
خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات
منگل 2 جون 2015

مولانا شفیع چترالی
(جاری ہے)
جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نکلا
صوبائی دارالحکومت سمیت مختلف اضلاع میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے پولیس اور انتظامیہ کی سرپرستی میں دھاندلی کرنے یا دھاندلی کے لیے الیکشن کمیشن کے عملے پر دباوٴ ڈالنے کے واقعات سامنے آتے رہے، یہاں تک کہ ایک صوبائی وزیر امین گنڈاپور کو ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام نے بیلٹ بکس ساتھ لے جاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ بھی لیا، لیکن طرفہ تماشا یہ کہ پولیس نے تاحال ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ہے، جبکہ دوسری جانب اے این پی کے سابق وزیر میاں افتخار کو تحریک انصاف کے کارکن کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا، حالانکہ مقتول کے والد نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے کہ انہوں نے میاں افتخار کو اپنے بیٹے کے قتل میں نامزد کیا ہے اور نہ انہیں اس قتل میں ملوث سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود میاں افتخار کو کس کے ایما پر، کس مقصد کے لیے گرفتار کیا گیا؟ یہ خیبرپختونخوا کی پولیس ہی بتاسکتی ہے ،جس کے بارے میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک کا دعویٰ ہے کہ وہ مکمل طور پر آزاد ہے اور حکومت کے کہنے پرکسی کے خلاف مقدمہ درج کرتی ہے نہ ہی حکومت کو کوئی مقدمہ خارج کرنے کا اختیار ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کی خاطر انصاف وقانون کی دھجیاں اڑاکر رکھ دی ہیں اور 4 مہینے تک کنٹینر پربیٹھ کر دھاندلی دھاندلی کا شور مچانے والوں نے خود دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں اپنی 2013ء کی عام انتخابات میں کامیابی کی شرح کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ جمعیت علمائے اسلام خیبرپختونخوا میں دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری ہے اور اس نے متعدد اضلاع میں تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دیا ہے، جبکہ دوسری جانب اے این پی نے بھی صوبے بھر میں اچھا ”کم بیک“ کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی اپنے روایتی حلقوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے ،تاہم بعض مبصرین کے مطابق ایک حکومتی اتحادی جماعت ہونے کی حیثیت سے جماعت اسلامی کی کامیابی کی شرح وسطح وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں بھی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور چند اضلاع میں تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی ہے، لیکن یہاں یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر صوبے میں برسراقتدار جماعت کو ایک ایڈوانٹیج حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ لوگ اپنے گلی محلے کے مسائل کے حل کے لیے بالعموم ان جماعتوں کو ووٹ دینے کو ترجیح دیتے ہیں جن کی صوبے میں حکومت ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں دیگر جماعتوں کے مقابلے میں سبقت ملنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صوبے کے عوام اس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں، بلکہ گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں اس دفعہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ صوبے کے عوام تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور اس عدم اطمینان کا اظہار انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دے کر کردیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں تبدیلی لانے، اسٹیٹس کو توڑنے، میرٹ کی بالادستی قائم کرنے اور روایتی سیاسی بازی گری کا خاتمہ کرنے کے بلندبانگ دعوے اپنی جگہ کتنے ہی سہانے اور اچھے کیوں نہ ہوں، عوام ان دعووٴں اور وعدوں کو کارکردگی کی کسوٹی پر ہی پرکھتے ہیں اور اگر کارکردگی کو معیار بناکر دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام کو تبدیلی صرف اس قدر نظر آرہی ہے کہ پہلے پشاور میں اے این پی حکومت تھی اور اب تحریک انصاف کی حکومت ہے۔تحریک انصاف کے پاس بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کا شفاف، آزادانہ اور پرامن انعقاد ممکن بناکر تبدیلی کے اپنے نعرے اور دعووٴں کا عملی ثبوت قوم کے سامنے پیش کرتی، لیکن وہ اس میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے اور اب اس ناکامی کی خفت کو مٹانے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے راہنماوٴں اور حامیوں کی جانب سے طرح طرح کی حجت بازیاں کی جارہی ہیں، جس پر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کا محاورہ ہی صادق آتا ہے۔ہمیں تو ان حجت بازیوں پر یہ شعر یاد آجاتا ہے کہ #
وہ تیرگی جو مرے نامہٴ سیاہ میں تھی
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
مولانا شفیع چترالی کے کالمز
-
”آزادی مارچ“۔۔امکانات اور خدشات
بدھ 18 ستمبر 2019
-
جرأت کا نام … حضرت مولانا سمیع الحق شہید
پیر 5 نومبر 2018
-
مستقبل کا ممکنہ سیاسی منظر نامہ
جمعرات 21 جون 2018
-
کوئی نسبت تو ہوئی رحمت عالم سے مجھے!
جمعہ 12 جنوری 2018
-
نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کا رومانس اور لڑائی!
منگل 22 اگست 2017
-
یہ علامتیں ہیں ثبوت نہیں
بدھ 12 جولائی 2017
-
ایک روشن کردار
جمعہ 28 اپریل 2017
-
علماء کی سیاست… کل اور آج
جمعرات 30 مارچ 2017
مولانا شفیع چترالی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.