
کس کی جیت، کس کی ہار
ہفتہ 25 اپریل 2015

محمد جمیل اعجاز
این اے 246کے نتائج کسی کے لیے بھی حیران کن نہیں ہیں۔ کچھ عناصر کے لیے ہوسکتا ہے یہ مایوس کن ہوں مگر حقائق یہی تھے کہ پتنگ اس بار بھی میدان مارے گی۔ وجہ یہی نہیں تھی کہ یہ ایک عرصے سے ایم کیو ایم کا گڑھ ہے ، یہاں نہ صرف الطاف حسین صاحب کا گھر تھا بلکہ ان کی پارٹی کا ہیڈ آفس بھی تھا ۔ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف جو سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے خلاف فعال تھی، اس کا یہاں کوئی فعال دفتر نہیں تھا۔ انتخابی مہم کے گنتی کے دنوں میں یہاں اس نے عارضی دفتر قائم کیا۔ کچھ یہی حال جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس نے مہم تو اچھی چلائی، اپنے ورکرز کو گھر گھر جاکر ووٹ ترازو کو ڈالنے کی ترغیب دی مگر ایم کیو ایم کی طرح کا ہیڈ آفس ان کا بھی یہاں نہیں ہے۔
این اے 246کے اس انتخابی معرکے پر ایک دنیا کی نظریں لگی تھیں۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو بھی ادراک تھا کہ وہ جیت نہیں سکیں گے اس کے باوجود کہ حلقے کے 213پولنگ سٹیشنوں پر رینجرز اور پولیس کے 7ہزار اہلکار تعینات تھے، اندر باہر کلوز سرکٹ کیمرے بھی لگائے گئے تھے اور خوف کی فضا عام انتخابات کے مقابلے میں کافی کم تھی مگر ایم کیو ایم سے اس کے گڑھ میں جیتنا ناممکنات سے قریب تھا۔ اس حلقے کے لوگوں کے مسائل تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے مقابلے میں ایم کیو ایم اچھی طرح حل کرتی رہی ہے۔ صرف انتخابی جلسے کرنے، بڑھکیں مارنے ، دروازہ کھٹکھٹاکر ووٹ مانگنے اور زبانی وعدوں سے کام چل جاتا تو لوگ عثمان معظم کو ووٹوں سے کیوں نہ سرفراز کرتے جنہوں نے منتخب ہونے کے بعد عافیہ صدیقی کو لانے کا دعویٰ کرڈالا تھا۔اس الیکشن سے یہ ضرور ہوا ہے کہ ایم کیو ایم کے مقابلے پر کسی کے نہ آنے کا تاثرختم ہوا ہے اور سیاسی پارٹیوں نے ن لیگ اور پی پی کی طرح حصہ نہ لینے کی بجائے جیت کے جذبے سے مہم چلائی۔
ایم کیو ایم کے لیے یہ نتائج البتہ الارمنگ ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ عام انتخابات جو صرف 2سال قبل ہی منعقد ہوئے تھے ایم کیو ایم کے ووٹوں کی تعداد 1لاکھ 39ہزار 386تھی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کے ووٹ 2سال میں 43743ووٹ کم ہوگئے۔ یہاں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد3لاکھ57ہزار 801ہے۔ عام انتخابات میں ایم کیوایم کو پڑنے والے ووٹوں میں سے8ہزار کے لگ بھگ کم ووٹ یعنی ایک لاکھ31ہزار411ووٹ ضمنی انتخاب میں کاسٹ ہوئے جن میں سے ایک ہزار 129ووٹ مسترد ہوئے۔ ووٹنگ ٹرن آؤٹ صرف 36.72رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے ایم کیو ایم کو رجسٹرڈ ووٹروں میں سے صرف26.73فیصد لوگوں نے منتخب کیا ہے۔ باقی نے انتخابی عمل سے ہی عملاً اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ ان اعداد و شمار سے یہ نتائج ایم کیو ایم کے لیے حیران کن لگ رہے ہیں۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ایم کیو ایم کی جیت کا مارجن کم کیا جائے انتخابی نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کم از کم اس میں ضرور کامیاب رہے ہیں۔
این اے 246کے اس انتخابی معرکے پر ایک دنیا کی نظریں لگی تھیں۔
(جاری ہے)
کہا جارہا تھا یہ الیکشن فیصلہ کرے گا کہ ایم کیو ایم سے کراچی کی بادشاہت چھننے والی ہے۔
نتائج بتارہے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔ جمعہ کی صبح اعلان کیے گئے سرکاری نتائج کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار کنور نوید جمیل نے 95ہزار644ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی، پی ٹی آئی کے امیدوار عمران اسماعیل 22ہزار 821جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم 9ہزار 56ووٹ حاصل کرپائے۔ اس طرح یہ مقابلہ دراصل فاروق ستار کی پیش گوئی کے مطابق پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے درمیان دوسری اور تیسری پوزیشن کا ہی رہا اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی پیش گوئی کہ الطاف حسین ہمیشہ کے لیے استعفا دینے پر مجبور ہوجائیں گے، غلط نکلی۔اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو بھی ادراک تھا کہ وہ جیت نہیں سکیں گے اس کے باوجود کہ حلقے کے 213پولنگ سٹیشنوں پر رینجرز اور پولیس کے 7ہزار اہلکار تعینات تھے، اندر باہر کلوز سرکٹ کیمرے بھی لگائے گئے تھے اور خوف کی فضا عام انتخابات کے مقابلے میں کافی کم تھی مگر ایم کیو ایم سے اس کے گڑھ میں جیتنا ناممکنات سے قریب تھا۔ اس حلقے کے لوگوں کے مسائل تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے مقابلے میں ایم کیو ایم اچھی طرح حل کرتی رہی ہے۔ صرف انتخابی جلسے کرنے، بڑھکیں مارنے ، دروازہ کھٹکھٹاکر ووٹ مانگنے اور زبانی وعدوں سے کام چل جاتا تو لوگ عثمان معظم کو ووٹوں سے کیوں نہ سرفراز کرتے جنہوں نے منتخب ہونے کے بعد عافیہ صدیقی کو لانے کا دعویٰ کرڈالا تھا۔اس الیکشن سے یہ ضرور ہوا ہے کہ ایم کیو ایم کے مقابلے پر کسی کے نہ آنے کا تاثرختم ہوا ہے اور سیاسی پارٹیوں نے ن لیگ اور پی پی کی طرح حصہ نہ لینے کی بجائے جیت کے جذبے سے مہم چلائی۔
ایم کیو ایم کے لیے یہ نتائج البتہ الارمنگ ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ عام انتخابات جو صرف 2سال قبل ہی منعقد ہوئے تھے ایم کیو ایم کے ووٹوں کی تعداد 1لاکھ 39ہزار 386تھی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کے ووٹ 2سال میں 43743ووٹ کم ہوگئے۔ یہاں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد3لاکھ57ہزار 801ہے۔ عام انتخابات میں ایم کیوایم کو پڑنے والے ووٹوں میں سے8ہزار کے لگ بھگ کم ووٹ یعنی ایک لاکھ31ہزار411ووٹ ضمنی انتخاب میں کاسٹ ہوئے جن میں سے ایک ہزار 129ووٹ مسترد ہوئے۔ ووٹنگ ٹرن آؤٹ صرف 36.72رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے ایم کیو ایم کو رجسٹرڈ ووٹروں میں سے صرف26.73فیصد لوگوں نے منتخب کیا ہے۔ باقی نے انتخابی عمل سے ہی عملاً اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ ان اعداد و شمار سے یہ نتائج ایم کیو ایم کے لیے حیران کن لگ رہے ہیں۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ایم کیو ایم کی جیت کا مارجن کم کیا جائے انتخابی نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کم از کم اس میں ضرور کامیاب رہے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.