
تضاد
پیر 30 ستمبر 2019

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
یہاں سے فراغت پاکر ہم ساتھ والے کمرہ کی جانب بڑھے تو اس میں بھی اسپیشل بچوں کا امتحان جاری تھا یہ بصیرت سے محروم طلبا و طالبات تھے ان کودیکھ کردل اک بارپھر بیٹھ سا گیا، اللہ تعالیٰ نے انہیں سوائے دیکھنے کے ہر نعمت سے نواز رکھا تھا اس میں کیا حکمت ہے یہ ایک راز ہے اسکی تہہ تک پہنچناہمارے بس سے باہر ہے ، بچے سوالات حل کرنے میں مگن تھے ، انہیں خاص کاغذ اور بریل فراہم کی گئی تھی انگریزی کے پرچے میں وہ خط، کہانی اور دوسرے سوالات حل کر رہے تھے ، ان کے استاد جو بطور خاص ممتحن کے طور پر لاہور سے ملتان تشریف لائے تھے وہ بھی نابینا تھے انھوں نے اپنی گود میں لیپ ٹاپ رکھا ہوا تھا ۔اور ہینڈ فری کے ذریعہ سن کر انکی راہنمائی فر ما رہے تھے ، خاص مہارت سے یہ پرچہ حل کر رہے تھے ان کے جوابات کوصرف ہاتھ سے محسوس کیا جا سکتا تھا جو کاغذ پر ابھرے ہوئے تھے ۔
اس سے اگلا کمرہ میں جسمانی طور پر معذور طلباء طالبات کمپیوٹر کا امتحان دینے میں مصروف عمل تھے یہ بھی بولنے اورسننے کی صلاحیت سے محروم تھے تا ہم انکی ٹیچر سوالات کواشاروں کے ذریعہ ان پے واضع کر رہی تھی دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی کاپی کرنے کی کاوش میں مصروف دکھائی نہ دیا ہمیں بتایا گیا کہ ٹیچر کے والد بھی بچوں کی طرح اس نعمت سے محروم ہیں لہذا انکاتقرر ضروری سمجھا گیا کیونکہ یہ اشاروں کی زبان سمجھ سکتی ہیں ۔ اس موقع پر انکی کو ارڈ ینیٹر شکوہ کناں تھیں کہ اس طرز کے بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع انتہائی محدود ہیں ۔اس کے برعکس جسمانی معذوری اور بصیرت سے محروم افرادہماری سوسائٹی میں بڑے پروفیشنل ،اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں ، انھوں نے مزید کہا کہ اسپیشل افراد کیلئے سماجی سطح پر کوئی قابل عمل مروجہ ڈھانچہ نہیں ہے ۔اس لیے اس طرز کے افراد کو عام لوگوں کی طرح نقل و حرکت کرنے اور بنیادی ضروریات کے استعمال میں خاصی دشواریاں پیش آتی ہے، مغربی ممالک میں اسپیشل افراد کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، عوامی مقامات پر ان کیلئے قریبا ً تمام سہولیات موجود ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کا خاصا فقدان ہے ، ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ جسمانی طور پر معذور بچوں کو عام تعلیمی اداروں میں داخلہ دیا جاناچاہیے تا کہ انہیں سفر کی صعو بت برداشت نہ کر نا پڑے ، انکی رائے میں قومی سطح پر اور سماجی لحاظ Disability Managmentپروگرام متعارف کرواناانتہائی نا گزیر ہے علاوہ ازیں پرائیویٹ سیکٹر کیلئے لازم قرار دیا جائے کہ وہ ان اسپیشل افراد کو بھی روزگار فراہم کریں ۔
قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر اس ضمن میں قانون سازی کی جائے تو بہت سے معذور افراد سماج میں بھکاری بننے کی بجائے تعلیم یا کسی فن سے آراستہ ہو کر باعزت رو زگاری کمانے کو ترجیح دیں گے اور کسی احساس محرومی میں بھی مبتلا نہیں ہو ں گے ہمیں یہ جان کر انتہائی خوشی ہوئی کہ ادارہ کی کوارڈنیٹر اسپیشل پرسن ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں انہوں نے معذوری کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا ان کی اسی لگن نے دوسرے اسپیشل افراد کوبھی حو صلہ دیا ۔ تاہم اس موقع پر بعض معلمات نے شکایت کی کہ تمام آرگنائزیشن فراہم کر دہ خدمات کے عوض انتہا ئی قلیل معاوضہ ادا کر تی ہیں ۔ سرکار کے نافذ کر دہ معاوضہ جات کو بھی خاطر میں نہیں لاتے نہ، ہی کوئی اضافی سہو لت میسر ہے حتٰی کہ انہیں ٹرانسپورٹ کے اخراجات از خود ادا کرنا پڑتے ہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سرکاری سطح پر روز گار انہیں دستیا ب نہیں ہے ۔ سرکار کب بے روزگاروں کو روزگار دے گی؟
وہ تمام آرگنائزیشن، افراد، معلمات اور اساتذہ کرام قابل قدر ہیں جو اسپیشل افراد کو سماج کابہترین فرد بنانے میں مصروف ہیں یہ تمام ذاتی مفادات سے بالاترہو کر خدمت انجام دیں تو اس کے بڑے مثبت نتائج معاشرے پے مرتب ہو سکتے ہیں
ان سو چوں میں گم ہم سنٹر سے باہر نکل رہے تھے تو ہمارے ذہن میں اللہ تعا لیٰ کا ارشاد گرامی زیر گردش تھا کہ ”بے شک انسان اپنے رب کا ناشکرہ واقع ہو ا ہے“ سچ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معذوری کے بغیر صحت مند زندگی کی صورت میں وہ نعمت عطاء کر رکھی ہے جسکا کوئی نعم البدل نہیں،اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو کئی کھرب روپے کی مالیت صرف کر کے بھی نہیں خریدا جا سکتا ۔ ہمیں اس پر اظہار تشکر ادا کر تے ہوئے اس کے احکامات کے آگے سر نگوں ہو نا چاہیے ،لیکن ہم اسکی دی گئی نعمتوں کاغلط استعمال کر کے اپنے ہی سماج کو بدصورت بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ انسانوں کو قتل کر نے سے لے کر بد عنوانی تک، دھو کہ دہی سے ملاوٹ تک،انتہا پسندی سے دہشت گردی تک ہر جرم ہمارے اپنے ہی عضاء کے ہاتھوں انجام پا رہاہے اوربے خیا لی میں ہم کفر ان نعمت جیسے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں ،اس کے برعکس اسپیشل افراد تعلیم اورفن سے خود کو آراستہ کر کے اپنے آپ کو سماج کا کار آمد فرد بنا نے میں مصروف ہیں سماجی اعتبار سے یہ کتنا ”کھلا تضاد “ہے حا لانکہ اشر ف المخلو قات کادرجہ تو ہمیں یکساں طور پے حاصل ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.