
ہم شام کے لیے کیا کر سکتے ہیں !
پیر 12 مارچ 2018

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
میں نے پچھلاکالم شام پر لکھا تو بہت سارے لوگوں نے پوچھا ہم شام کے لیے کیا کر سکتے ہیں ، اگر سینے میں دھڑکتا دل ، انسانیت کا درد اور امت کی فکر موجود ہو تو یہ سوال لایعنی ہو جاتا ہے ، ان طالبات کو کسی نے نہیں بتایا تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔شام پر جو قیامت ٹوٹی ہے اور جس قدر ظلم و ستم وہاں ہو رہا ہے پوری امت کو جاگ جانا چاہئے تھا، ایک دو نہیں لاکھوں خاندان اجڑ گئے ہیں ،لاکھوں مہاجر شام اور ترکی کی سر حد پربے یار و مددگار پڑے ہیں، ہزارو ں ہسپتالوں میں پڑے ہیں ، سب سے ذیادہ متاثر بچے اور خواتین ہو رہی ہیں ، ہزاروں بچے والدین سے بچھڑ گئے اور ہزاروں اعضا ء سے محرروم ہو گئے ہیں، ایٹم بم کے سوا ہر خطرناک ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، یہ لوگ انبیاء کی نسل سے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پوری امت اپنا طرز زندگی بدل لیتی لیکن یہاں تو احساس تک نہیں ہوا۔افسوس اس پر نہیں کہ ہم ابھی تک بیدار نہیں ہوئے بلکہ اضطراب یہ ہے کہ آئندہ بھی ایسی کو ئی چنگاری نظر نہیں آ رہی ، صرف ترکی اور پاکستان سے کچھ لوگ اس دردکو محسوس کر رہے ہیں ۔ آج ہمیں امت بننے اور امت کا درد محسوس کرنے کی ضرورت ہے ، جو جس جگہ پر ہے وہاں رہتے ہوئے امت کا حصہ بن جائے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرے ۔حکمرانوں سے یہ امید نہیں کہ وہ عالمی برادری میں کوئی موثر کردار ادا کریں یہ کام میں نے اور آپ نے کرنا ہے، استاد نئی نسل کو امت پنے کا سبق دے ،تاجر اپنے مال کا کچھ حصہ نکالے، ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کچھ وقت نکال کر شام اور ترکی کی سرحد پر موجود ہسپتالوں میں وقت دیں اور سب سے اہم کردار نوجوان نسل کا ہے ۔ آپ اور کچھ نہ کریں صرف اپنا طرز زندگی بدل لیں ،خود کو امت کا حصہ بنا لیں اور دنیا میں کہیں بھی کسی بھی خطے میں مسلمانوں پر افتاد ٹوٹے تو آپ اس کو محسوس کرسکیں۔ آپ شامی مسلمانوں کے لئے اور کچھ نہ کریں آپ صرف یہاں بیٹھ کر اس دکھ درد کو محسوس کر لیں ، آپ اپنی سرگرمیوں کو مثبت سمت پر لے آئیں، آپ اپنی اسٹڈی کو مقصد کے تحت کر دیں اور آپ کی سرگرمیوں میں اسلام کی نشاة ثانیہ کا احساس زندہ ہو جائے ۔ اس وقت سب سے بڑا دکھ نوجوان نسل کی بے راہ روی اور بے مقصدیت ہے ، کسی کو کوئی فکر ہے نہ احساس ، زندگی کیسے گزر رہی ہے اور کیسے گزارنی ہے کسی کو کچھ احساس نہیں ، عالمی اور قومی حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں اور مستقبل میں مجھے کیا کردار ادا کرنا ہے کوئی اس بارے میں نہیں سوچتا۔ میں جب کسی یونیورسٹی میں جاتا ہوں تو دل ڈوب جاتا ہے ، اپنے مستقبل ، اپنے ملک اور امت کے حالات سے بے فکرنوجوان ، علم نہ گہرائی، تحقیق نہ تجزیہ، فکر نہ احساس، تہذیب نہ تمییز، حال سے واقفیت نہ مستقبل کا ادراک ۔ یہی حال مدارس کے طلباء کا ہے، ایک لگا بندھا نصاب اور لگی بندھی روٹین ، صبح سے شام او ر شام سے صبح ، نہ زمانے کے حالات کی خبر نہ مستقبل کے چیلنجز کا ادراک ، کوئی منصوبہ بندی نہ امت کی فکر بس ایک روٹین ہے جو چل رہی ہے اور یونہی چلتی رہے گی۔ شام میں جو ہو رہا ہے وہ دکھ اپنی جگہ مگر اس سے بڑا دکھ یہ ہے کہ یہ امت اور اس کا نوجوان خون ابھی تک سویا ہوا ہے ، اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی اگر یہ خون جاگ جاتا تو تکلیف کا احساس کم ہو جاتا مگر دکھ اور اضطراب ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.