آخری موقع

بدھ 28 اکتوبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہفتہ رفتہ میں ایک ایسی شخصیت میڈیا پر براجمان رہی ہے جس کا نہ تو سرکار سے کوئی واسطہ تھا نہ ہی وہ کسی اپوزیشن جماعت کے سربراہ ہیں،لیکن انکی ایک سرگرمی نے سیاسی اور عسکری حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے، ہر چند کہ ان کا خمیر بھی عسکری مٹی سے اٹھا، تاہم ان کا سسرالی تعلق ایسے خاندان سے ضرور ہے جو ان دنوں زیر عتاب ہے، فرط جذبات میں مغلوب ہو کر وہ بھی اپوزیشن کی احتجاجی تحریک میں اپنی زوجہ محترمہ کے شانہ بشانہ شریک ہو ئے اور ایک مودب ، شوہر اورداماد ہونے کا ثبوت فراہم کیا ،خبروں میں رہنے کا سبب ہوٹل میں ان کا قیام بنا ،جہاں سے وہ رات کی تاریکی میں نا معلوم افراد کے ہاتھوں اٹھا لئے گئے،اس نازک صورت حال نے ان کے میزبانوں کے کان کھڑے کر دئے،وہ اس طرز کی مہمان نوازی پر شرمندہ ہوئے، اس میں قصور وار اگرچہ اس ریٹائرڈ کیپٹن ہی کو ٹھہرایا جا رہا ہے جو بانی پاکستان کے مزار پر اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ حاضری دینے آیا مگر اپنے قومی جذبہ پر قابو نہ رکھ سکا اور وہ بیانہ اپنے لب پر لے آیاجسکا ان دنوں سیاسی حلقوں میں چرچا ہے، آرام کی نیند سونے والی مادر ملت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے زندہ باد کی صدا بلند کر بیٹھا،افراد کی کثیر تعداد کی موجودگی میں یہ آواز اتنی گونجی کہ مقتدر طبقات کے کانوں کو ناگوار محسوس ہوئی،اسکی ہی پاداش میں موصوف ہوٹل سے اٹھا کر تھانہ پہنچا دئے گئے۔

(جاری ہے)


اس غیر متوقع واقعہ کے بعد تو سیاسی حلقوں میں ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوا،پریس کانفرنسوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا،معاملہ اتنا آگے بڑھ گیا، کہ وردی والوں کو اس ”واردات “کا بھی نوٹس لینا پڑا،نرم گوشہ رکھنے والوں کی رائے یہ ہے کہ وہ نعرہ بازی جو مزار قائد میں کی گئی خالصتا غیر سیاسی تھی،مگر موصوف کی گرفتاری سے یہ مقدمہ سیاسی بن گیا، اسکی بات گشت پارلیمنٹ تک بھی سنی گئی،نعرہ باز کا موقف تھا کہ جب کسی بچے کو دکھ پہنچتا ہے تو وہ اپنی ماں کے پاس ہی آتا ہے،اور اس مزار کے احاطہ میں قوم کی ماں ہی تو مدفن ہے تو پھر اس فریاد ونالہ کی اتنی کڑی سزا کیوں؟ اس ساری ”ایپی سوڈ“ کو کپتان نے تین دن خاموشی توڑنے کے بعد” کامیڈی“ قرار دے دیا،نجانے انکے اس موقف کے اثرات اس انکوائری پر مرتب ہوں گے جو ان دنوں چیف اور وزیر اعلی سندھ کے حکم سے زیر تعمیل ہیں۔


ہمارے کپتان کا حافظہ زیادہ مضبوط نہیں ہے اس لئے انھیں اکثر ”یوٹرن“ کا سہارا لینا پڑتا ہے،انکے بہی خواہ اس لئے کہتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل انکی پرانی تقاریر پر عمل درآمد کرنے پر ہے، قوم کو بخوبی علم ہے کہ انکی موجودگی میں خانہ کعبہ، اور مسجد نبوی جیسے مقامات مقدسہ میں مخالف فریق کی بابت سیاسی نعرہ باز ی کی گئی،شاہی ریاست میں تو قانون حرکت میں نہ آیا مگر جمہوری ملک میں اداروں کی درڑیں لگوا دی گئیں۔


مادر ملت کو خراج تحسین کرنے کا خاص پس منظر تھا،اگر ریٹائرڈ کیپٹن کی رشتہ داری سیاسی قبیلہ سے نہ ہوتی تو گمان غالب تھا کہ وہ بھی اپنے ”پیٹی بھائیوں“ ہی کے طرف دار ہوتے،اگر وہ تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو انھیں اپنے قرب و جوار میں وہی سیاسی خاندان ملے گا، جس نے محترمہ مادر ملت کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے تھے جو اپوزیشن کے پہلے جلسہ میں میزبانی کے فرائض انجام دے رہا تھا،ہمارا المیہ یہ ہے
 جس مقام پر ہمیں حق اور سچ کہنا ہوتا ہے وہاں ہم صرف نظر کرتے ہیں، جوذمہ داری ہمیں سونپی جاتی ہے اس سے رو گردانی کرتے ہیں، جو عہدہ دیا جاتا ہے اس کا پاس نہیں رکھتے،بجا طور پر مزار قائد ایک معتبر مقام ہے جس کا احترام ہم سب پر واجب ہے،جہاں تک ووٹ کو عزت دینے کا تعلق ہے تو بانی پاکستان سے زیادہ کون اسکی اہمیت جانتا تھا ،جنھوں نے ووٹ کو ہی نہیں ووٹر کو بھی عزت دے کر آزادی سے
 ہمکنار کر کے اسکو معتبر بنا دیا،وہ کردار کے غازی تھے گفتار کے نہ تھے آج سیاسی قیادتیں گفتار کی غازی بن کر شہیدوں میں نام لکھوانے کی آرزو مند ہیں۔


 اسوقت جبکہ سرکار مخالف جماعتوں پر مشکل آن پڑی ہے تو انھیں ووٹ کو عزت دینا یاد آرہا ہے، اگر عہد اقتدار میں قائد کے راہنماء اصولوں کو اپنایا جاتا تو انھیں ووٹ کو عزت دینے کی بھیک نہ مانگنا پڑتی،لیکن انکی مفاداتی پالیسیوں نے ووٹ کے ساتھ ساتھ ووٹر کی بھی تذلیل کی ہے،آج جس کسمپرسی کی حالت میں وہ جی رہا ہے،جس غربت کا اس کو سامنا ہے،یہ چند سال کی سرکاری گوورننس کا نتیجہ نہیں، کئی سالوں کی غفلت کا ثمر ہے، اب ہر شہری اس سر زمین پر مقروض پیدا ہو رہا ہے۔


کون سا عہد ایسا نہیں گذرا جب قومی سطح پر احتساب کا نعرہ بلند نہ کیاگیا ہو، لوٹی دولت کی واپسی کا نقارہ نہ بجا ہو ، ہر دور میں احتسابی نعرہ بھی طلسماتی ہی ثابت ہوا،احتساب کی صدا یہاں بلند ہوتی رہی مگر بلند کرنے والوں کے اثاثہ جات میں بیرون ملک اضافہ ہوتا رہا، پہلے باوردی عہد کے صاحب ثروت 22خاندانوں کی تعداد اب ایک ہزار بائیس سے تجاوز کر چکی ہے،مگر حقیقی احتساب کا دور دور تک کوئی امکان ہی نہیں، ہر زمانے میں اس مشق کو ”سیاسی انتقام “ ہی سے تعبیر کیا گیا، فطری عمل ہے کہ اگر احتساب کرنے والا خود ” کلین ہینڈ“ نہیں ہو گا تو وہ کیسے کسی بدعنوان کو سزا دلوا سکے گا؟یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی ہر بارآئین شکنی کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کا بھی درس دیتا رہے۔

نجانے اس وقت ووٹ کی کوئی حرمت باقی رہتی ہے یا نہیں جب سوئلین سربراہ مملکت ایک بارودی شخص کے ہاتھ پر آئین سے حلف لیتے ہیں،اپوزیشن تو بڑے میاں کی ایک تقریر کی ہی تاب نہ لا سکی ہے، انکی صفوں میں سے متضاد آوازیں آنا شروع ہو چکی ہیں، اگر عوام کی خدمت کا یہی پیمانہ ہے تو اپوزیشن اور مقتدر طبقہ کو اس وقت سے ڈرنا چاہئے جب عوام اپنی شکایات لے کر بانی پاکستان کی آخری آرام گاہ تک قطار اندر قطار پہنچ جائیں گے اور پھر مزار کی پامالی کا نوٹس لینے کا آخری موقع بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :