شوگر کو شکست دیں !

اتوار 27 اگست 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ڈاکٹر بن سویٹ لینڈ مشہور موٹیویشنل اسپیکر ہیں ۔انہوں نے اپنی مشہور کتاب grow rich while you sleepمیں ایک واقعہ لکھا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ایک مزدور اپنی جوانی میں بڑا کڑیل اور سخت جان تھا ، ساری زندگی محنت کرتا اور گھر چلاتا رہا ۔کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا نہ بھیک مانگی ،محنت سے انکار کیا نہ سستی کا شکار ہوا۔ لیکن یہ مزدور جب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچا تواس کی زندگی میں یکسر تبدیلی آ گئی، وہ خود کو کمزور محسوس کرنے لگا، محنت کی عادت جاتی رہتی ہے اورہر وقت ذہنی دباوٴ اور جسمانی تھکاوٹ کا شکار رہنے لگا۔

اس کا کام کرنے کو بھی دل نہیں چاہتا ، کاہلی اور سستی ہر وقت اس پر سوار رہتی ، ہاتھ پاوٴں بوجھل ہوگئے اور مایوسی کی طویل رات نے اس کے گھر میں ڈیرے ڈال لیے۔

(جاری ہے)

اس میں یہ اچانک تبدیلی کیوں آئی اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے، وجہ یہ تھی کہ وہ مزدورہمت ہار چکا تھا ، وہ سمجھتا تھا کہ انسان صرف ساٹھ سال تک ہی بھرپور زندگی گزار سکتا ہے اور ساٹھ سال کے بعد انسان کام کرنے کے قابل نہیں رہتا ، یہ تصور اس کے ذہن میں اس قدر راسخ ہوچکا تھا کہ اب وہ خود کھانا تک نہیں کھا سکتا تھا۔

وہی مزدور جو تین تین دن مسلسل محنت کر نے کا عادی تھا اب تین گھنٹے بھی محنت نہیں کر سکتا تھا ۔ گھر میں فاقے ہوئے تو بیوی پریشان ہو گئی ، بیوی نے اس کا عجیب حل نکالا ، وہ ٹاوٴن کمیٹی کے آفس گئی اپنے خاوند کی جعلی پیدائش پرچی بنوائی اور اسے لا کر دکھائی کہ تمہاری اصل عمر ساٹھ نہیں پچاس سال ہے ، دراصل تمہاری پیدائش کے وقت ٹاوٴن کمیٹی کے کلر ک سے غلطی ہو گئی تھی اور اس نے تمہاری عمر پچاس کی بجائے ساٹھ سال لکھ دی تھی ۔

خاوند نے اس پر یقین کر لیا، کچھ ہی دنوں بعد اس کی زندگی میں پھر تبدیلی آ گئی ،وہ دوبارہ محنت کر نے لگا ،وہ خود کو بالکل ٹھیک اور تندرست محسوس کر رہا تھا ،اسے چلنے پھرنے میں کو ئی دشواری تھی نہ محنت کرنے میں اور اب و ہ واقعی خود کو پچاس سالہ نوجوان محسوس کرتا تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنی زندگی کے مزید دس سال بھرپور طریقے سے جیئے اور اپنی بیوی کا شکر گزار ہوا۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان کی سوچ ہی اس کی صحت، عمر ، اس کے حالات اور اس کے مستقبل کا تعین کرتی ہے ۔ انسان وہی ہوتا ہے جو وہ سوچتا ہے ۔یہ بچپن ، جوانی اور پڑھاپاکچھ نہیں ہوتا انسان کی اصل عمر وہی ہوتی ہے جو وہ محسوس کرتا ہے ۔ انسانی صحت کا انحصار اس کی مثبت سوچ پرمنحصر ہوتا ہے ۔ زندگی سے وہی لوگ لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو اس سے لطف اندوز ہو نا چاہتے ہیں اور جو زندگی کو بوجھ سمجھتے ہیں یہ بوجھ انہوں نے خود بنا یا ہو تا ہے ورنہ زندگی بذات خود نرم و نازک اور معصوم ہے ۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ صحت کے حوالے سے ہماری ذہنی اپروچ ٹھیک نہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہسپتال بنا کر ، اچھی میڈیسن کھا کر اور مہنگا علاج کروا کر صحت مند اور تندرست رہ سکتے ہیں حالانکہ جتنا پیسا ہم ہسپتال بنانے ، میڈیسن خریدنے اور علاج کروانے پر لگا تے ہیں اس کا دس فیصد اگر ہم اپنی خوراک پر لگائیں ، صحت کے حوالے سے کتابیں پڑھیں تو ہم ذیادہ صحت مند اور لمبی عمر پا سکتے ہیں ۔

ہمارا المیہ ہے کہ اول تو ہمارے ہاں صحت کے حوالے سے کتابیں چھتی نہیں اور اگر چھپتی ہیں تو وہ محض سرسری اور غیر معیاری ہوتی ہیں ۔پچھلے دنوں ایک ایسی کتاب دیکھنے کا موقعہ ملاجو بلا شبہ اپنے موضوع پر انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ کتاب شوگرکی بیماری سے متعلق ہے اور شوگر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مرض اس قدر خطرنا ک ہے کہ اگر بروقت اس کا علاج اور پرہیز نہ کیا جائے تویہ دیمک کی مانند انسانی جسم کو چاٹ لیتی ہے ۔

جس طرح دیمک آہستہ آہستہ اور اندر ہی اندر اپنا کام کرتی ہے اسی طرح یہ بیماری بھی انسانی جسم کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور تب معلو م پڑتا ہے جب انسان موت کی دہلیز پر آ پہنچتا ہے۔یہ بیماری انسانی جسم کے مدافعاتی نظام کو تہس نہس کر دیتی ہے اور جب انسانی جسم کا مدافعاتی نظام تباہ ہو جائے تو انسان مختلف بیماریوں کا گھر بن جاتا ہے ، کیونکہ جب مدافعت نہیں رہتی تو کوئی بھی بیماری آسانی سی حملہ کر کے انسان کو موت کی وادی میں دھکیل سکتی ہے۔

اس کی وجہ سے انسانی جسم کو بلڈ پریشر، اٹیک اور فالج جیسے خطرناک امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔آج دنیا میں تقریبا ایک سو ملین افراد اس بیماری کا شکار ہیں اور 2025تک یہ تعداد 350ملین تک پہنچ جائے گی۔اس بیماری کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس میں مبتلا ء افراد کو یہ خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس بیماری کا شکار ہیں ، تقریبا پچاس فیصد افراد ایسے ہیں جن کو یہ بیماری لاحق ہے لیکن انہیں یہ خبر ہی نہیں کہ وہ اس مرض کا شکار ہیں ۔

شوگر کے حوالے سے اس سے پہلے بھی کچھ کتابچے دیکھنے کو ملے لیکن ان کی حیثیت صرف ثانوی تھی اور انہیں محض تجارتی نقطہ نظر سے لکھا گیا تھا۔ لیکن محترم متین خالد نے اس موضوع پر قلم اٹھا کر حقیقی معنوں میں انسانیت کی خدمت کی ہے۔ محترم متین خالد صاحب سے میرا تعلق اس وقت سے ہے جب میں ابتدائی کلاسوں کا طالبعلم تھا، ان کا ختم نبوت پر لکھا ہوا لٹریچر ہم بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے ۔

ان کے بارے میں جو تصور ذہن میں رائج تھا وہ کچھ اس طرح کا تھا کہ نہ جانے وہ کتنے بڑے عالم،صاحب علم اور بزرگ ہیں جو اتنی علمی اور تحقیقی کتب لکھتے ہیں ۔ لیکن کچھ سال پہلے جب ان سے ملاقات ہوئی تو جو خاکہ ذہن میں تھا وہ پاش پاش ہو گیا ۔میرے تصور کے بر عکس وہ ایک ایسے انسان نکلے جواسم با مسمیٰ ہیں۔نام کی طرح انتہائی متین شخصیت، سراپا علم و تحقیق ہیں ، اگرچہ وہ عالم تو نہیں لیکن ختم نبوت کے حوالے سے ان کا کام کسی عالم سے کم نہیں ،میں نے بڑے بڑے علماء کو ان کی کتب پڑھتے اور انہیں داددیتے ہوئے دیکھا ہے۔

وہ سراپا عجز و انکسار ہیں ، یاروں کے یار ، بے تکلف اور تصنع سے پاک ۔ ان کا قلم انتہائی شستہ اور رواں ہے ، ان کی تحریر میں برجستگی، ادب کی چاشنی اور ضرب الاامثال اور محاوروں کا تڑکا موجود ہوتا ہے۔ میں سمجھتا تھا شاید ان کا موضوع صرف ختم نبوت اور مذہبی موضوعا ت ہیں لیکن ” شوگر کو شکست دیں “ کتاب لکھ کر انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ ہر فن مولا ہیں اور ان کے دل میں حضور ﷺ سے عشق کے ساتھ ساتھ انسانیت کا درد بھی موجود ہے۔

اور انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ حضور ﷺ کے ساتھ عشق و محبت کا دعویٰ تب تک ادھورا ہے جب تک ہم انسانیت کا احترام ، انسانیت کا درد اور تڑپ محسوس نہیں کر سکتے ۔ اپنی کتاب میں انہوں نے شوگر کی وجوہات ، اس کا علاج ، پرہیز اوراس مرض کے حوالے سے دیگر اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے ۔چینی کہاوت ہے اگر آپ ننانوے برس تک زندہ رہنا چاہتے ہیں توہر کھانے کے بعد سو قدم چہل قدمی ضرور کیا کریں ۔

صحت مند زندگی گزارنے،لمبی عمر پانے اور شوگر سے جان چھڑانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم مناسب خوراک کھائیں ، ورزش کا معمول بنائیں ، مثبت سوچ اپنائیں اور خوش رہنا سیکھ لیں ۔خوشی میں تو سب خوش رہتے ہیں مصائب میں الجھ کر خوش رہنا اصل زندگی ہے ۔ زندگی گزارنے اورزندگی جینے میں بڑا فرق ہے ، گزر تو سب کی جاتی ہے لیکن زندگی جینے والے خوش نصیب بہت کم ہوتے ہیں اورزندگی جینے کا فن ایسی کتابیں پڑھنے سے ہی آتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :