طب نبوی سے ماخوذ

پیر 29 جون 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

عالمی وباء کی کوکھ سے بطور تریاق بڑے نادرنسخے تاحال برآمد ہورہے ہیں،گمان ہے جب تلک اس کی ویکسین تیار نہیں ہو جاتی، طب کی دنیا میں یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔مغربی ممالک کی نسبت ایشیائی ریاستوں میں اس کے منفی اثرات کم مرتب ہوئے ہیں، مسلم ملک بھی قدرے محفوظ رہے،اسکی بڑی وجہ قوت مدافعت اور ماحول بتایا جارہا ہے، قیاس کیا جاتا ہے کہ عالمی برادری سے وابستہ اہل علم محفوظ زندگی گزارنے اور ہر وباء سے بچنے کے لئے نئی نئی تھیوری کے انبار لگا کر طر یقہ علاج ضرور بتائیں گے،تاہم امت مسلمہ اس اعتبار سے خوش قسمت ہے کہ محسن انسانیت نے آسان، محفوظ اورپاکیزہ زندگی گزارنے کے و ہ تمام راہنماء اصول فراہم کر دیئے جو آج بھی قابل عمل اور اچھی صحت کی ضمانت ہیں، اللہ تعالی نے جو بے شمار نعمتیں، ترکاری، پھلوں،جانوروں، پرندوں کی صورت میں عطا کی ہیں، ان میں وہ تمام وٹامنز،کیلوریز پائی جاتی ہیں جو انسانی صحت کے لئے لازمی جزو ہیں، طب نبوی کی روشنی میں اس کا تذکرہ قارئین کے لئے سود مند ہوگا۔

(جاری ہے)


آپ نے غذا کے تین اصول بتلائے ہیں۔پہلا یہ تمام اعضاء پر پوری طرح اثر انداز ہو،دوسرا غذا لطیف ہو،معدہ پر ہلکی ہو،تیسرا زود ہضم ہو آپ نے خود کو خاص غذا کا پابند نہیں بنایا اور عادت کے خلاف غذا کا استعمال بھی نہیں کیا، لیکن اعتدال کا دامن کبھی نہیں چھوڑا، تلقین فرماتے بھوک رہتی ہو تو صحت یابی کے لئے کھانے سے ہاتھ کھینچ لو۔
 اللہ کی نعمتوں میں ایک شہد بھی ہے،ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نہار منہ پانی میں ملا کر اسکو بطور شربت استعمال کرتے تھے،فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مہینہ میں تین دن صبح لے تو کوئی بیماری اثر انداز نہ ہوگی،یہ بلغمی کھانسی کو درست کرتا ہے،دانتوں میں پیسٹ کرنے سے سفیدی اورچمک پیدا کرتا ہے۔


کھانے میں ثرید بہت پسند تھا ،آپ اسے کھانوں کا سردار کہتے، گردن اوردستی کاگوشت پسند فرماتے یہ زود ہضم اور بیماری سے خالی ہوتا ہے، شکم کا پسند نہ فرماتے،بوڑھی بکری کا گوشت مضر صحت ہوتا ہے،تیتر کا گوشت خون پید اور نگاہ تیزا کرتا ہے،بیٹرگرم، خشک ہوتا ہے،جوڑوں کے درد کے لئے نافع ہے،لیکن ایسی چڑیاں جو گندے مقام پر رہتی ہوں یا کھنڈرات میں انکا بسیرا ہو انکا گوشت کھانے سے آپ نے منع فرمایا ہے،اسی طرح دھوپ میں بھنا ہو اگوشت انتہائی مضر ہے،شعلوں کی بجائے انگاروں پر بھنا سب سے بہتر ہے،آپ نے فرمایا کہ پرندوں کا گوشت چوپاؤں کے مقابلہ میں زیادہ زود ہضم ہے،مچھلی وہ بہتر ہے جو لذیذہو، اسکی بوخوشگوا ر ہو اور گوشت زیادہ سخت اور خشک نہ ہو، کھال اوسط درجہ کی ہو، سمندری مچھلی زیادہ زود ہضم ہوتی ہے۔

آپ نے کھانے کے بعد خلال کرنے والوں کو مبارک باد ی کہ پھنسے ہوئے حصہ کی بدبوسے بڑھ کر دوسری چیز فرشتوں پر گراں نہیں گذرتی،دانتوں کی ناقص صفائی ہی سے بیماریاں جنم لیتی ہیں ،مسواک کرنے کے بارے میں فرمایا کہ اگر امت پرگراں گذرنے کاڈر نہ ہوتا تو ہر نماز میں کرنے کا حکم ہوتا،مسواک معدہ درست رکھتی ،آواز صاف کرتی ،بلغم ختم کرتی ہے، ہاضمہ میں مدد دیتی ہے۔

سب سے عمدہ اخروٹ کی جڑ کی ہوتی ہے۔
آپ نے پھلوں میں انجیر،انگور،کھجور کو انکا بادشاہ کہا ہے،روزہ کی افطاری میں تازہ کھجور تناول فرماتے، تازہ کھجور معدہ کو تقویت دیتی ہے اگر میسر نہ ہوتی تو چھوارہ لیتے ،سب سے زیادہ عجویٰ کو پسند کرتے،اسے زہر کے لئے بھی شفاء کہا گیا ہے،انجیر کو جنت کے پھل سے تعبیر کیا گیا،عمدہ سفید چھلکے والی پختہ ہوتی ہے۔

مثانہ ،گردہ اور بواسیر کے مرض کے لئے شافی ہے۔انگورایک عمدہ پھل ہے، تازہ اور خشک دونوں طرح سے مستعمل ہے،سفید انگور زیادہ فائدہ مند ہے یہ فربہ کرتا ہے،کشمش اسکی ہی بنتی ہے، یہ منہ کی بدبو ختم کرتی ہے،مثانہ کے درد میں سود مند ہے،کہا جاتا ہے کہ جو شخص انار کی کلی کے کم از کم تین شگوفے ہر سال نگل لے اس کو آشوب چشم نہ ہو گا،یہ پھل بھی عمدہ ہے،سینے کی جلن اور پھیپڑے کے نافع ،کھانسی کے لئے مفید ہے۔


آپ انگور کے ساتھ تربوز بھی پسند فرماتے تھے،مگر ہدایت فرماتے کہ کھانے سے پہلے تربوکھایا جائے اگر کھانے کے بعد کھایا تو قے اور متلی کا ڈر ہے، آپ نے دودھ کو مکمل غذا قرار دیا ،تازہ دودھ پسند کرتے اور نوش فرماتے،جس دودھ میں زیادہ سفیدی ہو وہ عمدہ ہوتا ہے،بکری کا دودھ لطیف معتدل ہوتا ہے،حلق کے زخموں اور خشک کھانسی کے لئے مفید ہے، اونٹنی کا دودھ جگر کے تمام دردوں کے لئے شافی ہے، گائے کے دودھ میں شفاء، اسکا گھی دوا ہے اگرچاول کو گائے کے دودھ میں پکائیں،تو یہ عمدہ غذا ہوگی جسم کو فرحت اور شادابی دے گی ،تاہم آپ دودھ کو نوش فرمانے کے بعد کلی ضرور کرتے تھے کیونکہ اس میں چکنائی ہوتی ہے۔

دہی جہاں ایک ٹانک ہے وہاں معدہ کے لئے شفاء بھی ہے حکیم سعید مرحوم دہی کی افادیت بیان کرتے کہا کرتے جو اسکو کھاتے ہیں نجانے مر کیوں جاتے ہیں، یہ بہت زود ہضم ہوتی ہے۔اسی طرح آپ نے فرمایا کہ مرغی کا انڈہ دیگر پرندوں کے مقابلہ میں معتدل ہوتا ہے،تازہ انڈہ پرانے سے بہتر ہوتا ہے ۔
حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ آپ نے جو آخری کھانا تناول فرمایا اس میں پیاز بھی تھے،یہ بھی بلغم ختم کرتا ہے،یرقان، کھانسی، سینے کی جلن میں آفاقہ دیتا ہے، لیکن اسکی بدبو کے ساتھ مسجد جانے سے منع فرمایا گیا ہے لہسن بھی اپھارا دور کرتا،کھانا ہضم کرتا ہے۔


 پا نی ایک بڑی نعمت ہے،آپ تین سانس میں پانی پیتے، پیالہ میں سانس لینے ،ٹوٹے برتن میں پینے ے منع فرمایا ،آپ کا ارشاد ہے ہر مسلمان پر اللہ کا حق ہے کہ ہر ہفتہ میں ایک بارغسل کرے ،میسر ہو تو خوشبو بھی لگائے۔عمدہ خوشبو روح کی غذا ہے،آپ معتدل خوشبو پسند فرماتے تھے،ہمیشہ اجلا،صاف ستھرا لباس زیب تن فرماتے،چمکدار،سرخ کپڑے ناپسند کرتے سفید رنگ آپ کو بہت پسند تھا ،یمنی چادر استعمال کرتے،آپکا عمامہ اتنا بڑا نہ ہوتا کہ اس کے بوجھ سے تکلیف محسوس ہو۔


 ر ہائش کے بارے میں آپکا ارشا د گرامی ہے کہ گھر سادہ اورموسم کی حدت اور شدت سے محفوظ ہو،اسکی چھت، دیواریں ایسی نہ ہوں کہ گرانباری سے سر پر آگریں،مکان کی ہیت ایسی نہ ہو کہ مکین تنگی محسوس کریں مگر کشادہ اتنا بھی نہ ہو، کہ بیکار پڑاہو اور موذی جانور ان خالی جگہوں پر جم کر بیٹھ جائیں۔
آپ ذکر الہی سے رطب اللسان رہتے ،یہاں تک کہ آنکھیں نیند کے غلبے سے موند لیتے،دائیں کروٹ سوتے،فرماتے بائیں طرف زیادہ سونا دل کیلئے نافع نہیں،ننگی زمین پر سونے سے منع فرمایا،آپکا بستر چمڑے کا مگر اس میں کھجور کا ریشم ہوتا،آپکی شریفانہ عادت دوپہر کو کھانے کے بعد سوناتھی، آپ نے پیٹ کے بل سونے کو بدتر کہا، آپ نے فرمایاد ھوپ میں سونے سے جان لیوا بیماری ابھرتی ہے۔

امکان غالب ہے کہ دنیا کو ان وباؤں سے نجات کے لئے اس طرز زندگی کو اپنانا پڑے گا جو فطرت کے قریب تر ہے، رہن سہن سے لے کر حلال کھانے پینے تک کا عمل حیات مبارکہ سے ملتا ہے،،قرآن نے بھی اسکو انسانیت کے لئے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :