رمضان یا گھمسان
جمعرات 8 جون 2017
(جاری ہے)
کوئی عمرے کے ٹکٹ بانٹتا ہے تو کوئی موٹرسائیکل لے لو کار لے لو کی آوازیں لگاتا ہے ۔
پروگرام میں عوامی دل چسپی پیدا کرنے کے لئے کوئز پروگرام کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے لیکن مجال ہے جو اس کوئز پروگرام میں دین یا روزے سے متعلق کوئی سوال شامل ہو،کبھی کوئی غلطی سرزدہوجائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔بعض پروگرامز کا مواد اس قدر بے موقع اور مضحکہ خیز ہوتا ہے کہ مسخرے پن کا گمان ہوتا ہے ۔ رمضان سے ایک دن پہلے فلم اور ٹی وی ڈراموں کی جوا دکارائیں اپنے جلووں سے شہریوں کو اپنا دیوانہ بناتی ہیں وہ پروگرام کے دوران وقفے وقفے سے بڑے اہتمام کے ساتھ چادر اوڑھے عوام الناس کو روزے کی فضیلت بتانے کی سعادت حاصل کرتی ہیں یہ الگ بات ہے نصف شب کے قریب شروع ہونے والی ان نشریات میں شریک ان اداکاراوٴں یا اداکاروں کو سحری تک کھانا نصیب نہیں ہوتی بیچاروں کو مجبورا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے بعد میں کوئی اہتمام کرنا پڑتا ہے ۔ روزہ رکھنا یا نہ رکھنا ہر کسی کا ذاتی فعل ہے لیکن کسی دوسرے فرد کو ایک ایسے کام کی طرف کیسے مائل کیا جاسکتا ہے جب آپ خود اس پر عمل پیرا نہ ہوں ۔ ویسے بھی اس طرف کس کا دھیان جاتا ہے اور پھر روزے یا دین کے متعلق بات کرنے کا وقت بھی پروگرام کے دوران نہ ہونے کے برابر ہی ہوتاہے ۔ غرض رمضان کے نام پر ہونے والی نشریات میں سب کچھ ہوتا ہے لیکن رمضان کے سوا۔ سب سے دلچسپ مرحلہ تب ہوتا ہے جب ان پروگرامز کے بیچ وقفے میں اچانک کسی کمپنی کے اشتہار میں کوئی حسینہ اپنے جلوے دکھا کر روزہ داروں کے ایمان تازہ کرتی ہے ۔ عوام کی ایک بڑی تعداد انعامات کے لالچ میں ان پروگرامز میں شرکت کی متمنی ہوتی ہے اور جو اس سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں وہ ان نشریات کے دوران تمام تر مصروفیات منقطع کر کے ٹی وی سکرینوں کے سامنے براجمان ہوجاتے ہیں۔ اس ساری دھماچوکڑی میں رمضان بے چارہ بے بسی سے سوچتا تو ہو گا کہ یہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے ۔ میں جب بھی کسی ٹیلی ویژن سکرین پر رمضان نشریات کے نام پر ہونے والا ہلا گلا دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے بچپن کا رمضان بہت یادآتا ہے ۔ فیصل آباد کا طارق روڈ ،جس پر میرابچپن گزرا وہاں حیدری مسجد آج بھی موجود ہے ۔خدا غریق رحمت کرے چٹی سفید داڑھی ، کندھوں کو چھوتی زلفوں اور سرخ و سپید رنگت کا بابا عبداللہ ، جو مسجد کا خادم تھا سحری کا اعلان مسجد کے لاوٴڈ سپیکر پر نعت پڑھنے سے کیا کرتا۔مجبور ہیں ۔ رمضان کا جو ایک روحانی ماحول تھا وہ ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ مساجد میں تنکوں کی صفوں کی جگہ نرم و دبیز قالینوں نے لے لی ہے اور پنکھوں کی جگہ ائیرکندیشنڈ آگئے ہیں ۔ مادہ پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ر مضان میں جو محلہ دار ایک ہی خاندان کی شکل اختیار کر لیتے تھے اب وہ عید کے دن بھی چند لمحوں کے لئے ایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں اور ایک بار پھر ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھ کرزرق برق لباسوں میں ملبوس رمضان کی فضیلت بیان کرنے والی اداکاراوٴں کے چٹکلوں میں کھوجاتے ہیں ۔ سوچتا ہوں ہمارے آنے والی نسلوں کا رمضان نہ جانے کیسا ہو گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.