تبدیلی جس کا ہمیں ڈر ہے

ہفتہ 30 جنوری 2021

Komal Javed

کومل جاوید

یونہی انسٹا گرام پر سکرول کرتے کرتے خیا ل آیا کہ ایسی کونسی چیز ہے جو ہمیں اپنے آپ کو بہترین شخص بنانے سے روکتی ہے۔کونسی چیز ہمارے تبدیلی کے راستے میں روکاوٹ ہے۔ ہمیشہ میں نے سنا تھا کہ جو تبدیلی آپ دوسروں میں دیکھنا چاہتے ہیں اس سے پہلے آپکو خود اس تبدیلی سے گزرنا پڑتا ہے اور ہمارے آبا ٶ اجداد کا بھی یہی شیوہ رہا ہے۔

وہ اپنے عمل سے ہمیں سب بتا کہ سمجھا کر گۓ ہیں۔مگر ہم لوگ دوسروں کو بدلنے کی عار میں یہ بھول گۓ ہیں کہ دوسروں کو بدلنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے، ہماری روایات نہیں ہیں۔ہمارے معا شر ے کا یہ المیہ ہے کہ ہر نۓ سال کے ساتھ ہم اپنی ہر چیز کو اپگر یڈ کرتے ہیں۔ ماسواۓ اپنی سوچ اور شخصیت کے۔اور صرف اسی تبدیلی کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

ہم ڈرتے ہیں کے اگر ہم بدل گۓ تو لوگ کیا کہیں گے۔

ہم سے کوٸ رشتہ کوٸ تعلق رکھنے کو روادار نہیں ہو گا۔ہم معا شرے کے خلاف چلے جاٸں گے یا ہم اپنے کمفرٹ ذون سے باہر نکلنا ہی نہیں چا ہتے۔ہاں! کمفرٹ ذون۔اس سے باہر نکلنے کا ڈر۔کچھ الگ کرنے کا ڈر۔اسکے برے نتاٸج کا ڈر۔ نا کامی کا ڈر۔بس یہی چیز۔ اسی تبدیلی سے ہم ڈرتے ہیں۔ تبدیلی سرکار بھی کیا کرے جس عوام کو اسکی ہی حفا ظت کے لییجرمانے کے زور پر ہیلمٹ پیہنے کے لیے راضی کرنا پڑے وہاں تبدیلی سرکار کو کیوں ملامت کرنا؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ تبدیلی کے اس ڈر کو میڈ یکل کی ذبان میں میٹا تھیسیو پھوبیا کہتے ہیں۔

یہ کوٸ ذہنی بیماری نہیں ہے بلکہ اک نارمل چیز ہے۔اس میں انسان اپنے کمفرٹ ذون سے باہر ہی نہیں آنا چاہتا اس لیے اگر کوٸ ایسی بات یا حالات جو اس کیکمفرٹ ذون سے باہر ہوں، آوٹ آف دا باکس ہو جاٸں۔تو وہ ہا تھ پاٶں پھولا کر بیٹھ جا تا ہے اور اس سے بھی پہلے اسکا دماغ وہ تبدیلی  قبول ہی نہیں کر پاتا۔کیونکہ ہم نے اپنے دماغ کو نۓ حا لات سے لڑنے کے لیے تیار نہیں کیا ہو تا۔

اور یہں ہم لوگ معا شرتی، مزہبی،معاشی، اقتصادی اور گھریلو سطح  پر مار کھا جاتے ہیں ہم میں سے کوٸ بھی خود کو خود کے لیے بہترین بنانا ہی نہیں چاہتا۔ ”ہم تو ایسے ہی ہیں“  یہ وہ الفاظ ہیں جو کم و بیش ہر شخص کبھی نہ کبھی اپنی زندگی میں استعمال کرتا ہے۔ اور بدلے میں دوسروں سے تبدیلی کی توقع رکھتا ہے۔ پھول چاہتے ہیں تو پھول بنیں۔ کانٹے بنیں گے تو خار ہی ترقی کی راہ میں چبھہیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس میٹا تھیسیو پھوبیا سے لڑا کیسے جاۓ؟ اس کا جواب اگلی چند سطروں میں آپ کے سامنے ہے۔
1۔آپ کو آپ کے دماغ کو دوبارہ نۓ علم سے باور کروانے کی ضرورت ہے اسکو  ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے۔
2۔ اگر آپ کو کبھی یہ خیال آۓ کہ اگر میں نے یہ کام کیا اور میں نا کام ہو گیا تو فوراً اسے مثبت خیال سے منسوب کر دیں کہ میں کامیاب بھی تو ہو سکتا ہوں۔

اور اسکو دہراتے رہیں۔
3۔ اسکے علاوہ آپ مختلف تھراپیز لے سکتے ہیں مثلاً ہِپنو تھراپی گروپ تھراپی ٹا لک تھراپی بہیویر تھراپی اور اپنے خیالات کو کاغذ پر لکھنا وغیرہ
4۔ اپنی تبدیلی اپنی نٸ سوچ اسکو دل و دماغ سے قبول کریں اور اس پر ثابت قدم رہیں۔سوچیں کہ میں یہ کر سکتا ہوں اور اچھے طر یقے سے اس کو  ہینڈ ل کر سکتا ہوں۔
5۔ ایسی کمپنی اختیار کریں جو آپکی حو صلہ افزاٸ  کریآپ کا ساتھ دے اور ایک مثبت جذ بہ ابھا رے۔


یہ تھیں کچھ چند تدا بیر جن پر عمل کر کہ آپ اک بہتر شخصیت بننے کی طرف اپنا پہلا قدم اٹھا سکتے ہیں اور اپنے تبدیلی کہ اس ڈر کو مات دے سکتے ہیں۔ آخر میں یاد رکھیں جہاد بلنفس کو جہاد اکبر کا درجہ دیا گیا ہے کیو ں کہ اپنی ذات سے جنگ لڑنا آسان کام نہیں ہے انسان چاہے تو اپنا دشمن بن جاۓ چا ہے تو دوست سب ہمارے ہا تھ میں ہے بس کوشش جاری رکھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :