عمران خان، کپتان سے وزیراعظم تک

بدھ 30 دسمبر 2020

Jamil Bin Iqbal

جمیل بن اقبال

ذرا غور کریں کہ آج کے وزیر اعظم عمران خان وہ انسان ہیں جس نے ضیاءالحق اور مشرف کی جانب سے وزیراعظمی اور وزارت کی آفر کو ٹکرایا تھا، یہ وہ انسان ہیں جس نے تب بھی ہمت نہیں ہاری جب پوری ٹیم نے ورلڈکپ جیتنے کی امید ترک کردی تھی، یہ وہ انسان ہیں جس نے ایشیاء کا سب سے بڑا مفت کینسر ہسپتال بنایا، یہ وہ انسان ہیں جو ایک عام کرکٹر اور کپتان سے ملک کا وزیر اعظم بن گیا، لیکن ذرا غور کریں کہ کس طرح اس انسان سے آج کل وہ سب کچھ کہلوایا جا رہا ہے جو اُس کی شہرت اور مقبولیت میں کمی اور لوگوں کا اُس پر اعتماد کو ختم کیا جارہا ہے۔


 یہ سب اس لیے ہورہا ہے کیوںکہ عمران خان ایک سیاسی اور سول آدمی ہیں، اس کے علاوہ خان صاحب کے پاس عوامی حمایت اور اعتماد کی طاقت بھی موجود ہے اور عوام کی اعتماد پوری دنیاء میں سب سے بڑی طاقت سمجھی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

جس طرح بھٹو کو عوامی حمایت اور اعتماد حاصل تھا اُسی طرح خان صاحب کو بھی عوامی اعتماد حاصل ہے۔ اب فوج سے ذیادہ لوگ خان صاحب پر اعتماد کر رہے ہیں اور یہی اعتماد فوج اور اسٹبلشمنٹ کی انکھوں میں کھٹک رہی ہے۔

کیوںکہ یہ اعتماد اُس وقت خان صاحب کی کام آئے گا جب فوج اور خان صاحب کے درمیان ڈیڈلاک ہوجائے گا، جب دونوں کے درمیان فاصلے بڑھیں گے تب ایک بار پھر پاکستان کی مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ اگر عوام خان صاحب کے ساتھ کھڑی رہی اور فوج کو سیاست میں مداخلت کرنے سے روکے رکھا اور خان صاحب کا ساتھ دیا پھر تو اسٹبلشمنٹ اپنے ایجنڈے میں ناکام ہوجائے گی، لیکن اگر اس طرح نہیں ہوا اور خان اب سے ہی عوامی حمایت کھو بیٹھا تو تب سوال پیدا نہیں ہوتا عوام خان صاحب کے ساتھ کھڑی رہے بلکہ ملک ایک بار پھر پستی کی طرف چلا جائے گا اور ملک کو بلاواسطہ یا بالواسطہ مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑیگا۔


یہ اس ملک کی تاریخ رہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے ہمیشہ عوامی،سیاسی اور سول رہنماوں کو پہلے حکومت دی ہے پھر بدنام کیا ہے اور بعد میں اُس کی حکومت کو کسی دوسرے سول آدمی یا پھر خود اُسکی حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کبھی بھی نہیں چاہتی کہ اس ملک میں جمہوریت ترقی کرے۔ اور جمہوریت کا راستہ روکنے کے لیے انہوں نے تمام سیاست دانوں کو بدنام جبکہ فوجی جرنیلوں کو واحد مسیحا بنا کر قوم کے سامنے پیش کیا ہے۔

فاطمہ جناح سے لیکر نواز شریف تک جب بھی کسی سیاسی رہنماہ نے فوج کی پالیسیز کے ساتھ اختلاف کیا ہے اُس کے اوپر غداری، کرپشن، ملک دشمنی یا پھر درباری مولویوں کی جانب سے کفر کا فتویٰ لگا کر اُسے بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ ظاہری بات ہے جب سیاستدان بدنام ہوں گے تو نتیجتاً جمہوریت بدنام ہوگی اور  جب جمہوریت بدنام ہوگی تو عوام کا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھے گا جس کی نتیجے میں عوام فوج کو مسائل کا واحد حل سمجھیں گی۔


تو اسٹبلشمنٹ کی اس کھیل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ہم آج کل کی صورتحال اور خان صاحب کی ماضی کے بیانات اور موقف اور آج کل کی بیانات اور موقف پر غور کریں۔ مثال کے طور پر آج کل مشرف کے حوالے سے حکومت اور عمران خان کا موقف دیکھ لیجئے، ماضی میں خان صاحب مشرف کے خلاف کیس بنانے اور اُس کو پھانسی دینے کی باتیں کیا کرتے تھے لیکن اب جب عدالت نے مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی ہے تو خان صاحب اور حکومت اس کے خلاف کھڑے ہیں، حالاںکہ حقیقت یہ ہے خان اب بھی ذاتی طور پر یہی چاہتے ہوں گے لیکن وہ اسٹبلشمنٹ کی ہاتھوں مجبور ہے۔

یہاں پر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ فوج بحثیت ادارہ خود بھی اس فیصلے کو بیک ڈور راستوں سے روکوا سکتی ہے اور اُن کی مرضی کے بغیر کبھی بھی مشرف کو پھانسی نہیں ہوسکتی لیکن اسٹبلشمنٹ کا عمران خان کے منہ سے مشرف کے حق میں اور فیصلے کے خلاف بیانات کہلوانا باقائدہ ایک پلان کے تحت ہورہا ہے تاکہ خان صاحب کے امیج اور ساکھ کو عوامی سطح پر نقصان پہنچائے تاکہ کل کو جب خان صاحب ممکنہ طور پر اسٹبلشمنٹ کے خلاف محاذ کھولیں گے تو مخالفین اور عوام انہی بیانات کو بنیاد بنا کر خان کے بجائے اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجائے۔

اس کے علاوہ کافی اور بے شمار مثالیں ہماری سامنے موجود ہیں جس میں خان صاحب کی ماضی کے موقف اور موجودہ موقف میں تضاد ہے
تو دوستوں یہ بہت بڑا کھیل ہے جو برسوں سے ہمارے ساتھ، آپ کے ساتھ اور جمہوریت کے ساتھ کیھلا جا رہا ہے، تو ذرا "سویدان"(محتاط) رہیں اور حقیقت جان کر جیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :