سیاست میں مذہبی اصطلاحات کے استعمال کیوں؟

ہفتہ 27 اپریل 2019

Javaid Ahmed Idrisi

جاوید احمد ادریسی

اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ اختلافِ رائے گفتگو کے حُسن کو چار چاند لگا کرمزین کر دیتی ہے بشرطیکہ ٍدورانِ گفتگو باہمی ادب و آداب کاخاص خیال رکھا جائے ،صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے ،کسی سُرخ لکیر کو عبورکرنے سے گریز کیا جائے ۔یہ روایت کبھی اُمتِ محمدیہ  ﷺ کا خاصہ ہوا کرتی تھی جسے آج صرف "مہذب معاشروں" نے اپنا کر برقرار رکھا ہوا ہے ۔

۔۔صد افسوس!!!
پاکستان میں جمہوریت کے مغنیوں کا طرزِ سیاست بد سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے گذشتہ ایک دہائی سے مذہبی اصطلاحات کا بے دریغ ،بلکہ جاہلانہ استعمال کیا جارہا ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جو قابل شرم ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ مذمت ہے اور ناقابلِ برداشت بھی۔ قارئین کویقینا یاد ہوگا کہ نغمہ خوانوں کا یہی ٹولہ مختلف ٹی وی پروگراموں میں کبھی اپنے سیاسی جماعت کے سربراہ کو حضرت سیدنا عمر ؓ سے تشبیہ دیتا نظر آیا ، کوئی اپنے دورِ حکومت کو خلافت راشدہ کا دورثابت کرتا ہوا پایا گیا، کبھی کوئی اپنی جہالت یا کم علمی کے باعث صحابہ کرام ؓ و اہل ِ بیت اطہارؓ کی تو ہین کرتااور لبرل ازم کی آڑ میں شعائر اسلام کی دھجیاں بکھیرتاہوا دکھائی دیا بلکہ یہاں تک بھی دیکھنے میں آیا کہ یہ ٹولہ خود کو  "حُسینی "  اوراپنے مخالفین کو  " یزیدی"  گردانتا رہا۔

(جاری ہے)

ایسا ہی ایک منظر گذشتہ روز ہمیں ایک نجی نیوز چینل کے ایک مذاکرے میں دیکھنے کو ملا جب پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی انتہائی ذمہ داراور سیاسی رہنما محترمہ شہلا رضا صاحبہ نے وزیرِ اعظم پاکستان جناب عمران خان کے ایک بیان پرتنقیدی تبصرہ کرنے کے دوران انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحابی رسولؐ ،کاتب وحی، محب اہل بیت ؐ ، امیر المومنین حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس و مکرم ذاتِ مبارکہ اور آپ ؓ کے سُنہری اسلامی دورِ خلافت پر بے رحمانہ طنز و تشنیع کے نشتر برساڈالے اُن کا یہ عمل دانستہ تھا یا غیر دانستہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی بخوبی جانتی ہے یا محترمہ خود،لیکن اُن کے اندازِ بیاں اِسے عملِ دانستہ قرار دیتے دکھائی دے رہے تھے۔

اُن کے متنازع بیان کے بعدسماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارمز پر دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ عوام الناس نے بھی شدید رد عمل کا اظہار کیااور اسے فرقہ واریت کو ہوا دینے کے مترادف قرار دیااِن کے نزدیک محترمہ نے یہ عمل کر کے مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو پھیلانے اور مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس پر نیشنل ایکشن پلان کوحرکت میں آنا چاہئے اس تمام تر ردعمل کے پیش ِ نظرمحترمہ شہلا رضا صاحبہ نے اپنے متنازع بیان کی وضاحت کچھ ان الفاظوں میں فرمائی:
 "گذشتہ روز ٹی وی پروگرام میں ، میں محض عمران خان کے ایک بیان کی طرف اشارہ کر رہی تھی اِس سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں تھی میں تمام مقدس شخصیات اور نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ کی عزت و عظمت پر یقین رکھتی ہوں ۔

"
شہلا رضا کی وضاحت مقتدر دینی حلقوں کو مطمئن نہ کر سکی علماء کرام کا مطالبہ ہے کہ محترمہ کو ٹی وی پر آکراپنے اس عمل پرتوبہ کرتے ہوئے مسلمانوں سے باقائدہ معافی مانگی چاہئے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرنی چاہئے ۔
یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا بار بار کیوں ہوتا ہے؟کیوں انہیں اپنی ناعاقبت اندیشی کے سبب ایسے نامناسب حالات سے گزرنا پڑتا ہے؟  اس کا جواب جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ پاکستان میں موجود یہ سیاسی طبقہ دین سے مکمل طور پر نا آشنا ہے انہوں نے جتنا وقت دنیائے سیاست کو دیا ہے اگر اس کا ایک چوتھائی دین کے لئے صرف کر لیتے تو آج نہ انہیں اپنی جہالت کے سبب یوں شرمندگی اُٹھانی پڑتی۔

یہی وجہ ہے کہ آج فریقِ مخالف ان کے لیڈرکو  " صاحبہـ" کہہ دیں  (جو قابل اعتراض لفظ بھی نہیں ) تو وہ اُسے یہ اپنے لیڈران کی "شان"  میں بد ترین گستاخی تصور کر کے آسمان سر پہ اُٹھا لیتے ہیں، مخالفین کو  "تمیزسکھانے ـ"  بیٹھ جاتے ہیں، گلی گلی احتجاج کرتے پھرتے ہیں اس کی مخالفت میں قراردادیں منظور کراتے پھرتے ہیں لیکن جب با ت ہوتی ہے اسلام کی مقدس ترین ہستیوں کی ، محمد رسول اللہ ﷺ کے جانثاران ؓ کی یا آلِ و ازاجِ مطہرات ؓ کی دانستہ یا غیر دانستہ بے ادبی یا گستاخی کی تو اُسے آئی گئی کر دیا جاتاہے اقبال نے بلکل ٹھیک ہی کہا تھا  "جدا ہو دیں سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی "۔

 دین سے نا بلد ل یہ لوگ جانے اس کی حساسیت کو کیوں نہیں سمجھتے ؟؟  حضور یہ دین کا معاملہ ہے اس میں احتیاط برتنی چاہئے زبانوں کو یو ں بے لگام نہیں چھوڑا جاتا۔ ماضی قریب میں پاکستان اسی فرقہ واریت کی آگ میںجھلس کر رہ گیا تھا بے شمار شہدا ء نے اپنے خون سے اس آگ کو بجھایا ۔دین و ملت کے دشمن آج بھی ایسی ہی کسی "غلطی"  کے انتظار میں ہیں کہ کب ایسے موقع کا فائدہ اُٹھایا جائے اور ملک کو دوبارہ اسی آگ میں ڈال دیا جائے ۔

میری پاکستان کے سیاسی طبقے سے دست بستہ یہ گزارش ہے کہ خدار، خدارا!!! اپنی اپنی جماعت کی نمائندگی کرنے والوں کو کم از کم اس ایک معاملے پرضرور باور کرائیں کہ مذہبی اصطلاحات کے استعمال سے گریز کریں اور اگرکوئی کسی موقعہ پر اسے بطور مثال یا دلیل کے پیش کرنے چاہتا ہے توانتہائی احتیاط سے کام لیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :