تعلیم اور ہمارا رویہ

منگل 19 جنوری 2021

Mohsin Raza

محسن رضا

زندگی میں پہلی دفعہ اپنے دوست کے ساتھ مشین پہ جاگنگ کرنے گیا اور محض پانچ منٹ بعد اتر کر بیٹھ گیا اور اوپر والا سانس اوپر اور نیچے والا نیچے مگر میرے دوست نے مسلسل چالیس منٹ تک جاگنگ کی اور پانچ کلو میٹر رننگ کی اس کا جسم پیسنے سے شرابور تھا سانس پھولی ہوئی تھی دل پسلیوں کا پنجرہ توڑ کر باہر آنے کو بے تاب تھا اور ٹانگیں تھکاوٹ سے چور تھیں میں نے تولیے سے اس کا منہ اور گردن صاف کی اور مشین کے میٹر کو دیکھا اور میرے دوست نے سینہ چوڑا کیا اور آنکھوں میں سکندر اعظم سا فاتحانہ غرور ابھرا اور جم میں موجود لوگوں کو دیر تک دیکھتا رہا کے ہے کوئی جو اس کا مقابلہ کر سکے اس کی آنکھوں میں خوشی اور فخر تھا کے وہ سب الگ ہے اس نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور بولا “دیکھا پھر بھائی کا سٹیمنا چالیس منٹ میں پانچ کلو میٹر کیے ہیں
میں اس وقت تک اس سے بے نیاز موبائل کی سکرین پہ انگلیاں چلا رہا تھا اور اُس کی طرف دیکھے بنا میں نے کہا ہو تم وہیں پہ جہاں تم نے شروع کیا تھا اس نے مجھے اس وقت حقیر دنیا کا انسان سمجھا اور کہا میٹر جھوٹ بول رہا ہے میری محنت دیکھو میرا سانس میری ٹانگوں کی حالت کیا یہ سب بکواس ہے میں نے ایک زوردار قہقہ لگایا اور کہا سب آ ٹھیک ہے تم بھاگے ہو محنت کی پسینے میں شرابور ہوئے ہو مگر دیکھو تم مشین سے اترنے کے بعد وہیں کھڑے ہو جہاں سے شروع کیا تھا
یہی ہماری زندگی ہے ہم نے سکول جانا شروع کیا تو ہمارے کئی دوست پرائمری اور کئی ہائی سکول اور بہت سارے کالج میں ہمارا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ہزاروں طالب علموں میں سے ایک کو جامعہ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے مگر سوال یہ ہے ہم وہاں کیا حاصل کر رہے ہیں کیا ہماری زندگی اور اس شخص کی زندگی کا موازنہ ممکن ہے جو پرائمری میں ہی ہمارا ساتھ چھوڑ جاتا ہے کیا پانچ منٹ اور چالیس منٹ کی محنت برابر ہو سکتی ہے جب یہ سب برابر نہیں تو رویہ کس لئے برابر ہے مزاج کس لئے برابر ہے سوچ زبان کلام کیسے برابر ہو سکتے ہیں کہتے ہیں درخت پہ جنتا پھل لگتا ہے وہ جھک جاتا ہے مگر یہاں کیا کسی کے پاس ڈگری آجائے یا اچھی نوکری مل جائے تو اس کی گردن اکڑ جاتی ہے لہجہ کرخت ہو جاتا ہے وہ دوسروں کو حقیر اور کیڑے مکوڑے سمجنا شروع کر دیتا ہے گو ہمارا نظام بوسیدہ ہے مگر اس بوسیدہ نظام کو ہم نے ہی ٹھیک کرنا ہے اپنے رویوں میں شائستگی ہم ہی لے کر آئیں گے صاحبو! اپنی پندرہ سولہ سالہ تعلیمی زندگی کا جائزہ لیں اور سوچیں کیا ہماری زبان سے کسی کا دل تو نہیں دکھ رہا کیا کسی کی نادانستہ غلطی پہ ہم بلاجواز اسے زد و کوب کر رہے ہیں دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا سیکھیں کیونکہ غلطی انسان کی جبلت میں شامل ہے لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں یہی زندگی ہے اور زندگی اسی کا نام ہے خوش رہیں اور دوسروں کو خوش رکھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :