟
کچھ لوگ سمجھتے ہیں اور بحث کرتے ہیں کہ قائدِ اعظمؒ نے کبھی نظریہ پاکستان کی بات ہی نہیں کی تھی۔

ایسے ظاہر پرست محقق لفظوں کے پیچھے جھانک کر دیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ حقیقت پہلے آشکار ہوتی ہے اور اس کا نام nomenclature بعد میں رکھا جاتا ہے۔ خیال اپنی حقیقت میں بے نام ہوتا ہے .... جب کسی وجود کی صورت میں آ شکار ہوتا ہے تو عالمِ اشیاء وصُوَر میں اسے کسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ خطبہ الہٰ آباد اور 1940ء کے جلسے تک لفظ پاکستان بطور نعرہ موجود نہ تھا.... لیکن پاکستان کے خدو خال اپنے جغرافیے سمیت اس میں واضح تھے۔

یہ درست کہ قائدِ اعظمؒ نے نظریہ پاکستان کا لفظ بعینہٖ استعمال نہیں کیا .... لیکن جس دو قومی نظریے کی وکالت انگریزوں اور ہندوؤں کے سامنے یہ وجیہہ قامت بیرسٹر کرتا رہا‘ کیا وہ نظریہ پاکستان کے علاوہ کوئی اور نظریہ تھا؟ اگر کسی کی سماعتوں پر لفظ نظریہ پاکستان اور اسلام گراں گزرتا ہے تو وہ اسے دو قومی نظریے two nation theory کی صورت میں جان سکتا ہے....جانچ سکتا ہے۔

اسلام ہی وو قومی نظریے کی بنیاد ہے۔ نظریہ پاکستان کا دوسرا نام اسلام ہے۔ اسلام کے سوا اور کیا حقیقت تھی جو مسلمانوں اور ہندؤ ں میں خطِ امتیاز کھینچ رہی تھی.... دونوں کے آباو اجداد ایک ہی تھے.... وہ ایک ہی زبان، رنگ اور نسل سے تھے.... اُدھر بھی راجپوت تھے ....اِدھر بھی راؤ اور رائے موجود تھے.... لیکن نظریہ حیات کے بارے میں اِن کی رائے الگ تھی۔

اسی دو قومی نظرئیے کو اجاگر کرتے ہوئے قاید اعظمؒ نے بارہا بتایا کہ ہمارے ہیرو اور ولن جدا جدا ہیں، ہمارا ہیرو تمہارا ولن ہے اورتمہارا ہیرو ہماری تاریخ کا ولن ہے .... ہم ایک قوم نہیں‘ دو قومیں ہیں.... ہمیں ایک الگ وطن چاہیے جہاں ہم اپنے آفاقی دین کے اصول و ضوابط کے مطابق زندگی بسر کر سکیں.... ہم پاکستان کے نام پر ایک ایسی لیبارٹری حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ جہاں اسلام کے اجتماعی اصولوں کو جدید سیاسی صورت دے کر دنیا کے سامنے ہم ثابت کر سکیں کہ اسلام کے اصول آج بھی اتنے ہی موثر اور قابلِ عمل ہیں جتنے آج سے تیرہ سو سال....( اس وقت ریاستِ مدیینہ سے پاکستان کا زمانی فاصلہ تیرہ سو برس تھا).... قبل تھے.... اور اسی قبیل کے کتنے ہی بیانات اور مباحثے تھے جو قایدِ اعظمؒ اپنے ٹائپ رائیٹر کی مدد سے پیش کرتے رہے۔

درونِ خانہ حالات یہ تھے کہ جیب میں کھوٹے سکے تھے ....اور .... جید اداروں اور مدرسوں کے سربراہان” قومیں وطن سے بنتی ہیں‘دین سے نہیں “کا راگ الاپ رہے تھے ۔ حضرتِ اقبالؒ نے تڑپ کر حسین احمد مدنی کا نام لے کر رباعی کہی....
عجم ہنوز نداد رموزِ دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد! ایں چہ بو العجبی است
سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است
بمصطفیٰ برساں خویش راہ کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بو لہبی است
( عجم ابھی دین کے رموز نہیں جانتا ، دیوبند سے حسین احمد نے عجب جاہلانہ بات کہی، وہ منبر پر کھڑے ہو کر کہہ رہا ہے کہ ملت وطن سے بنتی ہے۔

وہ مقام محمدِ عربیؐ کیا جانے ! مصطفیٰ ؐ تک خود پہچاو کہ آپ ہی سارا دین ہیں، اگر آپؐ تک پہنچ پائے تو تمام بولہبی ہے)
....یہ رباعی اُس دورِ جبر میں کلامِ اقبالؒ سے قلم زد کر دی گئی تھی ‘ جس دور میں اسلام کوسیاسی قوت اور حصول اقتدار کیلئے استعمال کیا گیا اور ایک مخصوص مکتبِ فکر کی سرکاری سرپرستی کی گئی۔ ۔ بقول شاعر.... صرصر کو صبا اورظلمت کو ضیاکہنے والے دَور میں اسلام پر یہ ظلم بھی ہوا کہ اسے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا چلن عام ہو گیا.... اپنے پسندیدہ مذہبی اور مسلکی گروہوں کو مسلح کیا گیا۔


متحدہ ہندوستان میں اہلِ اسلام اگر دین کو اپنی شناخت کیلئے ایک پرچم کی شکل دے رہے تھے تو بات قابلِ فہم تھی کہ یہ ان کی نسلوں کی بقا کا مسئلہ تھا۔ لیکن مسلمانوں کیلئے علیحدہ مملکت کے وجود میں آنے کے بعد اگر کوئی سیاسی قوت اسلام کا نام اپنی جماعت کو اسلامی ثابت کرنے کیلئے استعمال کرتی ہے تو یہ طرزِ عمل عوام الناس کو خارجی طرزِ فکر کی طرف دھکیلنے کے باعث بنتا ہے۔

ہم سب مسلمان ہیں‘ بحمدللہ ! سب اہل پاکستان اسلام ہی کو ذریعہ نجات مانتے ہیں.... ہم میں سے کوئی ایسا شقی صورت نہیں ‘ جو ملکی قانون کو اسلام کے علاوہ کسی اورنظام کے تابع کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے میں اختلاف کا رنگ صرف اور صرف سیاسی ہونا چاہیےٗ مذہبی نہیں۔ فتح مکہ سے پہلے نازل ہونے والی آیات اور بعد والی آیات کو آپس میں گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔

کفار کے متعلق نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر نہیں ہونا چاہے۔ ایسا طرزِ فکر ہمیں مسلمان کو کافر قرار دینے پر اکساتا ہے۔
کچھ لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ دینِ اسلام کا نام نہ لیا جائے‘ وگرنہ وفاق کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ ہمارے وفاق کا واحد جواز یہی دینِ اسلام ہے.... خواہ نام کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں! نام لینے اور نام استعمال کرنے میں فرق ہے۔

اگر اسلام کا نام فراموش کردیا جائے تو کوئی اور سیاسی یا جمہوری پروگرام وفاق کو متحد نہیں رکھ سکتا۔ قیام پاکستان کی بنیاد یہ نظریہ تھا کہ ہم اپنی آبائی، جغرافیائی اور لسانی عصبیتوں سے ہجرت کرکے کلمہ طیبہ کے زیرِ سایہ ایک نئی ریاستی شناخت کے تحت سفر کریں گے۔ اگرقیامِ پاکستان کی بنیاد اسلام کے علاوہ کچھ اور تھی تو کیا وجہ ہے کہ ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے صرف مسلمان تھے۔

ا یک حلقہ فکر یہ اعتراض اٹھاتا ہے کہ مشرقی پاکستان پھر بنگلہ دیش کیسے بن گیا؟ بقول اندرا گاندھی کیا نظریہ پاکستان بحیرہ بنگال میں غرق ہو گیا ہے؟ نظریہ پاکستان غرق نہیں ہوا، ہمارے بنگالی بھائی اپنے لسانی تعصب کی گنگا جمنا میں غرق ہوگئے۔ سیاسی اور انتظامی غلطیوں کا تعین ایک الگ باب ہے۔ پاکستان چھوٹا اور بڑا ہوسکتا ہے.... نظریہ پاکستان اپنی جگہ پر قائم ہے۔

میرا بازو کٹ جائے تو بھی میری شناخت بطور اظہر وحید قائم رہتی ہے۔ ہماری قوم ایک قوم نہیں.... اور یہ ہجوم بھی نہیں.... بلکہ بہت سی قوموں کا اجتماع ہے....ہم قوم الاقوام ہیں.... we are nation of nations ....یہاں اگر نعرہِ تکبیر بلند رہے گا تو یہ ملک بھی سر بلند رہے گا۔ دین کو بطور اجتماعی شناخت ترک کا کرنے کا نتیجہ بنگلہ دیش نکلتا ہے۔
جس طرح اشخاص اغوا ہو جاتے ہیں ‘ اس طرح بعض اوقات نظریات بھی اغوا کر لیے جاتے ہیں۔

درحقیقت ہر نظریئے کے پیچھے ایک شخصیت اپنے کردار و افکار کی ایک قامت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، اگر اس شخصیت سے محبت کا التزام رکھاجائے تو نظریے کی نک سک بھی قائم رہتی ہے.... بصورتِ دیگر غیر متعلق افراد اپنے مخصوص ایجنڈے کیلئے اس نظریے پر شب خون مارتے ہیں اور اس کی اصل صورت بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ دراصل نظریہ پاکستان کے بانی.... بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ ہیں۔

نظریہ پاکستان کی بہترین تعریف قائد اعظمؒ نے ان الفاظ میں کی ہے ” پاکستان اسی وقت بن گیا تھا‘ جب ہندوستان میں پہلا ہندو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوا تھا"۔ نظریہ پاکستان کی اس سے بہتراور مختصر الفاظ میں جامع ترین تعریف شاید ممکن نہیں۔ نظریہ پاکستان کا نعرہ ہائی جیک کرنے کی اجازت ایسے پارساؤں کو نہیں دی جاسکتی ‘ جن کے بڑے پاکستان بنانے کے” گناہ “میں شامل نہ تھے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں" پاکستان بچانے کیلئے ہمیں اتناہی اسلام جاہیے جتنا قائداعظم کے پاس تھا"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :