ایسا کیوں ہے؟

منگل 9 جون 2020

Mohammad Azeem Hayat

محمد عظیم حیات

صبح سویرے سُنہری سورج کِسی مُصوّر کی طرح طلوع ہوا اور دُھندلے سیاہ آسمان کو روشن نیلے رنگ میں رنگنے لگا۔ سفید روئی کی طرح دُودھیا بادل خُوبصورت سانچوں میں ڈھلے گویا آنکھیں مٙلتے ہوئے نیند سے جاگے اور سحر انگیز ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے روشن نیلے آسمان میں اِدھر اُدھر گشت کرنے لگے۔
گہری نرم گھاس زمین پر سبز مخملی قالین سا منظر  پیش کر رہی تھی اور اِس گھاس پر اٹکے چھوٹے چھوٹے شبنم کے قطرے سورج کی سُنہری روشنی میں ایسا منظر پیش کر رہے تھے کہ گویا بڑی ہی مہارت کے ساتھ ایک خاص ترتیب میں ہزاروں بیش بہا قیمتی موتی پروئے گئے ہوں۔


سبز گھنے درختوں کے جُھنڈ میں ہاتھی دانت سی سفید چھوٹی آبشار چٙھن چٙھن کرتی جِھیل میں اُتر رہی تھی اور فِضا میں مُستقل سے ٹھہرے ہوئے چِھینٹوں میں دھنک  کے سات رنگ گویا وہیں کے ہوکر رہ گئے تھے۔

(جاری ہے)


تروتازہ، ہلکی سی ٹھنڈی، سِیٹیاں بجاتی ہوئی ہوا پُرسکون رفتار کے ساتھ بہہ رہی تھی اور رنگ برنگے بہت سے پرندے،کچھ ہوا میں پر پھیلائے اور کچھ درختوں کی شاخوں پہ بیٹھے اپنی اپنی آوازوں میں مِیٹھے راگ الاپ رہے تھے۔

کانوں میں رس گھولتی ہوئی اِن آوازوں کے سامنے کِسی ساز کی گویا کوئی حیثیت نہ ہو۔
درختوں کی لمبی لمبی گہری بُھوری شاخیں ہوا میں ناچتی ہوئی نئی صُبح کا استقبال کر رہی تھیں اور ان پر لگے ہوئے لاتعداد چھوٹے، بڑے، ہلکے، گہرے سبز پتّے ہوا میں جُھولتے ہوئے ایک دوسرے سے یُوں مٙس ہو رہے تھے کہ گویا نئی صبح کی منصوبہ بندی میں ایک دوجے سے سرگوشیاں کر رہے ہوں۔


تازہ دم چاک وچوبند گہرے کالے اور نارنجی رنگ کی شہد کی مکھیاں جیسے نیا عزم لیے ایک ڈالی سے دُوجی اور پھر تیسری پر اپنے اپنے من پسند پھُولوں کا رس اکٹھا کر رہی تھیں۔  رنگ برنگی نٙنھی تِتلیاں اپنے پروں میں کئی رنگ سمیٹے سرخ، نیلے، پیلے پھولوں پر ایسے اٹھکیلیاں کرتی ہوئی اڑ رہی تھیں جیسے اِن کے ساتھ رنگوں کا مقابلہ کر رہی ہوں اور پھُول بھی جیسے ہوا میں مُسرت سے جُھولتے ہوئے اِن تِتلیوں کا پُرتپاک استقبال کر رہے ہوں۔


میں ایک گٙھنے، لمبی شاخوں والے، موٹے تٙنے کے درخت کے نیچے لکڑی کے بینچ پر بیٹھا قُدرت کی اِن رنگینیوں کو دیکھ رہا تھا، سوچ رہا تھا کہ کِن بہترین الفاظ کا انتخاب کروں اِن رنگینیوں کو کاغذ کی زینت بنانے کے لیے۔ رب نے کیسی کیسی نعمتوں اور خوبصورتی سے نوازا ہے ہم انسانوں کو۔
درخت کے پیچھے کُچھ قدموں پر لوہے کا طویل جنگلا تھا اور جنگلے کے اس پار خاموش سڑکیں، جو شاید اس ٹریفک کے انتظار میں تھیں جو کُچھ ہی دیر میں فِضا کو اپنے دھوئیں اور شور سے آلودہ کرنے والی تھی۔

فٹ پاتھ پر بیری کا ایک ٹُنڈ مُنڈ سا درخت، گٙرد سے لِپٹے پتّوں اور اپنے چھوٹے سے تنے پر چسپاں بےشمار اشتہارات کے ساتھ جیسے حسرت بھری نِگاہوں سے جنگلے کے اُس پار کی زندگی کی رنگینیاں دیکھ رہا تھا۔ اُس کے نیچے کوڑا کرکٹ اور پھلوں کے چِھلکوں کا ڈھیر اور اس ڈھیر پر ہزاروں کی تعداد میں بِھنبِھناتی ہوئی مکھیاں۔ یوں لگا جیسے وہ درخت بہت ہی بے بسی اور کرب میں مبتلا زندگی کے دن گن رہا ہوں۔


آخر کیوں؟ جنگلے کی قائم سرحد کے اِس پار اور اُس پار کا منظر ایک دوسرے سے یکسر مختلف کیوں ہے؟ میرا ذہن کسی قسم کا کوئی بھی جواب دینے سے بالکل قاصر تھا۔ میں گویا خلاؤں میں گُھورتا ہوا ایک دم سے اپنے علاقے کے مختلف مُحلّوں کی گلیوں کو سوچنے لگا۔ ان گلیوں کو، جہاں کے مکین اپنے اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ بڑی آسانی سے گلیوں میں پھینک کر ایک دوسرے کو "صفائی نصف ایمان ہے" کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔

کیا یہ گلیاں، مُحّلے، سڑکوں کے فٹ پاتھ ہمارے نہیں ہیں؟
میں خود سے ایک وعدہ کر چکا تھا، مثبت سوچ کے ساتھ اچھے کام کی ابتدا اگر میں اپنی ذات سے کروں تو شاید دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینے میں آسانی ہو۔
آئیے آپ بھی اس اچھے کام میں میرے ہمقدم ہوجائیے آئیے ہم سب ارادہ کریں کہ اپنے ملک، شہر، گلی، مُحّلوں کو یوں ہی صاف رکھنے کی کوشش کریں گے جیسے ہمارے گھر اور جنگلے کے اُس پار کا حِصّہ کیونکہ صفائی واقعی نِصف ایمان ہے۔
اللہ تعالی اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمارے وطن کو ہمیشہ سرسبزوشاداب اور آباد رکھے۔  آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :