جماعتی قیادت کی تبدیلی

ہفتہ 5 اپریل 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

جماعت اسلامی کی امارت کے لیے موجودہ امیر کی بجائے ایک نئی شخصیت کا انتخاب جماعت کی تاریخ اور روایات کی روشنی میں بہت سے حلقوں کے لیے ایک اپ سیٹ ہے، شاید جماعت کے عام کارکنوں کو بھی اس کی توقع نہیں تھی کہ امارت کے لیے ووٹ دینے کے اہل ارکان کی اتنی واضح اور غالب اکثریت موجودہ امیر کی بجائے ایک نئے نام پر اتفاق کرے گی۔ جماعت اسلامی کی جانب سے ایک وضاحتی بیان جاری کیا گیا ہے جس میں امیر کے انتخاب میں کسی کی شکست اور کسی کی فتح کے تصور کو غلط قرار دیا گیا ہے کیونکہ جماعت کے دستور کے مطابق کوئی بھی شخص خود امیدوار ہوتا ہی نہیں۔

جماعت کی یہ وضاحت معاملے کے ایک پہلو کو ضرور واضح کرتی ہے تاہم دوسرا پہلو یہ ہے کہ جناب سیدمنورحسن جماعتی شوریٰ کے فیصلے کے تحت سہی، انتخابی دوڑ میں باقاعدہ شریک تھے اور ان کی جانب سے کسی بھی مرحلے پر یہ تاثر سامنے نہیں آیا کہ وہ امیدوار نہیں ہیں جیسا کہ گزشتہ انتخابات کے موقع پر قاضی حسین احمد مرحوم نے باقاعدہ اس کا اعلان کیا تھا اور اس اعلان کی وجہ سے ہی ان کا نام امیدواروں کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

دلچسپ امر یہ ہے کہ گیلپ کے ایک حالیہ سروے میں سیدمنورحسن کو پاکستان کے مقبول ترین سیاسی راہنماوٴں میں وزیراعظم میاں نوازشریف کے بعد دوسرے نمبر پر شمار کیا گیا تھا اور اس کی وجہ عام طور پر یہ بتائی گئی تھی کہ اسامہ بن لادن اور حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دینے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانات دینے کی وجہ سے ان کی عوامی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

اس کے باوجود آخر کیا وجہ رہی کہ خود جماعت کے ارکان نے اتنی اچھی شہرت کے حامل اپنے پختہ کار وتجربہ کار بزرگ راہنما پر سراج الحق جیسے نسبتاً کم عمر وکم تجربہ کار اور دوسرے درجے کی قیادت میں شامل رہنما کو میرِکاررواں چن لیا؟یہ سوال بہت اہم ہے اور اس سوال پر مختلف زاویوں سے بحث ہورہی ہے۔
اگر سوباتوں کی ایک بات کی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو گزشتہ چند برسوں سے قیادت کے بحران کا سامنا ہے اور اب جماعتی ارکان نے اس بحران سے نکلنے کے لیے سراج الحق کی صورت میں گویا ایک پانسا پھینک دیا ہے جو بڑی کامیابی یا بڑی ناکامی دونوں طرح کے نتائج پر منتج ہوسکتا ہے۔

جماعت اسلامی کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے اندر اختلاف اور اضطراب کی لہریں عموماً جماعتی نظم کی مضبوط فصیل سے باہر نہیں آیا کرتیں لیکن واقفان دورونِ خانہ جانتے ہیں کہ جماعت کی سیاسی حکمتِ عملی کی مسلسل ناکامی سے ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اس کی بقاء ہی خطرے سے دوچار ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جماعت کی قیادت میں دوسری بار تبدیلی اسی خطرے کے احساس کی علامت ہے۔

اس تبدیلی کا آغاز دراصل 2008ء کے انتخابات کے موقع پر اس وقت ہوگیا تھا جب قاضی حسین احمد مرحوم کی جانب سے جنرل پرویزمشرف کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا، قاضی صاحب نے اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے میاں نوازشریف کو بھی بائیکاٹ پر آمادہ کرلیا تھا لیکن بعد میں عین موقع پر میاں صاحب ’جُل‘ دے گئے اور جماعت اسلامی و تحریکِ انصاف جیسی جماعتیں دیکھتی رہ گئیں۔

راقم کو جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے ایک رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ قاضی صاحب اور منور حسن صاحب کے اصرار کا نتیجہ تھا، سراج الحق سمیت خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے بہت سے ارکان اس کے حق میں نہیں تھے۔ انتخابات کے بعد جب جماعتی اجلاسوں میں اس فیصلے پر تنقید ہوئی تو قاضی صاحب دل برداشتہ ہوگئے اور بعض دیگر معاملات کے ساتھ اس معاملے نے بھی جماعت کی امارت سے علیحدگی کے ان کے ذاتی فیصلے میں اہم کردار ادا کیا۔

امارت سے سبکدوش ہونے کے تھوڑے عرصے بعد قاضی صاحب کراچی تشریف لائے تو ہماری ان کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی جس میں اس موضوع پر ان کے خیالات جاننے کا موقع ملا، قاضی صاحب اس وقت تحریکی زندگی ترک کرنے کے موڈ میں نہیں تھے تاہم وہ جماعت کے حصار سے باہر کے میدان میں کام کرنے کے خواہاں تھے اور جماعتی ماحول کے اندر گھٹن کے احساس کا کھل کر اظہار بھی کررہے تھے۔


قاضی صاحب کے بعد جماعت کی امارت سیدمنورحسن کے سپرد ہوئی تو عام توقع یہ تھی کہ جماعت کے وہ حلقے جو قاضی صاحب کے ’جذباتی فیصلوں‘ سے نالاں تھے، جماعت میں شورائیت کے حقیقی معنوں میں احیاء کے لیے مجتمع ہوں گے اور جماعت کے سیاسی کردار میں ایک نئی روح پھونک دی جائے گی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے سیدمنورحسن کے امیر منتخب ہونے پر ایک توقع یہ بھی تھی کہ جماعت کو اپنے کھوئے ہوئے سیاسی گڑھ کراچی میں دوبارہ ’انٹری‘ کے لیے بھی نئی طاقت میسر آجائے گی۔

لیکن سیدمنورحسن کے پانچ سالہ دور ِامارت میں یہ امیدیں پوری نہ ہوسکیں۔
2013ء کے عام انتخابات سے قبل اسلامی کاز سے تعلق اور ہم دردی رکھنے والے ہر پاکستانی کی طرح جماعتی ارکان کی اکثریت کی بھی یہ خواہش تھی کہ دینی جماعتیں انتخابی اتحاد قائم کرکے ایک پلیٹ فارم سے انتخاب لڑیں تاکہ سیکولر ودین بیزار حلقوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ مگر نہ معلوم کیا وجوہ تھیں جن کے باعث جناب سیدمنورحسن شروع دن سے اتحاد سے گریزاں رہے۔

دینی جماعتوں سے اتحاد کے لیے میڈیا کے ذریعے شرائط پیش کرتے رہے جبکہ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف سے سمجھوتے کے لیے آخری حد تک کوششیں کرتے رہے۔ انتخابات سے قبل ایک موقع پر عمران خان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیدمنورحسن صاحب نے عمران خان کی اتنی تعریفیں کیں کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ جماعت اسلامی کے تحریکِ انصاف میں انضمام کا اعلان کرنے والے ہیں۔

لیکن مسلم لیگ ن اور تحریک ِانصاف، دونوں نے جماعت کو اس کے حجم کے مطابق بھی حصہ دینے سے انکار کردیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق جے یو آئی سے نصف نشستیں مانگنے والی جماعت ایک مرحلے پر مسلم لیگ ن سے پنجاب میں5 نشستوں پر اکتفاء کر بیٹھی تھی۔ دوسری جانب جماعت کے اندر ایک مضبوط حلقہ جس میں سراج الحق نمایاں تھے، ایم ایم اے کی بحالی کے حق میں تھا، مگر جماعت کی قیادت اس کی راہ میں مزاحم بنی۔

اس کے نتیجے میں انتخابات کے موقع پر جماعت اسلامی بالکل تنہا رہ گئی اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ جماعت کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ البتہ خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی کو ایک غیرسیاسی دینی جماعت اشاعت التوحید والسنہ کی حمایت ملی جس کے نتیجے میں اس جماعت کے زیراثر حلقوں میں جماعت کے امیدوار کامیاب ہوئے۔
کراچی میں عین انتخابات کے دوران جماعتی قیادت کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان نے نہ صرف کراچی میں جماعتی کارکنوں کی محنت پر پانی پھیر دیا بلکہ بائیکاٹ کی افواہ نے پورے ملک میں جماعتی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس طرح کی فاش غلطی اگر کسی اور سیاسی جماعت کی قیادت کرتی تو شاید اسے زبردست بغاوت کا سامنا ہوتا لیکن جماعت میں اطاعتِ امیر کے جذبے کا کرشمہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جماعتی ارکان نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے امارت کے انتخاب کا انتظار کیا۔ اب ان کا فیصلہ سامنے آگیا ہے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تبدیلی جماعت اسلامی کے نظم کی خوبصورتی، جماعتی ارکان کی جمہوری سوچ اور جماعت میں اندرونی احتساب کی مضبوط روایت کی موجودگی پر دلالت کرتی ہے، ہمارے وہ جماعتی احباب جو میڈیا میں اس تبدیلی کے پس منظر میں جماعتی قائدین کی سادگی، پارسائی اور دیانت داری کے حوالے پیش کررہے ہیں ہمارے اس تجزیے سے شاید اتفاق نہ کریں لیکن کسی جماعت بالخصوص دینی جماعت کی قیادت کے لیے سادگی، دیانت داری اور پارسائی کے اوصاف کی اہمیت اپنی جگہ مگر جب کوئی جماعت سیاسی میدان میں ایک فکر اور منشور کے ساتھ منہ زور مخالف قوتوں سے نبرد آزما ہو تو اس کی قیادت کے لیے اصل اور بنیادی ضرورت سیاسی بصیرت کی ہوتی ہے۔

سیاست ایک سائنس ہے اور سیاسی حرکیات کو سمجھے بغیر محض ذاتی زندگی میں سادگی، دیانت داری یاعاجزی یا انکساری کی بناء پر کوئی شخص قیادت کے منصب کا اہل نہیں ہوسکتا۔آپ بہت دیانت دار ہیں ،آپ پرکوئی غبن کا الزام نہیں لگاسکتا لیکن اگر آپ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں انتخابات کے موقع پر آپ کی جماعت کے انتخابی مہم میں لگائے گئے کروڑوں اربوں روپے ضائع ہوجاتے ہیں تو آپ کی اس دیانت داری کا جماعت کا کیا فائدہ ہوا۔

حضرت عمر  کے بارے میں منقول ہے کہ وہ سیاسی و انتظامی عہدوں کے لیے کم سمجھ بوجھ والے نیک لوگوں پر پارسائی کی زیادہ شہرت نہ رکھنے والے، مگر اچھی انتظامی صلاحیت کے حامل اوصاف والے اصحاب کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ جماعت اسلامی کے طرزِ فکر اور نظریے سے ہر کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ جماعت کے پاس ریاست کا نظم چلانے کے لیے رجالِ کار موجود ہیں۔

کراچی میں جنرل مشرف کے دور میں ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کی وجہ سے جماعت اسلامی کو شہری حکومت قائم کرنے کا موقع ملا تو نعمت اللہ خان کی قیادت میں جماعتی ٹیم نے شہر کا نقشہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ جماعت کو صرف ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اس کی افرادی قوت کو موثر سیاسی طاقت میں بدل کر ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل بنادے۔اور آخری بات یہ کہ جماعت اسلامی کی سیاسی میدان میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایک دینی جماعت ہونے کے باوجودمنبر و محراب کی طاقت سے محروم ہے۔ جس دن جماعت کی قیادت اسے منبرو محراب کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوئی، اس دن جماعت کی سیاسی پیش رفت کا نیاباب کھلے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :