مرے درد کی دوا کرے کوئی!

جمعہ 4 جولائی 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

یہ پشاور کا جلوزئی کیمپ ہے۔ یہاں قبائلی علاقوں درہ آدم خیل ،تیراہ، مہمند، باجوڑ وغیرہ میں گزشتہ کئی بر سوں سے جاری فوجی کاررائیوں کے دوران بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندان چھوٹے چھوٹے خیموں کے اندر کئی کئی مہینوں اور سالوں سے رہ رہے ہیں۔ یہاں تاحد نظر خیمے ہی خیمے نظر آتے ہیں اور ان خیمہ بستیوں کے درمیان کھلی جگہوں میں دنیا و مافیہا سے بے خبر کھیلتے کودتے قبائلی بچے، جو ہر نو وارد کو حیرت و استعجاب کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

میں برادرم انور غازی اور جمال عبد اللہ عثمان کے ہمراہ جلوزئی کیمپ پہنچا ،یہ دوپہر کا وقت تھا۔ ہم ائیر کنڈیشنڈ گاڑی سے اتر کر کیمپ کے اندر داخل ہوئے تو گرم لو کے تھپیڑوں نے ہمارا استقبال کیا۔ جون کے اواخر، دوپہر کا وقت اور پشاور کی گرمی… ہمیں یہاں آکر معلوم ہوا کہ موسم کی شدت کیا ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

ہم اندازہ کرسکتے تھے کہ اس خیمہ بستی کے اندر چھوٹے چھوٹے خیموں کے اندر بسے خاندانوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔

گوکہ اس خیمہ بستی میں یونیسیف اور دیگر عالمی اداروں کی نگرانی میں متاثرین کے لیے تھوڑے بہت راشن، پانی، بجلی اور دوا دارو کے انتظامات موجود ہیں مگرو سیع دالانوں والے کھلے گھروں میں رہنے والے قبائلی پختونوں کے لیے ان چھوٹے چھوٹے خیموں کے اندر پورے پورے خاندانوں سمیت رہنا کتنا مشکل، اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوگا، اس کا اندازہ ہر اس شخص کوہوسکتا ہے جو قبائلی کلچر سے واقف ہو۔

ہمیں یہاں جوبھی شخص ملا، اس نے اسی بات کی شکایت کی کہ انہیں ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا ہے جس کے وہ عادی نہیں ہیں۔ ہم نے کندھے پر راشن کا تھوڑا سا سامان اٹھائے ہوئے ایک قبائلی کو روک کر سے اس کی مشکلات کا پوچھا تو اس نے سامان نیچے رکھتے ہوئے پہلے تو ایک لمبا سانس لیا اور پھر گویا ہوا، بھائی! ہما را سب کچھ لٹ گیا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ یہاں اس کیمپ میں ہمیں اپنے بچوں کے لیے تھوڑا سا راشن مل جاتا ہے، مگر ہم اس طرح مانگ کر کھانے کی زندگی کے تو عادی نہیں ہیں۔

ہم دوسروں کو کھلانا پسند کیا کرتے تھے۔ ہمیں اپنے بھر ے پرے گھر چھوڑنے پڑے ہیں۔ یہاں اس گرمی میں ہمیں ایک عذاب کا سامنا ہے، نجانے کب تک ہم اس طرح کسمپرسی میں رہیں گے۔ یہاں بچوں اور پردہ دارخواتین کے لیے رہنا بہت مشکل ہے۔ ہم نے مشترکہ عارضی بیت الخلاؤں اور غسل خانوں کے استعمال کا کبھی تصور بھی نہیں کیاتھا۔ آپ ارباب اختیار تک ہمارا پیغام پہنچائیں کہ خدارا وہ ہمیں جلد اپنے گھروں کو واپس جانے دیں۔

یہاں کی ذلت کی زندگی سے اپنے گھر کی موت اچھی ہے۔ یہ کہہ کر قبائلی کی آنکھیں بھرا گئیں اور ہم انہیں سوکھی تسلی دیتے ہوئے واپس ہوگئے۔
قارئین! یہ اس آئی ڈی پیز کیمپ کی کہانی ہے جو پہلے سے آباد ہے، جسے یونیسیف جیسے عالمی ادارے کی سرپرستی میسر ہے اور جہاں متاثرین کی تعداد بھی سنبھالے جانے کی قابل ہے۔ شمالی وزیرستان میں حالیہ دنوں شروع کیے گئے آپریشن ”ضرب عضب“ کے لاکھوں متاثرین کو بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسمعیل خان، ٹانک اور دیگر ملحقہ علاقوں میں ٹھہرایا گیا ہے، خیبر پختونخواکے یہ جنوبی اضلاع گرمی اور حبس کے لحاظ سے پنجاب اور سندھ کے گرم ترین علاقوں سے کسی بھی درجے میں کم نہیں ہیں اور مصیبت یہ ہے کہ لاکھوں افراد کو مناسب پیشگی انتظامات کے بغیر ہی ان کے گھروں سے نکال کر در بدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا گیا ہے۔

متاثریں کی رجسٹریشن، امداد اور بحالی کے سرکاری دعوے ایک طرف، زمینی صورت حال میڈیا میں شایع اور نشر ہونے والی تفصیلات اور تصاویر سے بالکل عیاں ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان سے بنوں نقل مکانی کرنے والے آئی ڈی پیز کی مشکلات رمضان میں کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی ہیں، ان کے لیے 2 وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ شمالی وزیرستان کے متاثرین کی بڑی تعداد خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں موجود ہے جن میں سے بیشتر کرائے کے گھروں‘ رشتہ داروں کے ہاں یا پھرسرکاری سکولوں میں رہائش پذیر ہیں تاہم راشن کاحصول ان متاثرین کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے۔

دن میں راشن نہ مل سکا تو اب یہی متاثرین رات جاگ کر اشیاء خورونوش کے حصول کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ دن کو گرمی ہوتی ہے‘ رات کو مجبوراً نکلنا پڑتا ہے، روزے ہیں لیکن راشن نہیں ملتا۔ ۔ تقریباً 2ہفتے گزرنے کے باوجود آئی ڈی پیز کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ بعض غیرسرکاری تنظیموں نے متاثرین کی مدد کے لیے اجازت نہ ملنے کے خلاف بنوں میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔

بر طانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے قبائلی علاقوں سے آنے والے اکثر لوگ مایوس اور ناخوش ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں جلد ان کے گھروں کو واپس جانے دیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے متاثرین کا مسئلے ایک بڑا قومی چیلنج بنتا جارہا ہے اور اگر اس سے نمٹنے کے لیے بروقت کوششیں نہ کی گئیں تو صورت حال قابو سے باہر ہوسکتی ہے۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ#
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
قبائلی نفسیات سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ قبائلی لوگ بھوک، پیاس، دکھ، درد، زخم سب برداشت کر لیتے ہیں لیکن بے عزتی و بے توقیری کے احساس کو وہ کبھی ہضم نہیں کرتے۔ قبائلی عوام کو عزت نفس سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی۔ اس لیے جن قوتوں نے آپریشن کو ہی مسئلے کا آخری حل قرار دے کر قبائلی علاقوں میں چاند ماری کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر بے گھر ہونے والے قبائلی عوام کو سنبھالا نہ گیا، توپھر ایک بڑا آپریشن ان بندوبستی علاقوں میں بھی کرنا پڑسکتا ہے جہاں لاکھوں قبائلی مسلمان سخت گرمی اور رمضان کے مہینے میں آزمائشوں سے دوچار ہوکر صبر و ضبط کے بندھنوں کو ٹوٹنے سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔


قبائلی علاقوں میں عین رمضان کے آغاز پر نئے آپریشن کے آغاز کا کوئی جواز تھا یا نہیں؟یہ سوال تو شاید اب بعد ازوقت ہوگا، تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ حلقے جو دن رات حکومت اور فوج کو آپریشن کے لیے اکسا رہے تھے، وہ آپریشن کے متاثرین کی امداد اور بحالی کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ مغربی اور مقامی این جی اوز، نام نہادسول سوسائٹی کے وہ ارکان کہاں ہیں جو انسانیت کی خدمت کے نام پر پورے ملک میں دھماچوکڑی مچائے رکھتے ہیں۔

ان صحافیوں، اینکرز اور کالم نگاروں کا بھی کچھ پتا ہے جو صبح شام حکومت اور فوج کوقبائلی علاقوں میں آپریشن کرنے کی ہلا شیری دے رہے تھے؟وہ لبرل اور سیکولر سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں جو قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع نہ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہی تھیں؟ کیا وجہ ہے کہ متاثرین کی امداد کے لیے اگر کہیں کچھ چلت پھرت نظر آتی ہے تو ان چندڈاڑھی اور پگڑی والے افراد اور دینی رفاہی اداروں کے کارکنوں کی نظر آتی ہے جن کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دیا جاتا ہے، جن پر پابندیاں لگادی جاتی ہیں، جن کے اثاثے منجمد کیے جاتے ہیں۔


یہ موقع تلخ باتیں اور شکوہ شکایتیں کرنے کا نہیں، قبائلی عوام امداد کے منتظر ہیں، ان کی ایک ہی پکار ہے کہ #
ابن مریم ہوا کرے کوئی
مرے درد کی دوا کرے کوئی
اس لیے ہمیں آگے بڑھ کر ان متاثرین کی مدد کرنی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :