دل کی آواز

اتوار 28 اکتوبر 2018

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

نہیں معلوم کہ اس افغانی باریش بزرگ کے جذبات عالمی راہنماؤں کی قوت سماعت تک رسائی بھی حاصل کرپائیں گے یا نہیں جوا پنے پانچ معذور بچوں کے ساتھ گھر کے باہر میڈیا کے ذمہ داران سے محو گفتگو تھا۔ اسکا اترا چہرہ دل کے خیالات کی ترجمانی کررہا تھا وہ فرطِ جذبات کو بار بار قابو کرنے کی سعی کرتا لیکن صبر کا پیمانہ آخر لبریز ہوہی جاتا ۔

اسکی کاوش اور خواہش تھی کہ اسکے آنسو اس کے بچے نہ دیکھ پائیں جو دنیا و مافیا سے بے خبر اپنی معذوری کے باوجود کھیلنے میں مصرو ف تھے لیکن آنسوؤں پر کب کسی کا اختیار ہتا ہے یہ تو خوبرو رخسار پے ڈھلک ہی جاتے ہیں جھری زدہ چہرے پے تو انکا سفر آہستہ آہستہ جاری رہتا ہے اس خدشہ کے باعث باریش بزرگ اپنے رومال کے پلو سے انہیں بار بار صاف کرتا پھر بھی اسکی ننھی معصوم بچی نے پوچھ ہی لیا بابا تم کیوں روتا ہے؟معصوم بچی کو کیا علم کہ معذوری اسکی پہاڑ جیسی زندگی کو کس قدر مشکل بنا دے گی اگر اسے یہ عارضہ لاحق نہ ہوتا تو اسکی حیاتی پھولوں کی سیچ ہوتی یہ معذوری اگر قدرت نے دی ہوتی تو شکوہ کا کیا جواز اس کی رضا میں راضی ہونا ہی ہمارا ایمان ہے۔

(جاری ہے)


یہ معذوری اس طاقت کے زعم کا نتیجہ تھی جو زمین کے ناخداؤں نے اس سرزمین پے روا رکھنے کی جسارت کی اور گولہ بارود سے اسکو بھر دیا اسکی بارش بلاامتیاز رہر خطہ پے کی گئی جس کی زد میں زندہ انسان آئے ۔ انسانی حقوق کا علم اٹھانے والوں نے بچوں کو بھی نہ بخشا۔وائٹ ہاؤس کے ٹھنڈ ے کمروں میں بیٹھ کر پالیسیاں بنانے والوں کو کیا خبر کہ بچوں کی معذوری کا دکھ کتناہے یہ بچے جنہیں نئی نسل کا روپ دھارنا ہے کئی دہائیوں تک اسکا بوجھ اٹھانا ہے غیر سرکاری تنظیمیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ ان معذور بچوں کو ویل چیئر دے کر انہوں نے انسانی حقوق کی فراہمی کا معرکہ سر کرلیا تو انکی بڑی بھول ہے اسی مشق سے وابستہ انکی روز ی روٹی ہی انہیں زبان بند رکھنے پے مجبور کرتی ہے ورنہ حق کی صدا بلند کرنا قدرے مشکل ضرورہے مگر ناممکن نہیں۔


آخر کونسا قانون گہری نیند سوئے معصوم بچوں پر بم اور راکٹ پھینکنے کی اجازت دیتا ہے؟ ان بیچاروں کایہی قصور ہے کہ وہ اس سرزمین پے پیدا ہوئے جسکی قیادت بڑی طاقتوں کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکاری ہے انکی ہاں میں ہاں ملانے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ اگر یہ معصوم بچے ان طاقتوں سے نبردآزما ہوتے۔ ان کے اہلکاروں پے بندوق تان لیتے تب بھی کسی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا تھا کہ وہ ان بے گناہ انسانوں کو موت کی نیند سلاتے یا معذور کرتے ۔

نجانے اسکی سرزمین کو میدان جنگ کا بنانے میں کونسی مصلحت کار فرما ہے۔زخموں سے چور ، تڑپتے بچوں ، خواتین کو دیکھ کر آخر کونسا انسان تسکین پاتا ہے کیا بڑی طاقتوں کے راہنماؤں کے سینے میں دل نہیں ہوتا ؟ اگر ہوتا تو وہ کس قسم کے انسانوں کے لیے دھڑکتا ہے!شام ، لیبیا، فلسطین ، کشمیر ، یمن میں دم توڑتی ہوئی انسانیت کے باوجود اگر عالمی اداروں کے مقتدر طبقہ کے دل بے حس و حرکت ہیں تو اسے مردہ قرار دینے میں کونسی رکاوٹ مانع ہے۔

اگر انہوں نے بھی انسانوں کو خانوں میں بانٹ رکھا ہے تو پھر امن کے اطلاق کا دعوی ہی اپنا معنی کھو دیتا ہے۔ پر امن ممالک کے حکمرانوں کے دل میں یہ خواہشیں پیدا کیوں نہیں ہوتی کہ وہ تمام ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان ممالک کے عوام سے براہ راست ملیں جو عالمی طاقتوں کی غیر منصفانہ پالیسیوں کا ایندھن بن رہے ہیں ان کے بچوں کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھیں جو خون کے آنسو رورہی ہیں جن میں ہزاروں خواب تھے یہ سب ہوا ہوگئے جبر کی معذوری انکی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہوگئی۔

کوئی بازو کے کٹ جانے کاماتم کررہا ہے کسی کو ٹانگ کے جدا ہونے کاتاسف ہے تو کوئی آنکھ سے محروم کردیا ہے بچیوں کا معاملہ تو سرے سے مختلف ہے جنہوں نے جواں ہوکر نئی نسل کا بوجھ اٹھانا تھا یہ اپنے بوجھ تلے دبی جارہی ہیں۔
 عالمی سطح پر کیا کوئی منصف ہے ان کے دکھوں کا مداوا کرسکے انہیں انصاف دلا سکے؟ بربریت ، جبر اور ظلم کو روا رکھنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکے انکی معذوری کا بوجھ اٹھا سکے۔

حکمرانی سے لطف اندوز ہونے والے اگر جابر اور ظالم طبقہ کے شانہ بشانہ کھڑے نہ ہوتے تو انہیں انسانوں کو زندہ درگور کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ پتھر کے زمانے میں جانے کی دھمکی نے انہیں اتنا بزدل بنادیا کہ انہوں نے بے گناہ انسانوں پر بم گرانے کو ”عین ضرورت “خیال کرلیا۔ اگر انہوں نے اپنی حمایت کا وزن ان کے پلڑے میں ڈالنے سے پہلے اک لمحہ کیلئے سوچا ہوتا ک اگر ڈیزی کٹر اور راکٹ کی زد میں ان کا اپنا خاندان ہوتا تو کیا پھر بھی وہ خودساختہ دھمکی سے مرغوب ہوجاتے ؟
عالمی گماشتوں کی فرمائش پر منعقد ہونے والی عالمی کانفرنسوں کی سفارشات سے تو صرف ” ڈومور ‘ کی بدبو آرہی ہے ہزاروں معذور ہونے والے افغانی بچوں کی فلاح کااس میں کوئی پیغام سنائی نہیں دیتا بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ان کے غم کے سائے اور بھی گہرے ہوتے جائیں گے وہ بچے جنہیں پیرا نہ سالی میں والدین کا معاشی بوجھ اٹھانا تھا وہ خود کسی کے سہارے کے متلاشی رہیں گے۔

وراثت میں ملنے والی غربت کاسفر اتنا طویل ہوگا خدشہ ہے کہ انکی اگلی نسل بھی اس ماحول میں آنکھ کھولنے پر مجبور ہوگی۔کہا جاتا ہے کہ غربت میں پیدا ہونا انسانی مقدر ہے لیکن غریب رہ کرمرنا جہالت ہے۔
 دکھائی یوں دیتا ہے کہ اگر عالمی برادری نے اہل افغان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں تو اپنوں نے بھی اس کو روا رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

انکی اپنی قیادتیں ہی دوسروں کے آلہ کار بننے میں ” راحت “ محسوس کرتی رہی ہیں انہوں نے اپنے مفادات کو اپنی عوام پر ترجیح دی ہے محبتیں بانٹنے کی بجائے نفرتیں سمیٹنے میں صلاحیتیں صرف کرتے رہے اسی کا فیض تھا کہ ان کی حکمرانی کی رٹ محلات کے درودیوار ہی پار نہ کرسکی۔ان کی اس کمزوری کا فائدہ ان متحارب گروہوں ن اٹھایا جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست قائم کردی۔

لسانی، علاقائی بنیادوں پر منقسم قوم مزید تقسیم کے عمل سے گذررہی ہے اس ماحول میں انتخابات کا عالمی ایجنڈابھی کار گر ثابت نہیں ہورہا نہ ہی ڈالروں کی بارش عوام کو امن فراہم کرسکی ہے۔
عوام میں وہ فیصلے معتبر ٹھہرتے اور پذیرائی پاتے ہیں جو زمینی حقائق کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں قرائن بتاتے ہیں اب تلک کیے گئے فیصلے افغان عوام ہضم نہیں کرپائی ہے کیونکہ ان میں” بیچاری عوام“ سے زیادہ مقتدر طبقہ کے مفادات پوشیدہ ہیں تاہم افغانی عوام کو اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے قوم کے وسیع ترمفادمیں سوچنا اور کسی کا آلہ کار بننے سے اجتناب کرنا ہوگا۔


ہماری خواہش ہے کہ بزرگ افغانی کی معذوری کا دکھ بانٹنے کے لیے عالمی برادری زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر پالیسی مرتب کرے اہل افغان کو اپنی ریاست کے خود فیصلے کرنے میں آزاد کرے تاکہ امن کا قیام ممکن ہوسکے جس کاراستہ غیر ملکی افواج سے انخلاء سے ہوکر گذرتا ہے اور امن کی خواہش ہر افغانی کے دل کی آواز ہے جسکو طاقت کے زور پر دبایا نہیں جاسکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :