کیا ہم واقعی مسلمان ہیں ؟؟

پیر 14 جولائی 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

حاجی صاحب پو ری سنجیدگی سے بولے جا رہے تھے ”ہم صرف نام کے مسلمان ہیں ورنہ حقیقت میں ہم مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ۔ہم دین اور دنیا دونوں اعتبار سے پیچھے ہیں اور المیہ یہ ہے ہمیں اپنی غلطی کا احساس تک نہیں ،ہم آج بھی خود کو ثریا ستارے کی بلندی پر سمجھتے ہیں اور ہم خود کو قصور وار ٹھہرانے کے لیئے تیا ر نہیں ۔ہم آج بھی خود کو دنیا کی سب سے بہترین مخلوق تصور کرتے ہیں لیکن خود کو ان اوصاف سے مزین کرنے کے لیئے تیار نہیں جن کی بنیاد پر کسی قوم کے مہذب اور تہذیب یافتہ ہو نے کا فیصلہ کیا جا تا ہے ۔

دنیا تو ہم سے چھوٹی ہی تھی ہم نے دین کو بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا اور اب حالت یہہ ہے کہ اب ہم تین میں ہیں نہ تیرہ میں ،دنیا ہمیں ساتھ لے کر چلنے کے لیئے تیار ہے اور نہ ہی ہم خدا کی بارگاہ تک رسائی رکھتے ہیں ،ہم نے اسلام کی اساسی تعلیمات کو صرف آخرت تک محدود کر کے رکھ دیا ہے اور ہم اسلامی احکا م کو صرف جنت اور جہنم کی نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلا می تعلیمات پر عمل آخرت میں کامیابی کی ضمانت تو ہے ہی لیکن ان پر عمل کی صورت میں دنیا کا جہنم بھی جنت میں بدل سکتاہے ۔

(جاری ہے)

“حاجی صاحب مسلسل بولے جارہے تھے ، ان کی ڈاڑھی کے سفید بال ان کی ادھیڑ عمری کی چغلی کھا رہے تھے اور ان کی پیشانی پر بنا محراب کا نشان ان کی بزرگی کا پتہ دیتا تھا ،حاجی صاحب کی بات ابھی پوری نہیں ہو ئی تھی ،انہوں نے پہلو بدلا اور نرمی سے بولے ”آپ صرف روزے کو لے لیں ،ہمارے معاشرے کے چالیس فیصد افراد روزہ نہیں رکھتے اور جو روزہ رکھتے ہیں وہ روزے کا احترام نہیں کرتے اور سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ان کا روزہ دم تو ڑ دیتا ہے ۔

ہمیں روزہ رکھنے اور نہ رکھنے سے کو ئی فرق نہیں پڑتا ،ہم روزہ رکھ کے جھوٹ بھی بولتے ہیں ،غیبت بھی کرتے ہیں ، چغلی بھی کھاتے ہیں ، گالیاں بھی نکالتے ہیں ،سود بھی کھاتے ہیں ،دھو کا بھی دیتے ہیں اور ہم روزہ رکھ کے بد نظری بھی کرتے ہیں ،ہمارے ایک ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے ہم رشوت لے رہے ہوتے ہیں ،ہم مسجد میں بیٹھ کرسودی کاروبار کا حساب کتاب کر رہے ہو تے ہیں اور ہم قرآن ہاتھ میں لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہو تے ہیں ۔

فرق صرف یہ ہے عام دنوں میں ہم بڑی سادگی سے گناہ کرتے ہیں لیکن رمضان میں ہمارے گناہ کرنے کا طریقہ تھوڑا مہذب ہو جاتا ہے ،ہم جھوٹ بھی بولتے ہیں تو سر پر ٹوپی پہن کر ،ہم ناپ تول میں کمی بھی کر رہے ہو تے ہیں اور ہماری زبان پر استغفراللہ کا ورد بھی جاری ہو تا ہے اور ہم دھو کا بھی دے رہے ہو تے ہیں اور ہمارے ہاتھ سے تسبیح کے دانے بھی بڑی تیزی سے گررہے ہوتے ہیں “حاجی صاحب کی آوا ز آہستہ آہستہ بلند ہو تی جا رہی تھی ،وہ رکے گہرا سانس لیا اور بولے ”آپ قر آن کو لے لیں ،ستر فیصد مسلمان سال میں ایک دفعہ بھی قرآن ختم نہیں کرتے حالانکہ سال میں کم از کم ایک دفعہ قرآن ختم کرنا ضروری ہے ،سال کے گیارہ ماہ کو چھوڑیں آپ صرف رمضان کو ہی لے لیں ،رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا تھا اور ماضی قریب و بعید میں عام مسلمان بھی رمضان میں قر آن ختم کرنا ضروری سمجھتا تھا لیکن آج ہم رمضان میں بھی قرآن کو ہاتھ لگانے کے لیئے تیا ر نہیں ،سحری کھا کر سو جانا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے اور ٹی وی پر نام نہاد اسکالرز کی گفتگو سننا ہماری عبادت ،ہم نے قرآن کو معاشرے کی سب سے مظلوم کتا ب بنا دیا ہے،ہم بڑے شوق سے قرآن خریدتے ہیں ،اس پر قیمتی اور خوبصورت غلاف چڑھاتے ہیں اور اسے بڑے اہتمام کے ساتھ کسی طاق یا الماری میں سجا دیتے ہیں۔

آپ نماز کو لے لیں ،نماز کے بغیر دین نامکمل ہے اور نماز ایمان اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے لیکن آج کا مصروف مسلمان اپنی مصروف زندگی میں نماز کے لیئے وقت نکالنے کوتیار نہیں ،ہمارے معاشرے کے پچاس فیصد افراد نماز نہیں پڑھتے اور اکثریت کو نماز کی تسبیحات اور دعائیں یاد نہیں ،اور جو پچاس فیصد افراد نماز پڑھتے ہیں ان کے تلفظ تک ٹھیک نہیں اور وہ نماز میں لحن جلی جیسی غلطیاں کرتے ہیں ،صرف دس فیصد افراد ایسے ہیں جنہیں نماز کا ترجمہ آتا ہے اور وہ پورے خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے ہیں ۔

آپ زکوتہ کو لے لیں ہمارا اسی فیصد طبقہ زکوتہ ادا نہیں کرتا اور رمضان آنے سے پہلے ہم لو گ اپنا پیسہ بینکوں سے نکلوا لیتے ہیں کہ کہیں اس سے زکوتہ نہ کٹ جائے ،اگر صرف لا ہو ر شہر کے لوگ زکوتہ ادا کریں تو پاکستان میں کوئی غریب بھو کا نہ سوئے “حاجی صا حب بڑی روانی سے بولے جا رہے تھے اور ان کی کھری کھری باتوں کا اثر دل اور روح کی گہرائی تک محسوس ہو رہا تھا ،وہ تھوڑی دیر کے لیئے رکے ،سر جھکایا اور کسی گہری سوچ میں ڈوب کر بولے ”کتنے فیصد مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں نبی علیہ السلام کی سیرت کی کو ئی کتاب پڑھی ہو گی ،کتنے فیصد مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے صحابہ کرام کی زندگی کا مطالعہ کیا ہو گا ،کتنے فیصد مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے قرآن کا ترجمہ پڑھنے کی کو شش کی ہو گی اور کتنے فیصد مسلمان ایسے ہیں جو تفسیر قرآن سمجھنے کے لیئے باقاعد ہ کسی عالم کے حلقہء اثر میں جاتے ہیں ،جب ہم نے رسول اللہ کی سیرت اور صحا بہ کرام کی زندگیوں کو ہی نہیں پڑھا تو ہم ان کے اسوہ کے مطابق خود کو کیسے ڈ ھا ل سکتے ہیں ؟در اصل ہم صحرا میں بھٹکنے والے اس مسافر کی طرح ہیں جو اپنی منزل کھو بیٹھتا ہے اور بقیہ سا ری زندگی صحرا کی خاک چھانتے ہو ئے گزار دیتا ہے ۔

ہمارا نوجوان دنیا بھر کا ادب پڑھتا ہے لیکن اس کے لیئے اپنے نبی کی سیرت اور قرآن کا ترجمہ پڑھنے کے لیئے وقت نہیں ،آپ کسی بھی راہ چلتے ہو ئے نو جوان کو روک کر پو چھ لیں وہ آپ کو ہیر رانجھے سے سسی پنو ں تک اور لیلی مجنوں سے شیریں فرہاد تک کے سارے قصے فر فر سنا دے گا ،وہ آپ کو ہالی وڈ ،بالی وڈ اور لالی وڈ میں بننے والی ہر فلم کی ہسٹری ،اس کے ریلیز ہو نے کا سن اور اس کی مقبولیت کا گراف تک بتا دے گالیکن اسے یہ پتا نہیں ہو گا کہ صورت فاتحہ مکی ہے یا مدنی ،قرآن کی سب سے چھوٹی سورت کون سی ہے اور قرآن کا دل کس سورت کو کہا جاتا ہے “حاجی صاحب کی گفتگو جاری تھی کہ مسجد سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی ،حاجی صاحب نے موٹے شیشوں والا چشمہ آنکھوں پے چڑھایا ،میلی کچیلی ٹوپی سر پے رکھی اور لاٹھی سنبھال کرمسجد کی جانب چل دیئے اور میں نیم گرم دوپہر میں بیٹھا بڑی دیر تک سوچتا رہا کیا ہم واقعی مسلمان ہیں ؟؟؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :