خیر امت کے موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داری

جمعہ 29 اکتوبر 2021

Faheem Ul Islam

فہیم الاسلام

ساری تعریف اس خدا کیلئے ہے جو کاینات کا تنہا خالق ،مالک،حاکم اور فرماں روا ہے۔جس نے انسان کو پیدا کیا،اسکو علم و عقل کی قوتیں بخشیں اور اسے زمین میں اپنی خلافت سے سرفراز کیا۔اور اس انسان کے لیے وقتاً فوقتاً اپنے برگزیدہ پیغمبر مبعوث فرمایۓ۔پھر خدا کی بے شمار رحمتیں ہوں اس کے نیک بندوں پر جو انسان کو انسانیت سکھانے آے۔

جنھوں نے آدمی کو اس کے مقصد زندگی سے خبردار کیا اور اسے دنیا میں جینے کا صحیح طریقہ بتایا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا اور فرشتوں سے فرمایا (انى جاعل في الارض خليفه)کہ اے فرشتو میں دنیا میں اپنا اک خلیفہ بھیجنے والا ہوں اور پھر آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی۔اور اس انسان کو دنیا میں یوں ہی نہیں چھوڑا بلکہ زندگی کا مکمل ضابطہ حیات دے کر بھیجا۔

(جاری ہے)

اور اس انسان کی زندگی کا مقصد بھی بتایا (وما خلقت الجن و الانس الا ليعبدون)۔ترجمہ:کہ میں جن و انس کو پیدا نہیں کرتا بس اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا۔پھر جب انسان اللہ تعالیٰ کو دنیا کی رنگ رلیوں میں مگن ہو کے بھول گیا اور اپنے اصل مقصد زندگی کو بھول گیا تو اللہ تعالی نے اس کی رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنی رشد و ہدایت کے ساتھ بھیجا تاکہ انسان کو مقصد وجود یاد دلایا جائے۔

اور جس انسان نے اپنے اصل مقصد زندگی کو سمجھا اور اپنی ہر کوشش رضاے الہی کی خاطر لگادی تو وہ انسان اس دنیا میں بھی کامیاب ہوا اور آخرت میں بھی کامیاب ہوا۔اور جس انسان نے اپنا مقصد زندگی کو بھلا دیا اور اس دارفانی کی زندگی کو دارالعقبی پہ ترجیح دی تو وہ انسان دنیا میں ہی عزاب الہی کا شکار ہوا اور آخرت میں بھی اس کے لئے دردناک عزاب ہے۔


اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی دعوت اس وقت خاص علاقوں اور خاص لوگوں کے لئے تھی۔اور جن لوگوں نے اپنے پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہا اب ان پر یہ دعوت حق کا انجام دینا فرض بن گیا۔اب ان لوگوں کی یہی ذمہ داری بن گئی کہ جو دعوت آپ تک پہنچ گئی اس کو دنیا کے سامنے پیش کرے مگر وہ لوگ اس منصب کو بھول گئے اور دنیا کے رنگ رلیوں میں مگن ہوگئے پھر اللہ تعالی کی طرف سے ان لوگوں پر سخت عذاب آیا اور ان قوموں کو ہلاک کیا جو پیغمبرانہ مشن کو چھوڑ کر دنیا کی رنگ رلیوں میں مگن ہو کے اپنا مقصد زندگی بھول گئے کیونکہ یہ انسان اس دنیا میں اللہ کا خلیفہ ہے اور اسے داعی الی اللہ کا کردار نبھانا ہے۔

جیسے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے قوم عاد، قوم ثمود،جیسے قوموں نے پیغمبرانہ مشن چھوڑ کر اس دنیا کو آخرت پر ترجیح دی اور طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہوگئے تو پھر اللہ تعالی نے ان امتوں کو اس دنیا میں بھی عذاب الہی کا شکار بنا دیا جیسے کہ ہم سے پہلے یہودی اس کٹہرے میں کھڑا تھے مگر وہ اس فرض کو انجام نہیں دیے انہوں نے کچھ حق کو چھپایا اور کچھ حق کے خلاف گواہی دی فی الجملہ وہ حق کے نہیں بلکہ باطل کے داعی بن گئے پھر اللہ تعالی نے ہمیں ان کا اس فرض کو انجام نہ دینے کا نتیجہ بھی بتایا اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتے ھیں (ضربت علیہم الذلہ والمسکنہ وباؤ بغضب من اللہ) ترجمہ: ذلت و خواری اور پستیو بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے.
اور آخر پر اللہ تعالی نے اپنے ایک محبوب اور برگزیدہ پیغمبر جناب حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ان کی دعوت کسی خاص گروہ کسی خاص علاقے کے لیے مخصوص نہیں تھی بلکہ وہ رحمت اللعالمین بنا کر بھیجے گئے ان کی دعوت عالم انسانیت کی طرف ہے۔

اور حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اس دنیا میں مبعوث نہیں ہوگا کیونکہ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک حدیث میں فرماتے ہیں( لا نبی بعدی) ترجمہ: کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی 23سالہ نبوت کی زندگی میں وہ ہر ایک کام اور وہ ہر حکم جو اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر پر نازل ہوتا تھا اپنے امتیوں کو من و عن سمجھاتے اور اور عملی زندگی میں ان کو سکھاتے تھے۔

تاکہ کوئی حجت باقی نہ رہ پائے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے صحابہ سے خطاب کرکےفرماتے ہیں کہ اے صحابہ اے امت کے جانشینوں کیا تم اس بات پر گواہ ہو کہ اللہ تعالی نے جو بھی مجھ پہ نازل کیا میں نے من و عن آپ تک وہ پہنچا دیا تو صحابہ نے لبیک یا رسول اللہ کہ کے اس بات کا اقرار کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو ایک جماعت بنا کر چھوڑ۔

اللہ تعالی اس امت کی ذمہ داریاں اور اس امت کا منصب اس آیت میں یوں بیان کرتے ہیں( کنتم خیر عامہ اخرجت للناس تعمرونا باالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللہ) ترجمہ: آپ ہی وہ بہترین امت ہے جن کو لوگوں کے لئے نکالا گیا تاکہ آپ نیکی کا حکم دے اور برائی سے اجتناب کرنے کی دعوت دیں اور خود اللہ پر ایمان لاؤ۔اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے جو شہادت حق کا ادا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شخصی حیثیت سے فرض تھا وہی اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیوں پر ایسے ہی فرض ہے تاکہ دنیا کے لوگوں کو بتایا جائے کہ تمہارے لئے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ دین اسلام ہے جیسا کہ اللہ اپنے قرآن میں فرماتے ہیں (ان الدین عند اللہ الاسلام). کہ بے شک اللہ کے نزدیک زندگی گزارنے کا واحد طریقہ جو قابل قبول ہے وہ ہے الاسلام اسی دین کو اپنا کر ایک انسان کامیاب ہوسکتا ہے اب جس انسان نے یہ طریقہ زندگی اپنایا اور اس پر ایمان لایا تو وہ اس امت کا حصہ بن چکا ہے اور اس پر وہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شخصی حیثیت سے عاہد ہوتی تھی۔

یہی ہے اس امت کی ذمہ داری کہ ہمیں تین شرائط اپنے اندر پیدا کرنے ہیں اور ان کی دعوت لوگوں کو دینی ہے تبھی ہم خیر امت کے دائرے میں رہ سکتے ہیں کیونکہ اس امت کو پیغمبرانہ مشن اپنے کاندھوں پر لے کر دعوت حق لوگوں کو پیش کرنا ہے کیونکہ کل روز محشر میں ہم سے سوال کیا جائے گا اب تک جو دعوت حق پہنچی کیا آپ نے غیروں کو اس کی دعوت دی یا نہیں کیونکہ اس امت کو خیر امت بتایا گیا ہے تو یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ جو دعوت ہم تک پہنچ گئی وہ دوسروں تک پہنچائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک حدیث میں فرمایا ہے (بلغو عنی ولو آیہ) یہ حدیث اس امت کے نوجوان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دعوت کو ہر ایک فرد تک پہنچانی ہے جس دعوت کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔

ہم تب ہی خیر امت ہے جب ہم لوگوں کو امر بالمعروف ونہا عن المنکر کی دعوت دے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کے عذاب سے بچاؤ تو اس امت کے ہر فرد کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس دور میں اس کی ذمہ داری وہی ہے جو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تھیں ہمیں حق کی دعوت لے کر اٹھنا ہے اور پوری دنیا پر چھا جانا ہے کل قیامت کے دن یہ سوال نہیں ہوگا کیا آپ نے دین کو غالب کیا یا نہیں بلکہ یہ پوچھا جائے گا اپنی وسعت کے مطابق تم نے اسلام اور دعوت حق پھیلانے کی کتنی کوشش کی ہے ہمیں کل حشر کے میدان میں گواہ بناکر کھڑا کیا جائے گا تو وہاں ہم کو اس چیز کی گواہی دینی ہوگی کہ ہم نے لوگوں تک اس دین کو پہنچایا جو دعوت حق ہم تک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچایا اگر ہم نے اس دعوت کو ٹھیک ٹھیک نہیں پہنچایا تو کل وہاں ہمارے خلاف الٹی حجت قائم ہوگی وہ لوگ کہیں گے کہ ہماری طرف سے کوئی اسلام کی دعوت لے کر نہیں آیا پھر وہاں پہ اللہ نہ کرے ہم عذاب الہی کے مستحق ہوں گے کیونکہ ہم نے اس پیغمبرانہ مشن کو صحیح طریقے سے انجام نہیں دیا ہو گا۔


ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہے آج کے دور میں کوئی بھی اس منصب کو نبھانے کی کوشش نہیں کرتا نبھانا تو دور کی بات ابھی تک ہم لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ امت مسلمہ کی ذمہ داریاں کیا ہے یہ ہمارے لئے افسوس کی بات ہے کہ وہ نوجوان جس کے ہاتھ میں اقوام کی تقدیر ہوتی ہے وہی نوجوان اسلام سے بہت دور چلا جارہا ہے وہ نوجوان جس کے ہاتھ میں انقلاب کی چابی ہے وہی نوجوان فحاشی اور بداخلاقی کا شکار ہے وہ نوجوان جس کے بارے میں حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
‌‌
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے آگے آسمان اور بھی ہے
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
وہی نوجوان آج دنیا پرستی میں مگن ہوا ہے جس امت کے نوجوانکے ہاتھ میں قرآن ہونا چاہیے وہی فحاشی اور تنگ نظری کا شکار ہے ایک عالم دین کا فرمان ہے کہ اگر تم مسلمانوں کو شکست دینا چاہتے ہو تو اس کے نو جوان میں فحاشی پھیلا دو یہی حال آج ہمارے معاشرے میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے اگر نوجوانوں میں اسلام کی دعوت اور ان کا مقصد زندگی ان کے سامنے پیش نہ کیا گیا تو اس امت کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو سابقہ امتوں میں ان کا حال ہوا اس لئے اب اس امت کے ہر ایک فرد کو قرآن کی دعوت لے کر اٹھنا ہے اور پوری دنیا پر چھا جانا ہے۔

اس پر فتن دور میں ہمیں چاہیے کہ ہم تنگ نظری کا شکار نہ بنے اور ہر لحاظ میں قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرے اور ہمیشہ ایک اسلامی جماعت بن کر رہے کیونکہ انفرادی زندگی میں اسلام کا حق ادا نہیں ہوسکتا اور اسلام بھی جماعت میں رہنے کا حکم دیتا ہے۔جیسا کہ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہما سے فرمایا میں تم کو پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے جماعت،سمع،طاعت،ہجرت اور خدا کی راہ میں جہاد (احمد و حاکم). اسلام کے بیشتر تقاضے اور اس کے اصل مقاصد جماعت اور اجتماعی سعی ہی سے پورے ہوسکتے ہیں اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت سے الگ ہونے والے کو اس کی نماز اور روزے اور مسلمانی کے دعوے کے باوجود اسلام سے نکلنے والا قرار دیا اسی مضمون کی شرح ہے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اس ارشاد میں فرمائی ہے کہ (لا اسلام الا بجماعۃ).(جامع بیان العلم لابن عبد البر)
اب ان احادیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ایک جماعت بن کر رہنا چاہیے نہ کہ الگ الگ ہر حال میں قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ ہم اس عظیم پیغمبرانہ مشن کو بخوبی انجام دے اور اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ کے ہاں ان لوگوں میں شامل ہو سکے جو اللہ کو محبوب ہو اللہ ہم سب کو قرآن و حدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے کی توفیق عطا کرے اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :