آپ بھی غور کریں!

پیر 11 ستمبر 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

مجھے پہلی بار اپنی غلطی کا احساس دو ہفتے قبل ہوااور اب میں اپنی پچھلی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میں غلط تھا ۔اس سے پہلے کئی مرتبہ یہ پہلو سامنے آیا لیکن میں اپنے رویے پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس دنیا میں سب سے مشکل کام شاید اپنی غلطی تسلیم کو کرنا ہے ، ہم دنیا کا ہر مشکل کام کرلیں گے لیکن جب اپنی غلطی تسلیم کرنے کی باری آئی گی تو ہم مکر جائیں گے ۔

غلطی کو تسلیم کرنا بڑا پن اور بڑے لوگوں کی علامت ہے ،کم ظرف اور چھوٹے ذہن کے لوگ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے ۔ غلطی ہو جانا کوئی بری بات نہیں لیکن غلطی ہونے کے بعد اسے تسلیم نہ کرنا اور اس پر بضد رہنا یہ غلط رویہ ہے اورہم اس میں غلطی کرجاتے ہیں ۔دو ہفتے قبل تک میں بھی اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن اس کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میں واقعی غلط تھا۔

(جاری ہے)

مجھے اپنی غلطی کا احساس کیسے ہوا پہلے میں وہ واقعہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ دو ہفتے قبل میں اپنے اسٹڈی روم میں بیٹھا تھا ،شاید صبح نو بجے کا وقت تھا، میں لیپ ٹاپ پر کوئی ضروری اسائنمنٹ تیار کر رہا تھا ، دوست کی کال آئی اور انہوں نے کچھ وقت مانگا ، میں نے ٹائم دیکھا ، اسائمنٹ کی طرف نظر دوڑائی، مجھے اندازہ ہوا کہ میں مقررہ وقت میں اسائمنٹ مکمل نہیں کر سکوں گا لہذا میں نے دوست سے معذرت کرلی ،وہ راضی ہو گیا اور میں دوبارہ کام میں لگ گیا۔

میں نے تھوڑی دیر کام کیا اور اس کے بعد تقریبا آدھا گھنٹہ بڑے آرام سے فیس بک پر ضائع کیا لیکن اس وقت مجھے اسائنمنٹ کی تیاری اور وقت کا احساس نہ ہوا۔پھر میں نے چینل آن کیااور آدھا گھنٹہ خبریں سننے اوراس کے بعد آدھا گھنٹہ ٹاک شوز کی نذر کر دیا۔ تقریبا بارہ بجے تک میں نے لایعنی کاموں میں اپنا وقت صرف کیااور اس کے بعد اسائنمنٹ ادھوری چھوڑ کر لیٹ ٹاپ بند کر دیا۔

اس واقعے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اصل مسئلہ وقت اور اسائنمنٹ کا نہیں بلکہ ترجیحات کا ہو تا ہے۔اگر میں دوست کے ساتھ چلا جاتا اور واپس آکر اپنی اسائنمنٹ مکمل کر لیتا تو ایسا ممکن تھا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا اور یقینا یہ میری غلطی تھی ۔ آج ہم میں سے ہرفرد اپنی روز مرہ زندگی میں دھڑ ادھڑ یہ غلطیاں کیے جا رہا ہے ،ہم سمجھتے ہیں شاید ہم مصروف ہیں یا ہم کسی اہم کام میں لگے ہوئے ہیں ، ایسی با ت نہیں ہوتی بلکہ اصل مسئلہ ترجیحات کا ہوتا ہے ۔

ہم اپنی ترجیحات کا درست تعین نہیں کرتے اور غیر اہم چیزوں کا بہانا بنا کر اہم چیزوں کو نظر انداز کردیتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں شاید ہم مصروف ہیں اور ہمارے پاس وقت نہیں ، یہ محض دھوکا ہے اور ہم اس دھوکے کے اس قدر خوگر ہو گئے ہیں کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا ۔
ہم میں سے ہر ایک اپنی روز مرہ زندگی میں یہ غلطیاں دہرا رہا ہے لیکن ہم اپنے رویوں پر غور کرنے کی بجائے سمجھتے ہیں کہ شاید ہم بہت ذیادہ مصروف ہیں ، یہ مصروفیت نہیں ہوتی یہ ترجیحات کا غلط تعین ہوتا ہے ، ہمیں یہ شعورہی نہیں کہ ہم حقیقت میں مصروف ہیں یا ہم اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ۔

ہماری فیملی میں ایک بزرگ ہیں ، وہ سارا دن کام میں لگے رہتے ہیں، اگر ان سے کہا جائے کہ آپ کھانا کھا لیں تو کہتے ہیں وقت نہیں ، حالانکہ انہیں کوئی ایسا ضروری کام نہیں ہوتا کہ اسے موخر کر کے کھانے کے لیے وقت نہ نکالا جا سکے، لیکن وہ وقت پر کھانا نہیں کھائیں گے اور جب وقت پے کھانا نہیں کھاتے تو بھوک کی وجہ سے مزاج میں غصہ شامل ہو جاتا ہے جو سارے گھر والوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔

اسی طرح کی غلطیاں ہم اپنی سیاسی، سماجی اور مذہبی زندگی میں بھی کرے ہیں ۔ مثلا جب ہم نماز کے لیے مسجد جاتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ صرف فرض اور موٴکدہ سنتیں پڑھ کر مسجد سے نکل جائیں اور ذہن میں کاموں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے کہ مسجد سے گھر جا کر یہ یہ کرنا ہے اور جب ہم گھر پہنچتے ہیں تو وہ سب کام پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور ہم دیگر مصروفیات میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔

دراصل ہماری اصل ترجیحات میں نماز شامل ہی نہیں ہوتی لہذا ہم اسے جلدی سے جلدی نمٹا کر گھر پہنچنا چاہتے ہیں ۔ اگر کسی سے کہہ دیا جائے کہ دن میں قرآن کی تلاوت کے لیے بھی تھوڑا وقت نکال لیا کریں خواہ دس منٹ ہی کیوں نہ ہوں تو جواب ملتا ہے وقت ہی نہیں ہوتا حالانکہ یہ جواب دینے والے پانچ پانچ سو صفحات کے ناول پڑھنے کے لیے وقت نکال لیتے ہیں لیکن جب تلاوت کی بات کی جاتی ہے تو وقت نہیں ہوتا۔

یہ بھی غلط ترجیحات کی ایک مثال ہے۔ ہماری سماجی زندگی میں بھی اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں ، اولاد والدین کے پاس نہیں بیٹھتی ، رات کو جب سب اکھٹے بیٹھتے ہیں تو یہ لوگ کتاب یا لیپ ٹاپ ہاتھ میں پکڑ کر اسٹڈی روم میں چلے جاتے ہیں جب انہیں کہا جاتا ہے کہ والدین کے پاس بھی بیٹھ جایا کرو تو بڑی معصومیت سے جواب ملتا ہے کہ میں اسٹڈی کے لیے جا رہا ہوں ابھی میرے پاس وقت نہیں حالانکہ دن بھر میں اسٹڈی کے لیے بہت وقت ہو تا ہے اور والدین کے پاس بیٹھنے کے لیے بیس تیس منٹ آسانی سے نکالے جا سکتے ہیں ۔

لیکن چونکہ ہماری ترجیحات غلط ہیں اور ہماری ترجیحات میں والدین شامل نہیں لہذا ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ترجیحا ت کے غلط تعین سے ہم اپنی ذات کو بھی دھوکا دیتے ہیں ، مثلا ہم رات کو لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جائیں گے اور رات دیر تک فیس بک اور یوٹیوب پر اپنا وقت ضائع کریں گے اور اگر والدین یا کوئی اور سونے کے لئے کہہ دے تو ہم انہیں مصروفیت کے بہانے سے ٹال دیں گے ۔

ہمیں احساس ہی نہیں کہ رات دیر سے سونے اور اپنی نیند پوری نہ کرنے سے ہم کتنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہماری صحت پر کتنا برا اثر پڑتا ہے ۔ ہم خود کو مصروف سمجھ کر نیند پوری نہیں کرتے اور بڑی آسانی سے خود کو دھوکا دے لیتے ہیں ۔ ہم تفریح اور چہل قدمی کا وقت بھی کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کو دے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہم مصروف ہیں لیکن یہ بھی ہماری غلط ترجیحات کا اثر ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم تفریح اور چہل قدمی کے لیے وقت نہ نکال سکیں۔


آج کے مصروف ترین دور میں درست ترجیحات کا تعین ہماری ذات کا اہم ترین مسئلہ ہے ، ہم ترجیحات کے غلط تعین سے بہت بڑی بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں ، ہم خود کو مصروف سمجھ کر اپنے والدین، گھر بار ، بیوی بچوں اور پنی ذات تک کو بھلا دیتے ہیں،ترجیحات کا غلط تعین ہم سے ہمارے بہن بھائی، رشتہ داروں اور ہمارے دوستو ں کو چھین لیتا ۔ ہم اپنی ذات تک کو بھلا دیتے ہیں اور اس سے بھی بڑی آفت یہ ہے کہ ہمیں اپنے اس رویے اور اس غلطی کا احساس تک نہیں ، مجھے تو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے آپ بھی غور کریں کہ کیاآپ بھی اس رویے اور اس غلطی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :