عید الاضحی - فلسفہ قربانی سمجھنے کی ضرورت!

پیر 19 جولائی 2021

Faheem Ul Islam

فہیم الاسلام

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
انسانی زندگی عقیدت و فدائیت ، عشق ومحبت، خود سپردگی ، عجزو نیاز اور پرستش و عبدیت سے عبارت ہے ۔ حواس خمسہ کے ساتھ انسان کو ان اوصاف کا خاصہ بھی عطا کیا گیا ہے ۔ وہ اپنے ان ہی جذبات کی تسکین اوراپنے محبوب ومقصود کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتا آیا ہے۔

اس کی خاطر اپنی جان، اپنا مال ، اپنے جذبات اور اپناسب کچھ قربان کرنے کے لیے ہر وقت آمادہ وتیار رہتا ہے ۔ اسی انسانی فطرت کی تسکین اور حقیقت کےاعتراف کے طور پر مسلمانوں کوعید الاضحیٰ (عید قرباں) عطا کی گئی ہے ، جوفطرت کے عین مطابق اورصحت مند زندگی کی علامت ہے ۔
 اب ایک بار پھر عالم اسلام میں وہ دن آ رہا ہے جس دن مسلمان اپنے رب کی رضا کی خاطر  اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت مبارکہ کو زندہ کرنے کا جتن کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

زمین کو  قربانی کےخون کے رنگ  دیا جائیگا اور تکبیرات کے نعروں سے فضا کو مہکا جائے گا ۔ اللہ تعالی کا قرب  اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے نچھاور کی جانے والی ادا  قربانی کہلاتی ہیں ۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے مطالبہ کیا  تو مسلمان  ہمیشہ اسے اپنی جان و مال کے ساتھ اللہ تعالی کے دربار میں حاضر ہوئے آئیے ہیں۔

عید الاضحی کی سنت  حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام  کی یاد میں منائی جاتی ہے ۔ جو جذبۂ شہادت اور قرب الٰہی کا شوق حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل نے دہرایا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی مبارک آزمائشوں  سے بھری پڑی ہے اور تاریخ کے اوراق کو پلٹنے کا جب موقع ملتا ہے تو آنکھیں نم ہو جاتی ہے اور دل محبت کے چشمے روتا ہے کہ کس طرح ابراہیم علیہ السلام نے ہمیشہ سے رب کے حضور لبیک کا لبادہ اوڑھ لیا۔

اللہ تعالی نے انہیں  بڑھاپے میں صالح اور نیک بیٹا عطا کیا تھا اور اس کے بعد ایک ایسی آزمائش جو خواب میں حضرت ابراہیم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے اور بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل کو قربان کر رہے ہیں  اس خواب کی تعبیر کے لیے وہ اپنے لخت جگر سے سے ان کی راے مانگتے ہیں اور بیٹا اللہ تعالی کی راہ میں شہادت کے طالب ہوتے ہیں  اور دونوں  تاریخ رقم الفاظ سے قربانی کی یادگار کو تا صبح قیامت  قائم رکھتے ہیں۔

اس عمل میں نہ خلیل اللہ کے ہاتھ کانپے اور نہ ہی اسماعیل کی گردن،   دونوں  دربار خدا میں جبیں نیاز ہوۓ، آنکھوں سے پٹی ہٹی تو اسماعیل زندہ تھے اور اللہ کا ارشاد ہے کہ آپ  نے اپنا خواب پورا کیا، اور یہ ادا  اللہ تعالی کو اتنی محبوب ہو جاتی ہے کہ اس قربانی کی تاکید ہر امت کو کی جاتی ہے اور امت محمدیہﷺ  میں بھی صاحب استطاعت مسلمانوں پر اس قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جب عرض کیا گیا کی قربانی کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا آپ کے باپ اور اسماعیل کی سنت ہے۔ اور اللہ تعالی کا یہ ارشاد کہ وہ اپنے محسن  بندوں کے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے۔ اس پاک عمل کو دہرانے  اور جانوروں کا خون بہانے سے پہلے ہمیں اپنے نیتوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم سچ میں اسی شوق اور محبت سے اس سنت کو ادا کر رہے ہیں جس طرح مطلوب خدا ہے یا ہم دیگر مذاہب کی طرح رسمی ادا دہرارہے ہیں۔

کیونکہ اللہ کے دربار نہ تو خون پہنچتا ہے نہ ہی گوشت بلکہ آپ کے اعمال کا دارومدار آپ کی نیت پہ ہے اب وہ نیت بڑے قیمتی جانور خریدنے کی ہو یا سماج میں رسمی ادایگی کی واہ واہ ہو۔ اس قربانی کی عمل کو دہرانے سے ہم میں محبت، شہادت، ایثار جیسے اوصاف حاصل ہونے چاہیے۔ اگر آج رب کی رضا کی خاطر ہم نے جانوروں کی گردنیں کاٹ دی تو کل  اسلام کی حفاظت کیلیے ہمیں اپنے لخت جگر یا اپنی جان دینی پڑے تو کوئی کوتاہی نہیں آنی چاہیے۔

رب دیکھنا چاہتا ہے کہ جو بندہ آج اس کی رضا کی خاطر جانوروں کو قربان کر رہا اگر جادہ  حق  کی پاسبانی اور حفاظت کے سفر میں اللہ کے دین کو اس کے گردن کی ضرورت پڑی تو اس قربانی کے جانور کی طرح اپنی گردن کو پیش کرنا چاہیے۔ لیکن آج افسوس کے ساتھ موجودہ امت میں قربانی کا روح  دیکھنے کو نظر نہیں آرہا ہے ہم محض اس قربانی کو ایک رسمی ادا سمجھتے ہیں کہ نہ فلسفہ محبت اور قرب الہی کا ذریعہ۔

اللہ تعالی ہم سے سے قربانی کا گوشت نہیں مانگتا ہے ہے بلکہ ان کے دربار  میں تقوی اور ان کی راہ میں اپنی گردن نچھاور کرنے کا  جذبہ ۔قربانی کرنے سے انسان کے اندر مال و جان کی محبت کم ہو جاتی ہے اور جدت پسندی کا مادہ اور زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے تاکہ کل اگر اسلام کے دشمن کے خلاف لڑنا ہو تو  مسلمان اپنی گردن اور باقی محبوب ترین چیزیں اللہ کی خاطر لٹانے میں کوئی کوتاہی باقی نہیں رکھے گا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو ہم فخر سے ادا کرتے ہیں لیکن اصل میں جو مقصد اس کے پیچھے چھپا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی سنت کو اپنانا۔ اپنے نفس کو پاک کرنا اپنے آپ کو خدا کی راہ میں کمربستہ ہو کے دین کی سربلندی کیلئے کوشاں رہنا۔ قربانی کی اصل روح  ہمارے اندر تب آجائے گی جب ہم اسلام کو اپنا طریقۂ حیات  اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح  ہر حکم پر لبیک بالقلب کہے۔

کیونکہ جب تک انسان کے اندر دنیا کا طمع ختم نہ ہوجائے تب تک وہ خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا اور ایک مسلمان کی زندگی اللہ کی امانت ہے اور اس امانت کے لئے ہم سب کو ہمیشہ تیار رہنا چاہیے اور اس امانت کی قدر اسی طریقے سے کرنی چاہیے جس طرح اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے اور جتنی بڑی کامیابی ہوتی ہے اتنی بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ہمیں اپنے مذہب کے تہواروں کو ان کے مقصد کے عین مطابق منانا چاہیے  نہ کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح ان تہواروں کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھے۔

کہیں آپ کی قربانی جذبہ ایثار اور خلوص سے تو خالی نہیں؟ اگر ایسا ہے تو اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کریں اور جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنی جھوٹی انا ،خواہشات نفس دنیا کا طمع، سماجی واہ واہ کو بھی قربان کر دے۔جو مسلمان آج قربانی کرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یاد کو تازہ کر رہے ہیں ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ قربانی سے زیادہ قربانی کے پیغام کو سمجھیں کہ وقت کے نمرود کے سامنے کلمہ حق کہنے کی ضرورت اپنے اندر پیدا کرے دین و ایمان اور ملت اسلامیہ کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے گریز اور دریغ نہ کریں تاکہ اپنا گھر بار چھوڑنا پڑے۔

اجنبی سرزمین میں بودوباش اختیار کرنی پڑے حتیٰ کہ اپنی اولاد کو قربان کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو بھی ہمت اور حوصلے سے کام لیا جائے ۔سردار وادیوں اور سنگلاخ پہاڑیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے خود کو مٹاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں جب تک کامیابی ہمارے قدم چوم لے، اور اللہ تعالی سے یہی دعا ہے کی اس عظیم الشان موقع پر ہماری قربانی کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنے دین کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دلوں کو محبت، شہادت اور خلوص نیت اور تقوی جیسے اوصاف سے منور کرے۔
قربانی نفس کی ہو تو کامیاب ہے مومن
ورنہ گردن پہ چھری چلانا کوئ بڑی بات نہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :